آرام دہ کلاس رومز میں پڑھنے والے لہولہان بچوں کا یہ احتجاج ایک پکار ہے کہ کوئی تو ہو جو ہمیں بھی سنے۔ اور اگر کوئی نہیں سنے گا ہم اسے سننے پر مجبور کر دیں گے!
پاکستان
کوئلے کی کانوں میں موت کا سفر
پاکستان میں نہ صرف کان کنی معدنیات کے ذخائر کی نسبت بہت کم ہے بلکہ جو کان کنی کی بھی جا رہی ہے اس میں زیادہ تر کا طریقہ کار ڈھائی ہزار سال پرانا ہے۔ جس کی تصویر کشی سپارٹاکس کی داستان اور قدیم مصر کی کانوں میں کام کرنے والے غلاموں کے احوال میں ملتی ہے۔
سانحہ امر کوٹـ: عوام کی جرات، حکمرانوں کی منافقت
یہ بے سبب نہیں ہے کہ امر کوٹ سانحہ میں ایک طرف ٹی ایل پی کے لوگ ملوث تھے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ملاؤں کے ساتھ مل کے قاتلوں کو ہار پہنا رہے تھے۔
نیا لیبر کوڈ: محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی نئی واردات
اس نئے لیبر کوڈ کے تدارک یا مزاحمت کے لئے سب سے پہلے مزدور تحریک کی نئے سرے سے صف بندی کی ضرورت ہے۔ جو صرف تنظیمی نہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی ہو۔
موسیٰ خان کا قتل: خون جو کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے!
موسیٰ خان کو خراج تعلیمی اداروں کے حبس زدہ ماحول میں اس بوسیدہ اور گلے سڑے سرمایہ دارانہ تعلیمی و سماجی نظام کا انقلابی متبادل پیش کرنے والی سیاسی، نظریاتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔
کشمیر میں تحریک کی فتح: بڑی پیش رفت لیکن حتمی لڑائی ابھی باقی ہے!
یہ صرف جموں کشمیر کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کی کامیابی نہیں بلکہ اس پورے خطے اور دنیا میں آزادی، انقلاب اور طبقاتی و قومی نجات کی جدوجہد کیلئے حوصلے اور طاقت کا باعث ہے اور مستقل کی لڑائیوں کیلئے بہت سے اسباق بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
گندم کا بحران: دہقان کی روزی کون لے اڑا؟
ان بحرانوں سے جہاں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جاتی ہیں وہیں ان سے فیض یاب ہونے والے بھی بہت ہوتے ہیں۔
پی آئی اے کی نجکاری: مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گے!
آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی پالیسیوں کو یکسر ختم کرنے اور نجکاری کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے قومی اداروں کو محنت کشوں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جانے اور فعال کرنے کے مطالبات کے گرد ہی جدوجہد کو منظم کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن 2024ء: بحران کے نئے دور کی شروعات
نئی حکومت کی ممکنہ تشکیل کے ساتھ پاکستانی سرمایہ داری کا بحران نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس حکومت کا چلنا بہت محال ہو گا۔
بلوچ یکجہتی مارچ کے ان مٹ نقوش
حالیہ مارچ اور دھرنے نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کوئی بھی مظلوم قوم ایک یکجا اکائی نہیں ہوتی بلکہ متحارب اور متضاد طبقات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس میں اس کے اپنے حکمران طبقے کا کردار سامراج کی گماشتگی پر ہی مبنی ہوتا ہے۔
الیکشن 2024ء: کیا کیا جائے؟
مروجہ سیاسی قیادتیں پہلے سے ہی بڑی حد تک عوامی استرداد کا شکار ہیں۔ لیکن اس استرداد کو ایک انقلابی لائحہ عمل اور راستہ دینے کے لئے محنت کشوں اور وسیع تر عوام میں جانا انقلابیوں کا فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لئے انتخابی ماحول میں ملنے والے محدود سیاسی و سماجی مواقع کو بھی استعمال کیا جانا چاہئے۔
قومی سوال اور لینن
’’بورژوا قوم پرستی اور پرولتاری بین الاقوامیت دو ناقابل مصالحت نعرے ہیں جو پوری سرمایہ دارانہ دنیا میں دو دیوہیکل طبقاتی کیمپوں سے وابستہ ہیں اور قومی سوال کی طرف دو پالیسیوں بلکہ دنیا کو دیکھنے کے دو طریقوں کی غمازی کرتے ہیں‘‘
جموں کشمیر: نو آبادیاتی جبر اور سرمایہ داری کیخلاف انقلاب کی چنگاریاں
انقلابی قیادت کی موجودگی اور درست حکمت عملی اگر ان سماجی طوفانوں کو میسر آ گئی تو اس خطے سے سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور نئے دور کے آغاز کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی۔
نواز شریف کی واپسی
جن تضادات نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے ان میں سے ایک بھی حل نہیں ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ نواز شریف کا رشتہ جتنا ناپائیدار پہلے تھا اتنا ہی آج ہے۔
افغان مہاجرین: جائیں تو جائیں کہاں؟
اس نظام میں سرمائے کی نقل و حرکت تو آزاد ہے لیکن انسانوں کو سرحدوں میں قید کر کے ویزوں کا اسیر بنا دیا گیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کسی انسان کا ”غیر قانونی“ سٹیٹس انسانیت کی تذلیل اور توہین کے مترادف ہے۔