اس زومبی سرمایہ داری نے نہ صرف تمام قدرتی وسائل کو انسان او ر انسانی سماج سے ماورا کر کے محض منافع کی نگاہ سے دیکھا ہے بلکہ ماحولیات کو تباہ کرتے ہوئے بھی اس نے انسانی زندگی کے مستقبل کے سوال کو یکسر نظر اندا ز کر دیا ہے۔
پاکستان
پاکستانی معیشت: بحران کا استحکام!
پاکستانی سرمایہ داری ایک ایسی تاریخی تاخیرزدگی اور متروکیت کا شکار ہے کہ اس میں جزوی بہتری و بحالی ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہی بنتی ہے۔
سموگ: سرمایہ داری کا ایک اور ’’تحفہ‘‘
ایک طرف سموگ کا عفریت ہے تو دوسری جانب روزی روٹی کے لالے۔ اور تیسری جانب زہریلی ہوا کے نتیجے میں ہسپتالوں کے اضافی اخراجات۔ گویا یہ چہار سو کا حملہ ہے جس کی بھینٹ پھر غریب آدمی ہی چڑھتا ہے۔
طلبہ احتجاج: ان کے غصے میں خوشبو بغاوت کی ہے!
ماہ اکتوبر کے وسط سے لاہور کے پنجاب کالج سے پھوٹنے والے طلبہ مظاہرے، جو کئی شہروں تک پھیل گئے، درحقیقت سماجی سطح کے نیچے پلنے والی نفرت، غصے اور مسلسل عدم اطمینان کا اظہار تھے۔
پاکستان: آئینی ترمیم نہیں انقلابی جراحی چاہئے!
ججوں کے من پسند چناﺅکے طریقہ کار اور الگ سے آئینی بینچ کی تشکیل کے باوجود ریاست کے اندر کی گہری دراڑوں اور نظام کی فرسودگی کی موجودگی میں سیاسی، آئینی اور انتظامی استحکام کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔
طلبہ کے احتجاج: ہم آ گئے تو گرمی ِ بازار دیکھنا!
آرام دہ کلاس رومز میں پڑھنے والے لہولہان بچوں کا یہ احتجاج ایک پکار ہے کہ کوئی تو ہو جو ہمیں بھی سنے۔ اور اگر کوئی نہیں سنے گا ہم اسے سننے پر مجبور کر دیں گے!
کوئلے کی کانوں میں موت کا سفر
پاکستان میں نہ صرف کان کنی معدنیات کے ذخائر کی نسبت بہت کم ہے بلکہ جو کان کنی کی بھی جا رہی ہے اس میں زیادہ تر کا طریقہ کار ڈھائی ہزار سال پرانا ہے۔ جس کی تصویر کشی سپارٹاکس کی داستان اور قدیم مصر کی کانوں میں کام کرنے والے غلاموں کے احوال میں ملتی ہے۔
سانحہ امر کوٹـ: عوام کی جرات، حکمرانوں کی منافقت
یہ بے سبب نہیں ہے کہ امر کوٹ سانحہ میں ایک طرف ٹی ایل پی کے لوگ ملوث تھے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ملاؤں کے ساتھ مل کے قاتلوں کو ہار پہنا رہے تھے۔
نیا لیبر کوڈ: محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی نئی واردات
اس نئے لیبر کوڈ کے تدارک یا مزاحمت کے لئے سب سے پہلے مزدور تحریک کی نئے سرے سے صف بندی کی ضرورت ہے۔ جو صرف تنظیمی نہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی ہو۔
موسیٰ خان کا قتل: خون جو کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے!
موسیٰ خان کو خراج تعلیمی اداروں کے حبس زدہ ماحول میں اس بوسیدہ اور گلے سڑے سرمایہ دارانہ تعلیمی و سماجی نظام کا انقلابی متبادل پیش کرنے والی سیاسی، نظریاتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔
کشمیر میں تحریک کی فتح: بڑی پیش رفت لیکن حتمی لڑائی ابھی باقی ہے!
یہ صرف جموں کشمیر کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کی کامیابی نہیں بلکہ اس پورے خطے اور دنیا میں آزادی، انقلاب اور طبقاتی و قومی نجات کی جدوجہد کیلئے حوصلے اور طاقت کا باعث ہے اور مستقل کی لڑائیوں کیلئے بہت سے اسباق بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
گندم کا بحران: دہقان کی روزی کون لے اڑا؟
ان بحرانوں سے جہاں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جاتی ہیں وہیں ان سے فیض یاب ہونے والے بھی بہت ہوتے ہیں۔
پی آئی اے کی نجکاری: مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گے!
آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی پالیسیوں کو یکسر ختم کرنے اور نجکاری کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے قومی اداروں کو محنت کشوں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جانے اور فعال کرنے کے مطالبات کے گرد ہی جدوجہد کو منظم کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن 2024ء: بحران کے نئے دور کی شروعات
نئی حکومت کی ممکنہ تشکیل کے ساتھ پاکستانی سرمایہ داری کا بحران نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس حکومت کا چلنا بہت محال ہو گا۔
بلوچ یکجہتی مارچ کے ان مٹ نقوش
حالیہ مارچ اور دھرنے نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کوئی بھی مظلوم قوم ایک یکجا اکائی نہیں ہوتی بلکہ متحارب اور متضاد طبقات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس میں اس کے اپنے حکمران طبقے کا کردار سامراج کی گماشتگی پر ہی مبنی ہوتا ہے۔