ایک ایسا ملک جس کی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد حصہ کسی نہ کسی طرح کاشتکاری سے منسلک ہو اور وہاں کی کل زیر کاشت زمین کاایک بڑا حصہ ہر سال گندم کی فصل تیار کرتا ہو‘ وہاں ایسا بحران حیران کن سے زیادہ تشویش ناک اور شرمناک ہے۔
بحرانات
سفاک نظام میں سیلاب کی تباہی
اس وقت آبادیاں ایسے بے ہنگم انداز میں پھیل رہی ہیں کہ جس میں برساتی پانی کے قدرتی راستوں اور نکاسی آب کے مسائل کو سرے سے ہی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ نتیجہ ہر کچھ عرصے بعد سیلابی تباہی ہے۔
پاکستان: تذویراتی گہرائی کا بیک فائر!
معاشی بحران اور اس خطے کے مخصوص حالات کے ارتقا کے پس منظر میں پاکستانی ریاست اپنی تاریخ کے سب سے گہرے و ہمہ جہت معاشی، سیاسی، سفارتی، ریاستی اور مالیاتی بحرانات کا شکار ہے۔ عدم استحکام اور ہر سطح پر ٹوٹ پھوٹ ایک معمول بن کے رہ گیاہے۔
’’تبدیلی‘‘ کا دیوالیہ پن
عمران خان نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے بنفس نفیس بیل آؤٹ ’پیکیج‘ کی بھیک مانگی ہے…
سی پیک: سامراجی راہداری
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
بجلی کے زخم
اگر بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے تو گلی سڑی اور بوسیدہ ٹرانسمشن لائنیں اور ڈسٹریبیوشن انفراسٹرکچر اس اضافی پیداوار کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے۔
گیس کی ’گڈ گورننس‘
حقائق کو ذرا سا کریدا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مسائل کی وجوہ کچھ اور ہیں اور حل کچھ اور ہی پیش کیا جاتا ہے، جس سے اکثر اوقات مسائل مزید بگڑتے ہی ہیں۔
سانحہ کراچی: ہمیں کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا!
گرمی یقینی طور پر بہت زیادہ تھی اور حبس کی شدت بھی پچھلے سالوں سے زیادہ تھی لیکن لوڈ شیڈنگ نے کچھ زیادہ ہی کراچی کو اپنے محاصرے میں لیا ہوا تھا۔
بجلی کے لٹیرے
یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ ان آئی پی پیز کو نیشنلائز کر کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول اور عوامی ضرورت کے تحت چلائے بغیر بجلی کا بحران کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔