یہ بے سبب نہیں ہے کہ امر کوٹ سانحہ میں ایک طرف ٹی ایل پی کے لوگ ملوث تھے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ملاؤں کے ساتھ مل کے قاتلوں کو ہار پہنا رہے تھے۔
پیپلز پارٹی
5 جولائی 1977ء کا سبق
پارٹی کے اندر نظام کی حدود میں اقتدار پر براجمانی کی نفسیات اور ذاتی مفادات و مالی منفعت کے حصول کی دوڑ نے 1968-69ء کے سوشلسٹ انقلاب کی لہروں میں ایسی دراڑیں پیدا کیں کہ پاکستانی اشرافیہ نے جنرل ضیا الحق کی سربراہی میں 5 جولائی 1977ء کی سیاہ رات برپا کر دی۔
بھٹو کے عدالتی قتل کے 41 سال
اگر غور کیا جائے تو اس نظام کی حدود و قیود میں بھٹو کا اقتدار میں آنا ہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
معراج محمد خان کی جدوجہد!
ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ ہار ماننے سے انکار کیا۔
5 جولائی 1977ء کا شب خون
ضیاالحق کی سربراہی میں سامراجی غلامی کے خونی مضمرات اگلی کئی نسلوں کو بھگتنے پڑرہے ہیں۔
42 سال کا اندھیر!
ظلم و جبر کی ایک یلغار تھی جس کے ذریعے مزدور تحریک، ٹریڈ یونین اور طلبہ تنظیموں کو کچلا گیا۔
کراچی کا مزدور انتقام بھی لے گا!
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آکر اگر کسی طبقے کا نام لینے تک سے بھی اجتناب کیا ہے تو وہ ’’مزدور طبقہ‘‘ ہے۔
لیاری سے عیاری کا انجام
لیاری کو کربلا جیسی پیاس سے دوچار کرنے والے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی کوئی آواز تو بلند ہونی تھی۔ اتوار کو بس یہی ہوا۔
’نظریہ ضرورت‘
آصف زرداری نے 4 مئی کو لاہور میں بیان دیا ہے کہ پیپلز پارٹی ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت تحریکِ انصاف سے بھی اتحاد کرنے کو تیار ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی: نظریاتی غداریوں کا سفر پیہم
عوام کی بجائے عالمی اور مقامی مقدر حلقوں کوطاقت کے نئے ’سرچشمے‘ سمجھ لینے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا زوال تیز تر ہے۔
بے نظیر کا قاتل کون؟
ایسی وارداتوں کی تفتیش کا فیصلہ کن نتیجہ نہ پیش کرسکنا اور کسی ٹھوس عدالتی فیصلے کا نہ ہو پانا بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔