ہم اپنے قارئین کے لئے طبقاتی جدوجہد کی کانگریس 2025ء کی پہلی مجوزہ دستاویز ’’تاریخ کا نیا موڑ: ٹرمپ، بحران اور لبرل آرڈر کا زوال (عالمی صورتحال و پیش منظر 2025ء)‘‘ ٹیکسٹ اور پی ڈی ایف دونوں میں شائع کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں...
یوکرائن جنگ پر مارکسی موقف (کچھ بنیادی نکات)
ضروری ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کا قومی مسئلے پر تاریخی موقف دہرایا اور مضبوط کیا جائے اور مشرقی یورپ، قفقاز (Caucasus) اور وسط ایشیا کی اقوام کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کو بنیادی حل کے طور پر پیش کیا جائے۔
پاک بنگلہ دیش تعلقات: سامراجی مفادات کی سفارتکاری
محنت کشوں کو حکمرانوں کی سفارتکاری کے متوازی اپنے طبقاتی اتحاد کو مستحکم بنانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
عورت کی آزادی‘ جہد مسلسل کی متقاضی!
مردانہ تسلط اور پدر شاہی پر مبنی سوچیں اور رجحانات‘ سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر پیداوار ہیں۔ جو محروموں و محکوموں کا بلا صنفی، مذہبی و لسانی تفریق استحصال کرتا ہے اور پدر سری معاشرے کو وہ بنیادیں فراہم کرتا ہے جس سے خواتین کا دہرا تہرا استحصال ممکن ہو پاتا ہے۔
نئی نہریں اور پانی کے تنازعات: حل کیا ہے؟
اس زومبی سرمایہ داری نے نہ صرف تمام قدرتی وسائل کو انسان او ر انسانی سماج سے ماورا کر کے محض منافع کی نگاہ سے دیکھا ہے بلکہ ماحولیات کو تباہ کرتے ہوئے بھی اس نے انسانی زندگی کے مستقبل کے سوال کو یکسر نظر اندا ز کر دیا ہے۔
لال خان: کچھ یادیں، کچھ باتیں
آج انقلابیوں کی نئی نسل کا فریضہ یہی ہے کہ وہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور اس نصب العین تک پہنچائیں جس کے لیے لال خان کی تمام زندگی وقف رہی۔
پاکستانی معیشت: بحران کا استحکام!
پاکستانی سرمایہ داری ایک ایسی تاریخی تاخیرزدگی اور متروکیت کا شکار ہے کہ اس میں جزوی بہتری و بحالی ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہی بنتی ہے۔
’ڈیپ سیک‘ کی طرف بڑھتی مصنوعی ذہانت
ڈیپ سیک کے ظہور نے یہ دکھایا ہے کہ اے آئی کو اس سطح تک ترقی دی جا سکتی ہے کہ یہ انسانیت اور اس کی سماجی ضروریات کے لیے مددگار ثابت ہو۔
فنا کے پیامبر
ٹرمپ اور اس کے گینگ کو اگر قدم جمانے کا موقع مل جاتا ہے تو روس میں پیوٹن، ترکی میں اردگان اور انڈیا میں مودی کی طرح ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔
موت کے مسافر
ایسی جان لیوا ہجرتیں کسی ایک ملک کا مسئلہ بھی نہیں ہیں۔ بلکہ جنوب ایشیا (بشمول پاکستان و بھارت)، افریقہ، لاطینی امریکہ سمیت سامراج کے خونی پنجوں میں جکڑی کمزور معیشتوں کے حامل تمام خطوں کے محنت کش‘ بالخصوص نوجوان خود کو حالات کے ہاتھوں بے بس اور مجبور پاتے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی: کچھ بنیادی نکات اور مستقبل کے امکانات
امریکی سامراج اگرچہ جنگ بندی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کھلی، واضح اور بڑے پیمانے کی ’’جنگ‘‘ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کے کالونیل منصوبے کو جاری رکھنے سے روکے گا۔
سامراجی توسیع پسندی کی تباہ کاریاں
ایک طرف پہلے سے مشرق وسطیٰ میں”گریٹر اسرائیل“ منصوبے کے تحت جاری خون ریزیاں ہیں اور اب ٹرمپ کے تحت چین اور روس سے امریکہ کا تضاد دنیا بھر میں مزید تنازعات کا راستہ کھول رہا ہے۔
جمی کارٹر نے کیسے ریگن کا راستہ ہموار کیا…
کارٹر کا دورِ حکومت ایک اہم موڑ تھا۔ جہاں سے مزاحمتی تحریکوں کے عروج کی بجائے دہائیوں پر مبنی پسپائی اور گراوٹ کے سفر کا آغاز ہوا۔
شام: سامراجی کھلواڑ سے برباد عوام
اسد خاندان کے جابرانہ اقتدار کا خاتمہ تو ہوا ہے لیکن ہیئت تحریر الشام ایسی قوتوں سے امیدیں وابستہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔
امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت: ’’سارا چکر معیشت کا ہے!‘‘
بجائے اس کے کہ ہیرس بتاتی کہ اس میں اور ٹرمپ میں کیا فرق ہے‘ اس نے زور دیا کہ اس میں اور ریپبلکن پارٹی میں کیا مشترک ہے۔ یوں اس نے ایک نیم ریپبلکن مہم ہی چلائی اور ایک ہلکے انداز میں انہی کا ایجنڈا پیش کیا۔