اس سے بڑی منافقت اور کیا ہو گی کہ ایک طرف امن کے راگ الاپے جائیں تو دوسری طرف جنگ کے طبل بجا کر، دہشت گرد ریاستوں کی پشت پناہی کر کے ہتھیار بیچے جائیں۔ یہ اس نظامِ سرمایہ کی حدود و قیود ہیں کہ آپ نیک خواہشات کے باوجود دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتے۔
مارکسی تعلیم
لینن کی میراث کے 100 سال
اس عظیم انقلابی کی سیاسی و نظریات میراث آج بھی روشنی کا وہ مینار ہے جو اس فرسودہ اور متروک نظامِ سرمایہ کے خاتمے کی تاریخی جدوجہد میں پوری دنیاکے انقلابیوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔
کارل مارکس کون تھا؟
انٹرنیشنل کے لئے انتھک کام اور اس سے بھی بڑھ کر انتھک فکری مصروفیات نے مارکس کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔ اُس نے سیاسی معاشیات کو ازسر نو مرتب کرنے اور ’سرمایہ‘ کو مکمل کرنے کا کام جاری رکھا، جس کے لئے اُس نے بہت سا نیا مواد اکٹھا کیا اور کئی زبانوں (مثلاً روسی زبان) کا مطالعہ کیا۔ تاہم صحت کی خرابی نے اسے ’سرمایہ‘ کی تصنیف مکمل نہ کرنے دی۔
قومی سوال اور لینن
’’بورژوا قوم پرستی اور پرولتاری بین الاقوامیت دو ناقابل مصالحت نعرے ہیں جو پوری سرمایہ دارانہ دنیا میں دو دیوہیکل طبقاتی کیمپوں سے وابستہ ہیں اور قومی سوال کی طرف دو پالیسیوں بلکہ دنیا کو دیکھنے کے دو طریقوں کی غمازی کرتے ہیں‘‘
جمہوری مرکزیت اور مروجہ تنظیمی طریقہ کار پر
نہ ہی میرا خیال ہے کہ میں کوئی ایسا فارمولا پیش کر سکتا ہوں جو ”ہمیشہ ہمیشہ کے لئے“ غلط فہمیوں اور غلط تشریحات کا خاتمہ کر سکے۔ پارٹی ایک زندہ جسم ہوتی ہے۔ یہ بیرونی رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد اور داخلی تضادات کیساتھ ہی آگے بڑھتی ہے۔
اصل دشمن سرمایہ داری
ایک سرمایہ دارانہ سماج میں غربت، محرومی، مشکلات، بے معانی نوکری اور عدم اطمینان کا ذمہ دار ہمیشہ ایک فرد کو قرار دیا جاتا ہے۔
بحران زدہ معروض میں انقلابی پارٹی کا سوال
انقلابی تنظیم ہر قسم کے ریاستی جبر سے ٹکرا کر ہی محنت کشوں کی نمائندہ پارٹی بن سکتی ہے جس میں استحصالی نظام کو شکست دینے کی صلاحیت موجود ہو۔
انسان کا مستقبل
دانائی اور ذہانت کی چنگاریوں کو شعلوں میں بدلنے سے قبل ہی انسانوں کی مخفی گہرائیوں میں دبا دیا جاتا ہے۔
ترمیم پسندی، موقع پرستی اور انقلابی سوشلزم
”ایسے ممالک جو سرمایہ دارانہ طرزارتقا میں پیچھے رہ گئے ہیں، بالخصوص نوآبادیاتی اور نیم نو آبادیاتی ممالک، وہاں جمہوریت اور قومی نجات کے فرائض صرف پرولتاری آمریت کے ذریعے ہی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں پرولتاریہ محکوم اقوام اور سب سے بڑھ کر کسان عوام کے قائد کا کردار ادا کرے گا۔“
سرمایہ داری میں تعلیم کا مسئلہ
طبقاتی سماج کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سماج کے ہر مظہر پر حکمران طبقات کی ترجیحات حاوی رہتی ہیں۔
انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس: تخلیق اور ایجادات کے پاﺅں کی بیڑیاں
زمین کے وسائل کی لوٹ مار اور منافعوں کی دوڑ میں سرمایہ داروں نے کرہ ارض کا چہرہ ہی مسخ کر دیا ہے۔
غذا سے غذائیت تک کا بحران
وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ خوراک کی پیداوار سے لے کر انسانوں تک ترسیل پر منافع خوری کی ہوس کا راج ہے اور یہ راج اسی صورت میں ختم ہو گا جب اس دھرتی پر منافعوں کی ہوس سے پاک انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کرنے والا سوشلسٹ نظام رائج کیا جائے گا۔
مارکسزم کے تین سرچشمے اور تین اجزائے ترکیبی
مارکس کی تعلیمات تمام مہذب دنیا میں سرکاری اور لبرل، دونوں قسم کی بورژوا سائنس کی نفرت اور عداوت کو بیدار کر دیتی ہیں۔
نیو لبرل ازم کیا ہے؟
محنت کش عوام نہ صرف حکمرانوں کا یہ سب کھیل تماشا دیکھ رہی ہے بلکہ اس سب سے عملاً سیکھ بھی رہی ہے۔
جدلیاتی مادیت تک کا نظریاتی سفر
مارکس اور اینگلز جدلیاتی مادیت، جسے وہ فطرت کے فلسفے کا نام دیتے تھے، پر مزید کام کرنا چاہتے تھے مگر انہوں نے تحریکوں کے ایسے ہیجان خیز دور میں وقت گزارا کہ وہ اس کے لئے زیادہ وقت نہ نکال پائے۔