جذباتیت میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں مگر برسر اقتدار آنے کے بعد ہی اُن کو یہ پتہ چلا کہ پاکستان جیسی پسماندہ اور کمزور معیشت کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلانا پڑے تو قرضوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
معیشت
مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے!
اس اذیت بھری زندگی سے نجات کے حصول کے لیے اسی نظام میں رہتے ہوئے حکمران تبدیل کرنے کی بجائے حالات سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کے متقاضی ہیں۔
چھوٹے قرضوں سے بڑا استحصال
جب تک ذرائع پیداوار کی ملکیت چند لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اس وقت تک غربت اور امارت کی خلیج میں اضافہ ہوتا ہی رہے گا۔ کرۂ ارض پر ایک ایسا سماج جس میں غریب اور امیر کی تفریق ختم ہو جائے صرف ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کو ختم کر کے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے اور یہ کام انقلابی سوشلزم کے ذریعے ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان: یہاں سے کہاں؟
محنت کش طبقہ نظام کو بچانے کی نہیں اکھاڑنے کی لڑائی لڑے گا۔
دھن والوں کی سیاست
صرف یہ حکومت ناکام نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری کی ہر حاکمیت ناکام ہے۔ موجودہ تحریک ِ انصاف کی حکومت بھی اس عہد کے زوال اور گراوٹ کا ایک پرتو ہے۔
پاکستان کا معاشی بحران: کیا آئی ایم ایف پروگرام سے معیشت بحال ہو پائے گی؟
ملک بار بار دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچتا رہا ہے اور یہاں کے حکمرانوں کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے اداروں سے بھیک کے لئے رجوع کرنا پڑتا رہا ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری: تریاق یا زہر؟
ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس نہیں بجھتی۔
معاشی دہشتگردی
ہر اعشاریہ معیشت کی شدید بحرانی کیفیت کی غمازی کر رہا ہے۔
پاکستان: معیشت کی زوال پذیری
عوام کا جینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے۔ سماج میں بے چینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
جب معیشت ہی ناکام ہو؟
مروجہ سیاست میں اپوزیشن سے لے حکومت تک اس معیشت کو چلانے کے طریقہ کار پر بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔
احمقوں کی جنت اور زمینی حقائق
ایک معاشی دیوالیہ پن کی کیفیت ہے جسے ٹالنے کے لئے پالیسی سازوں کے پاس آپشن بہت محدود ہیں۔
دیوالیہ معیشت میں جنگی حالات کی واردات
بحرانوں کے ایسے ادوار میں حکمرانوں کے لیے محنت کشوں پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
’صحت انصاف کارڈ‘ کا دھوکہ
ایسی وارداتوں کا مقصد صحت کے شعبے کا پہلے سے قلیل بجٹ مزید کم کرنا‘ نجکاری کی راہ ہموار کرنا اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ کرنا ہے۔
’’تبدیلی‘‘ کا دیوالیہ پن
عمران خان نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے بنفس نفیس بیل آؤٹ ’پیکیج‘ کی بھیک مانگی ہے…
ایسنشل سروسز ایکٹ کا نفاذ، ظلمتوں کا نیا راج
یہ واردات نجکاری کے اُس عمل کو آگے بڑھانے کے لئے جاری ہے جو موجودہ حکومت ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑے پیمانے پہ کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔