ایک طرف سموگ کا عفریت ہے تو دوسری جانب روزی روٹی کے لالے۔ اور تیسری جانب زہریلی ہوا کے نتیجے میں ہسپتالوں کے اضافی اخراجات۔ گویا یہ چہار سو کا حملہ ہے جس کی بھینٹ پھر غریب آدمی ہی چڑھتا ہے۔
سماجی مسائل
طلبہ کے احتجاج: ہم آ گئے تو گرمی ِ بازار دیکھنا!
آرام دہ کلاس رومز میں پڑھنے والے لہولہان بچوں کا یہ احتجاج ایک پکار ہے کہ کوئی تو ہو جو ہمیں بھی سنے۔ اور اگر کوئی نہیں سنے گا ہم اسے سننے پر مجبور کر دیں گے!
سانحہ امر کوٹـ: عوام کی جرات، حکمرانوں کی منافقت
یہ بے سبب نہیں ہے کہ امر کوٹ سانحہ میں ایک طرف ٹی ایل پی کے لوگ ملوث تھے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ملاؤں کے ساتھ مل کے قاتلوں کو ہار پہنا رہے تھے۔
نیا لیبر کوڈ: محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی نئی واردات
اس نئے لیبر کوڈ کے تدارک یا مزاحمت کے لئے سب سے پہلے مزدور تحریک کی نئے سرے سے صف بندی کی ضرورت ہے۔ جو صرف تنظیمی نہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی ہو۔
موسیٰ خان کا قتل: خون جو کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے!
موسیٰ خان کو خراج تعلیمی اداروں کے حبس زدہ ماحول میں اس بوسیدہ اور گلے سڑے سرمایہ دارانہ تعلیمی و سماجی نظام کا انقلابی متبادل پیش کرنے والی سیاسی، نظریاتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔
کشمیر میں تحریک کی فتح: بڑی پیش رفت لیکن حتمی لڑائی ابھی باقی ہے!
یہ صرف جموں کشمیر کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کی کامیابی نہیں بلکہ اس پورے خطے اور دنیا میں آزادی، انقلاب اور طبقاتی و قومی نجات کی جدوجہد کیلئے حوصلے اور طاقت کا باعث ہے اور مستقل کی لڑائیوں کیلئے بہت سے اسباق بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
افغان مہاجرین: جائیں تو جائیں کہاں؟
اس نظام میں سرمائے کی نقل و حرکت تو آزاد ہے لیکن انسانوں کو سرحدوں میں قید کر کے ویزوں کا اسیر بنا دیا گیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کسی انسان کا ”غیر قانونی“ سٹیٹس انسانیت کی تذلیل اور توہین کے مترادف ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر: طبقاتی مسائل کیخلاف تحریک نئے مرحلے میں داخل
اس تحریک کی حتمی کامیابی کا انحصار پھر پاکستان کے مختلف شہروں اور قومیتوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی شمولیت اور اس سارے نظامِ حکمرانی کو تبدیل کرنے پر ہی ہو گا۔
روہی: پیاسی صدیوں کا تسلسل
صدیوں کی پیاسی روہی کوہزاروں سال پہلے تو ممکن نہیں تھا مگر اب جدید تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور ذرائع کے سبب سیراب اور شاداب کیا جاسکتا ہے۔
میہڑ سانحہ: جلتی بستیاں اور بے حس حکمران
یہ ظالم معاشرہ ہے جس کو شعوری طور پر قائم رکھا گیا ہے۔ یہاں عام محنت کشوں کی زندگیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس سماج کے رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کا عفریت
برطانوی سامراج کے یہ تمام تر جرائم 1947ء میں اُس وقت اپنے عروج کو پہنچے جب انہوں نے جنوب ایشیائی برصغیر کے زندہ جسم کو مذہبی تعصب کی بنیاد پر کاٹ کر دو الگ ملک بنائے۔
رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور ناہموار ترقی کی قیمت
جس تیزی سے ان ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسی تناسب سے لوگ بے گھر بھی ہو رہے ہیں۔ جس رفتار سے شہر پھیلتے جا رہے ہیں اتنی تیزی سے انفراسٹرکچر کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
بے معنی شور
زندگی برقرار رکھنے کی ناگزیریت ہر جبر اور ضابطے کو پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بنیاد پرستی کی محدودیت
سماجی ٹھہراؤ سے پیدا ہونے والے خلا کے اپنے مضمرات ہوتے ہیں۔ ایسے ادوار میں ماضی کے توہمات اور پسماندہ نظریات اوپر والی سطحوں پر تیرتے رہتے ہیں۔
شناخت کا بحران اور کراچی کا المیہ
کراچی کے محنت کشوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا علم بلند کریں۔