انسانیت آج جس کیفیت کی شکار ہے اسے ”کثیرالجہتی بحران“ کا نام دیا جا رہا ہے جس میں کئی طرح کے بحرانات اکٹھے ہو کر امڈ آئے ہیں۔ لیکن جن کا بنیادی ماخذ پھر یہی نظامِ سرمایہ ہے۔
عالمی معیشت
قرضوں کا عالمی بحران
آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ قومی حکومتوں کے ہاتھوں میں سرمائے کے بہاؤ پر کنٹرول کا ہتھیار ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے مالیاتی اثاثوں کو امیر افراد اور کارپوریشنوں کی جانب سے سرمائے کی باہر منتقلی سے بچا سکیں۔
عالمی منظر نامے میں چھپے طوفان
سرمایہ داری کی لاش ہمارے درمیان گل سڑ رہی ہے۔ ہماری فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں میں زہر گھول رہی ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری: تریاق یا زہر؟
ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس نہیں بجھتی۔
کرہ ارض پہ سرمائے کا کہرام!
مسئلہ یہ ہے کہ دولت کا یہ نظام مزید چلنے کی سکت نہیں رکھتا اور لہو بہا کر اس کو زبردستی عوام پر مسلط کیا جارہا ہے۔
امریکہ چین تناؤ
جدلیاتی طور پر چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور سستی لیبر والا یہی چین آج مغرب کے سامنے ایک معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
عالمی طاقتوں کا بگڑتا توازن
پروٹیکشنسٹ تجارتی پالیسیاں امریکہ کی معاشی شرح نمو میں عارضی اضافہ تو شاید کریں لیکن ان سے مستقبل کے تضادات اور مسائل بڑھیں گے۔
نحیف عالمی معیشت میں تجارت کی جنگ
ٹرمپ کے جواب میں متاثر ممالک بھی ٹیرف لگائیں گے جس سے امریکی معیشت کے مسائل بڑھ جائیں گے۔
سرمایہ دارانہ بحران کے سیاسی مضمرات
’معاشی استحکام‘ کے حصول کے لئے مستقل کٹوتیوں، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی جو پالیسیاں لاگو کی گئی تھیں‘ ان کا نتیجہ سیاسی اتھل پتھل کی شکل میں سامنے آیا ہے۔