ایسی جان لیوا ہجرتیں کسی ایک ملک کا مسئلہ بھی نہیں ہیں۔ بلکہ جنوب ایشیا (بشمول پاکستان و بھارت)، افریقہ، لاطینی امریکہ سمیت سامراج کے خونی پنجوں میں جکڑی کمزور معیشتوں کے حامل تمام خطوں کے محنت کش‘ بالخصوص نوجوان خود کو حالات کے ہاتھوں بے بس اور مجبور پاتے ہیں۔
تجزیہ
غزہ میں جنگ بندی: کچھ بنیادی نکات اور مستقبل کے امکانات
امریکی سامراج اگرچہ جنگ بندی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کھلی، واضح اور بڑے پیمانے کی ’’جنگ‘‘ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کے کالونیل منصوبے کو جاری رکھنے سے روکے گا۔
سامراجی توسیع پسندی کی تباہ کاریاں
ایک طرف پہلے سے مشرق وسطیٰ میں”گریٹر اسرائیل“ منصوبے کے تحت جاری خون ریزیاں ہیں اور اب ٹرمپ کے تحت چین اور روس سے امریکہ کا تضاد دنیا بھر میں مزید تنازعات کا راستہ کھول رہا ہے۔
شام: سامراجی کھلواڑ سے برباد عوام
اسد خاندان کے جابرانہ اقتدار کا خاتمہ تو ہوا ہے لیکن ہیئت تحریر الشام ایسی قوتوں سے امیدیں وابستہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔
امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت: ’’سارا چکر معیشت کا ہے!‘‘
بجائے اس کے کہ ہیرس بتاتی کہ اس میں اور ٹرمپ میں کیا فرق ہے‘ اس نے زور دیا کہ اس میں اور ریپبلکن پارٹی میں کیا مشترک ہے۔ یوں اس نے ایک نیم ریپبلکن مہم ہی چلائی اور ایک ہلکے انداز میں انہی کا ایجنڈا پیش کیا۔
شام: ایک اور آمریت کا خاتمہ، لیکن مستقبل غیر یقینی سے دوچار
انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کا نصب العین ایک انقلابی اور سامراج و سرمایہ داری مخالف متبادل کی تعمیر ہے جو مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کی کڑی کے طور پر ایک سوشلسٹ شام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھائے۔
سموگ: سرمایہ داری کا ایک اور ’’تحفہ‘‘
ایک طرف سموگ کا عفریت ہے تو دوسری جانب روزی روٹی کے لالے۔ اور تیسری جانب زہریلی ہوا کے نتیجے میں ہسپتالوں کے اضافی اخراجات۔ گویا یہ چہار سو کا حملہ ہے جس کی بھینٹ پھر غریب آدمی ہی چڑھتا ہے۔
سری لنکا: ڈسانائیکے کی آزمائش!
ڈسانائیکے نے اپنی وکٹری سپیچ میں سری لنکا کو آئی ایم ایف کے ساتھ ”شراکت داری“ میں آگے بڑھانے کی بات کی ہے۔ جو کمپرومائیز کا واضح اشارہ ہے۔
طلبہ احتجاج: ان کے غصے میں خوشبو بغاوت کی ہے!
ماہ اکتوبر کے وسط سے لاہور کے پنجاب کالج سے پھوٹنے والے طلبہ مظاہرے، جو کئی شہروں تک پھیل گئے، درحقیقت سماجی سطح کے نیچے پلنے والی نفرت، غصے اور مسلسل عدم اطمینان کا اظہار تھے۔
بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک: دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں!
طلبہ کی حالیہ تحریک جہاں بنگلہ دیش کے اندر اور باہر آنے والی تحریکوں کے لیے اپنے اسباق چھوڑ جائے گی وہاں ناگزیر طور پر محنت کش طبقے کے تاریخ کے میدانِ عمل میں اترنے کی پیش رفت کو بھی مہمیز دے گی۔
جموں کشمیر: نو آبادیاتی جبر کے خلاف نفرت کا ووٹ!
عمر عبداللہ نے انتخابات میں فتح کے بعد جہاں ریاستی تشخص اور دفعہ 370 کی بحالی کے وعدہ کو دہرایا ہے وہیں اس وعدہ کی فوری تکمیل کے امکان کو بھی خود ہی رد بھی کیا ہے۔
پاکستان: آئینی ترمیم نہیں انقلابی جراحی چاہئے!
ججوں کے من پسند چناﺅکے طریقہ کار اور الگ سے آئینی بینچ کی تشکیل کے باوجود ریاست کے اندر کی گہری دراڑوں اور نظام کی فرسودگی کی موجودگی میں سیاسی، آئینی اور انتظامی استحکام کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔
طلبہ کے احتجاج: ہم آ گئے تو گرمی ِ بازار دیکھنا!
آرام دہ کلاس رومز میں پڑھنے والے لہولہان بچوں کا یہ احتجاج ایک پکار ہے کہ کوئی تو ہو جو ہمیں بھی سنے۔ اور اگر کوئی نہیں سنے گا ہم اسے سننے پر مجبور کر دیں گے!
کوئلے کی کانوں میں موت کا سفر
پاکستان میں نہ صرف کان کنی معدنیات کے ذخائر کی نسبت بہت کم ہے بلکہ جو کان کنی کی بھی جا رہی ہے اس میں زیادہ تر کا طریقہ کار ڈھائی ہزار سال پرانا ہے۔ جس کی تصویر کشی سپارٹاکس کی داستان اور قدیم مصر کی کانوں میں کام کرنے والے غلاموں کے احوال میں ملتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں نیا کہرام: صورتحال اور امکانات
دنیا آج ماضی کے کسی دور سے کہیں زیادہ عدم استحکام، انتشار اور خونریزی سے دوچار ہے۔ یہ استحصال، جبر اور انسان دشمنی پر مبنی‘ ایک تاریخی طور پر متروک سماجی نظام کے ناگزیر مضمرات ہیں۔ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ نسل انسان کو بربریت کی طرف دھکیلتا جاتا ہے۔