اس خطے کے سوشلسٹ انقلاب کو جہاں دوسرے تاریخی فرائض ادا کرنے ہیں وہاں سامراج کی کھینچی خونی لکیروں کو بھی مٹانا ہے۔ پورے برصغیر جنوب ایشیا کے محنت کشوں اور مظلوموں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا کرنا ہے۔
تاریخ
وہ منزل ابھی نہیں آئی…
نصابوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ حکمران طبقے کی تاریخ ہے۔ اس خطے کے محنت کشوں کی تاریخ کچھ اور ہے۔ یہ تاریخ اس نظام کے خلاف جدوجہد، انقلابی تحریکوں اور بغاوتوں سے عبارت ہے۔
5 جولائی کا شب خون، ایک تاریخی تناظر میں
پاکستان میں اگر سماج کی سوشلسٹ تعمیر نو کا عمل آگے بڑھتا تو یہ انقلابی چنگاریاں پورے خطے میں پھیل سکتی تھیں۔ کیونکہ بیشتر ممالک میں سوشلسٹ تحریکیں پہلے سے مصروف عمل تھیں۔
الوداع چاچا کرامت!
گراوٹ، جبر، گھٹن اور تعفن سے بھرے اس ماحول میں ان وفات یقینا ایک دردانگیز واقعہ ہے۔ ان سے تمام تر سیاسی و نظریاتی اختلافات کے باوجود ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی اور ان کی طویل سیاسی و تنظیمی زندگی سے سیکھتے ہوئے ایک مختلف طریقے اور انداز سے ہی سہی لیکن ان کے خوابوں کی تعبیر کی جدوجہد جاری رہے گی۔
یوم مئی 2024ء: چھین کے لینا ہو گا حق!
ماضی میں اوقات کار میں کمی اور دوسرے حقوق کی درخشاں تحریکوں کا وارث آج کا مزدور بھی ناامیدی، غلامی اور ذلت کی بجائے لڑائی کے میدان میں اتر کے اور فوری مطالبات کو سرمایہ داری کے یکسر خاتمے کی جدوجہد کے ساتھ مربوط کر کے ہی ایک باعزت، سہل اور بھرپور زندگی کا حق چھین سکے گا۔
مشال خان کی شہادت کے سات سال
مشال خان کے قتل کے بعد ان عناصر کا خیال تھا کہ مشال کے جانے سے طلبہ کی آواز دب جائے گی اور ان کا جھوٹا پراپیگنڈہ طلبہ سیاست کے اندر خوف پیدا کرے گا اور طلبہ کو جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد سے دور کر دے گا۔
بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی!
’’ہم نوجوانوں کو پستول اور بم چلانے کا نہیں کہہ سکتے۔ نوجوانوں کو دیہاتوں اور صنعتی مراکز کی جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو بیدار کرنے کا تاریخی فریضہ سرانجام دینا ہے۔‘‘
لال خان: جو مٹ کے ہر بار پھر جئے!
انسانی تاریخ میں موجودہ عہد کئی حوالوں سے نہ صرف منفرد بلکہ بہت گنجلک اور پیچیدہ ہے۔ ماضی کی دہائیوں میں بڑے واقعات اتنے تواتر سے رونما نہیں ہوتے تھے۔ مگر آج ہر روز نئے واقعات کا جنم ہوتا ہے اور بعض اوقات تو وہ اپنی پرکھ کا وقت دیئے بغیر ہی اور نئے واقعات کے پیچھے غائب ہو جاتے ہیں۔
بالشویک انقلاب: حاصلات، زوال اور آج کی دنیا
بالشویک پارٹی کی قیادت میں محنت کش طبقے نے نجی ملکیت اور بورژوا ریاست کو پاش پاش کر دیا اور انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے منصوبہ بند معیشت کی تشکیل کی۔
کارل مارکس کون تھا؟
وہ لیگ کی دوسری کانگریس (لندن، نومبر 1847ء) میں بہت نمایاں تھے اور اسی کانگریس کے کہنے پر انہوں نے مشہورِ زمانہ ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ مرتب کیا، جو فروری 1848ء میں چھپ کر سامنے آیا۔
یوم مئی 2023ء: ساتھی ہاتھ بڑھانا!
ایک ایسی طبقاتی و انقلابی سانجھ بنانے کی ضرورت ہے جو محنت کش طبقے کو تمام رجعتی تعصبات اور پسماندگیوں سے نکال کر ایسی وحدت عطا کرے جو سامراجی سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکرا کر اس کو پاش پاش کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
افغانستان: ثور انقلاب کی روشن صبح سے طالبان کی تاریک رات تک
فضاؤں میں سُرخ رنگ کی بہار پھر سے ابھرے گی تو افغانستان پہ چھائی تاریکی کو چھٹنا ہو گا۔
بھٹو گھائل ہے!
بھٹو کو عوام کا ہردل عزیز لیڈر و رہنما بنانے والے نظریات کیا تھے اس بات کو کتابی اقتباس بنا کر یکسر فراموش کر دیا گیا ہے۔ جبکہ بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ کے ماتحت ہی نہیں کیا بلکہ مسلم لیگی نظریات کی تابعداری بھی اختیار کر لی ہے۔
کامریڈ جام ساقی کی میراث: سوشلسٹ انقلاب!
انقلابی سوشلزم کے لیے آگے بڑھ کر کی جانی والی ہر جدوجہد ہی درحقیقت کامریڈ جام ساقی کی حقیقی میراث ہے۔
لال خان: عہد ساز انسان
لال خان کی تصنیفات اپنے اندر سمند ر جیسی گہرائیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔