ادب کو تازہ زمانوں کا معمار ہونا چاہئے۔ یہ سماجی تضادات کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ اپنے عہد کی زندگی کا عکس بھی ہے۔ اور محض عکس ہی نہیں ہے۔ نئے سماج اور نئے صبح و شام کی تعمیر و تشکیل کا اوزار بھی ہے۔
فنون لطیفہ
نعرہ باز
کرتا ہوں لعن طعن جو سرمایہ دار پر
راوی پار
مردہ بچہ شاہنی کی چھاتی سے لپٹا ہوا تھا…
ضیا ابھی تک مرا نہیں ہے
وطن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
بجٹ
رہبروں کا حصہ ہے ہر مال میں
سرخ سویرا
کیسے ہوظلم کی رات بسر، اس بات کا ڈر اب کس کو ہے
بیتھوون: انقلاب کا موسیقار
بیتھوون نے وہ اصول تبدیل کر دیے جن کی بنیاد پر موسیقی تخلیق کی جاتی تھی اور سنی جاتی تھی۔ اس کی موسیقی سکون نہیں دیتی بلکہ لرزا دیتی ہے، بے چین کر دیتی ہے۔
اُدھر ہوتے تو…!
وہ اگست کے مہینے میں آپے سے باہر ہو جایا کرتے تھے۔
’کوارنٹین‘
پلیگ تو خوف ناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی…
نظم: ’لال خان‘
ڈاکٹر لال خان کی وفات پر…
جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب، تُو وہ بات لِکھ
اتنی اندھیری تھی نہ کبھی، پہلے رات لِکھ
جامن کا پیڑ
سپرنٹنڈنٹ انڈر-سکریٹری کے پاس گیا۔ انڈر-سکریٹری ڈپٹی سکریٹری کے پاس گیا۔ ڈپٹی سکریٹری جوائنٹ سکریٹری کے پاس گیا۔ جوائنٹ سکریٹری چیف سکریٹری کے پاس گیا۔
لاجونتی
مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماں باپ، بہن اور بھائیوں نے انھیں پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔
کفر
آدمی نے اپنی بے ایمانی اور کمینے پن کو چھپانے کے لیے مذہب کا لفظ گڑھ لیا ہے۔
طاقت کا امتحان
یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔