لال خان

1973ء میں ہندوستانی اداکار اور فلم ساز منوج کمار نے ’’شور‘‘ نام کی ایک فلم بنائی تھی۔ اس فلم کی موسیقی نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ آج بھی یہ گیت سننے والوں کے دل موہ لیتے ہیں۔ تاہم خوبصورت دھنوں سے مزین اس فلم کا مقصد شور کی ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کو اجاگر کرنا تھا۔ آج 41 سال بعد برصغیر کے ممالک میں گندگی، غلاظت، دھویں اور ماحولیاتی آلودگی کی دوسری اقسام کے ساتھ ساتھ صوتی آلودگی کہیں زیادہ اذیت ناک ہوچکی ہے۔

صوتی آلودگی انسان کی زندگی پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ شور سے قوت سماعت متاثر ہوتی ہے، نیند میں خلل پڑتا ہے، ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ سنگین ہوجاتا ہے، حرکت قلب اور دل کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، چڑچڑا پن اور ڈپریشن پیدا ہوتا ہے۔ جدید میڈیکل ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ صوتی آلودگی جسم کی قوت مدافعت کو کمزور کرتی ہے، بچوں میں پیدائشی نقائص کا سبب بنتی ہے اور طالب علموں کی لکھنے پڑھنے اور سیکھنے کی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

آج اس ملک میں کسی شاہراہ، کسی گلی میں چلے جائیں، ہر طرف شور ہی شور ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صوتی آلودگی بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ شورزدہ شہروں میں سے پہلے پانچ ہندوستان اور پاکستان میں ہیں۔ دن کو رکشے، کاریں، بسیں اور ویگنیں شور مچاتی ہیں تو رات کو سڑکوں کے بادشاہ ٹرک اور ٹرالے خاموشی کو چیرتے ہوئے گزرتے رہتے ہیں۔ بڑی بسوں اور ٹرکوں کے ہارن 118 ڈیسی بل کا شور پیدا کرتے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق 85 ڈیسی بل کا شور بھی انسان کی قوت سماعت کے لئے مضر ہے۔

یورپ جیسے ترقی یافتہ خطوں میں ہارن بجانا ایک بدتمیزی سمجھا جاتا ہے۔ وہاں ایک سال میں اتنا ہارن نہیں بجتا جتنا یہاں ایک گھنٹے میں بجایا جاتا ہے۔ اس خطے میں صرف سرمایہ داری کی بدتمیزیاں ہی پہنچی ہیں۔ یہاں ڈرائیونگ کا انداز بھی نرالا ہے۔ ضرورت ہو یا نہ ہو، ہر کوئی ہر وقت ہارن بجارہا ہے۔ پورے شہر میں گھومنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں پریشر ہارن نصب ہیں جو اتنی زور سے بجتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ ہارن کی اذیت میں رہی سہی کسر گاڑیوں کی تیز روشنیاں (ہیڈ لائیٹس) پوری کردیتی ہیں۔ ان کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ سامنے سے آنے والا کچھ دیر کے لئے اندھا ہوجاتا ہے۔ ہیڈ لائیٹس پر ہی اکتفا نہیں کیاجاتا بلکہ تیز روشنی اور سفید چمک والی اضافی بتیاں بھی گاڑی میں نصب کردی جاتی ہیں۔ یہ تیز روشنیاں اور ریش ڈرائیونگ ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔ گاڑیوں میں ’’ساؤنڈ سسٹم‘‘ نصب کرنے کا بھی رواج چل پڑا ہے جس کا والیم ’’فل‘‘ رکھا جاتا ہے اور گاڑی جس محلے سے گزرتی ہے اس کے درودیوار ہل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر ’’یوم آزادی‘‘ اور مذہبی تہواروں پر شور مچانے کی نفسیات شہری نوجوانوں میں پائی جانے والی سماجی بیگانگی اور لمپن ازم کی عکاسی کرتی ہے۔ اس قسم کی حرکات درمیانے طبقے کی نمائشی نفسیات اور بیہودہ ثقافتی معیار کا اظہار ہوتی ہیں۔ گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران پروان چڑھنے والی مڈل کلاس اور نودولتیے ’’نمایاں‘‘ ہونے کے لئے گھٹیا ترین حرکات کرنے سے گریز کرتے ہیں نہ ہی شرمسار ہوتے ہیں۔

شور صرف ٹریفک کا ہی نہیں ہے۔ یہاں درجنوں قسم کے شور پائے جاتے ہیں۔ شادیوں اور دوسری تقریبات پر پٹاخوں اور فائرنگ کا شور، رہائشی علاقوں میں کھلی ورکشاپوں اور کارخانوں کا شور، سیاسی ریلیوں اور انتخابی مہمات کا شور، ہر ایک گھنٹے بعد چلتے بند ہوتے جرنیٹروں کا شور وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ شور کی کچھ ’’مقدس‘‘ اقسام بھی ہیں۔ پاکستان کے ہر محلے میں کئی مساجد ہیں اور ہر مسجد کے گنبد پر درجنوں لاؤڈ سپیکر نصب ہیں۔ پھر فرقہ وارانہ بنیادوں پر نمازوں کے اوقات بھی مختلف ہیں۔ ظہر کی اذانیں ختم ہوتے ہوتے عصر کا وقت ہوجاتا ہے۔ میلاد اور خطبات اس کے علاوہ ہیں۔

صوتی آلودگی نہ صرف شہری زندگی میں زہر گھول رہی ہے بلکہ اب تو دیہی زندگی کا رہا سہا سکون، ٹھہراؤ اور خاموشی بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ چکوال کے قریب ایک ’’بھون‘‘ نامی قصبہ ہے۔ تقسیم سے پہلے یہ ایک خوشحال، ہنستا بستا گاؤں ہوا کرتا تھا۔ یہاں ہندو، مسلمان اور سکھ مل جل کر ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ مذہبی منافرت اور نفرت کا نام و نشان تک نہ تھا۔ تقسیم کی خونریزی اور مذہبی قتل و غارت گری بھی یہاں نفرت کا زہر نہیں پھیلا سکی۔ یہاں کئی تالاب تھے جن کے کناروں پر بوڑھ کے بلند درخت اور مندر موجود تھے۔ ان تالابوں کا پانی اتنا صاف تھا کہ خواتین کے لئے کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ غسل کے مقامات بھی تھے۔ کوئی میلی نظر سے دیکھنے والا نہیں تھا۔ کسانوں کے میلے ہوتے تھے، ثقافت کا معیار بلند اور فن تعمیر اعلیٰ تھا۔

آزادی کے67 سالوں بعد برصغیر کے ہزاروں دوسرے دیہاتوں اور قصبوں کی طرح بھون بھی اجڑ گیا ہے۔ ہر طرف گندگی اور غلاظت پھیلی ہوئی ہے۔ مندر مسمار کر دئیے گئے ہیں اور ان کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پیتل اور دوسری قیمتی اشیا لوٹ لی گئی ہیں۔ اگر شور کی بات کی جائے تو آج اس قصبے میں مختلف فرقوں کی 44 مساجد قائم ہیں۔ 44 ملا ایک دوسرے کے مقابلے میں، سینکڑوں سپیکروں کے ذریعے جب اذانیں دیتے ہیں تو صورتحال قابو سے باہر ہوجاتی ہے اور کان پھٹنے لگتے ہیں۔ لیکن ان سپیکروں کا استعمال صرف اذان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر وقت مُلا یا مدرسے کے بچے سپیکر پر چندہ مانگ رہے ہوتے ہیں یا پھر کوئی مذہبی تقریر جھاڑی جارہی ہوتی ہے۔ اس قصبے میں تقریباً چار درجن مساجد تو موجود ہیں لیکن علاج کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ سرکاری سکول کھنڈر بن چکے ہیں اور دوسری سرکاری عمارات کی طرح پرانے سکولوں پر ریاستی افسر شاہی کی مدد سے قبضے ہورہے ہیں، ثقافتی تہوار ختم ہوگئے ہیں، یہاں کی زبان (گھنی) دم توڑ رہی ہے، رشتے بدل گئے ہیں اور بھائی چارہ ختم ہوگیا ہے۔ پیسے کی ہوس اور ملاؤں کی رجعت، آسیب کا تاریک سایہ بن کے پوری وادی پرچھا گئی ہے۔ بھون آخری سٹیشن ہواکرتا تھا اور ’’بھون کلکتہ‘‘ ایکسپریس یہاں سے چلا کرتی تھی۔ لیکن آج نہ ٹرین ہے، نہ اس کی پٹری۔ انجن موڑنے والا لوہے کا بھاری چکر بھی کسی حکمران کی فونڈری میں پگھل چکا ہے۔

یہ صرف بھون کا نہیں، ہر شہر، ہر گاؤں اور ہر گلی کا قصہ ہے۔ بے شمار بزرگ بیماری کی حالت میں اس شور کی اذیت سے کراہ کراہ کے مر چکے ہیں، سارا دن ملازمت اور مزدوری سے تھکے ہارے محنت کشوں کی نیندیں برباد ہوگئی ہے، مذہب ایک کاروبار اور فرقہ واریت ایک ناسور بن چکی ہے۔ لیکن کون پوچھتا ہے؟ مذہب کے یہ ٹھیکیدارحکمرانوں کے سب سے اہم اور بااعتماد ترین آلہ کار ہیں۔ ان کا مقصد مسلسل خوف اور فرقہ وارانہ تقسیم در تقسیم کے ذریعے عوام کو ذہنی طور پر مفلوج اور سیاسی طور پر خصی کرنا ہے۔ مسجد یں بڑھتی جارہی ہیں اور نمازی کم ہوتے جارہے ہیں۔ جو مُلا کبھی عاجزی کا نمونہ اور گاؤں کی ثقافت کا حصہ ہوا کرتا تھا آج کالے دھن کی دولت کے غرور میں فرعون بنا پھرتا ہے۔

جب انسان اپنے آپ سے تنگ ہو تو دوسروں کو ستانا شروع کردیتا ہے۔ اس پر مسلسل وحشت، جنون اور تخریب کاری کی نفسیات طاری رہتی ہے جو اپنا اظہار اس شور و غل کی شکل میں بھی کرتی ہے۔ جہاں پانی، بجلی، خوراک، تعلیم، علاج اور روزگار سے محرومی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہو، زندگی ایک جبر مسلسل بن جائے وہاں حس لطافت بھلا کیسے پنپ سکتی ہے؟ سماجی انفراسٹرکچر کا کوئی پہلو اٹھا کر دیکھ لیں ہر طرف تنزلی اور بدحالی ہی ملے گی۔ روح کی غربت، اکتاہٹ، بیزاری، بدمعاشی اور منافقت ایک معاشرتی معمول بن چکا ہے۔ ہر طرف افراتفری اور کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ لیکن ’’آزاد منڈی کی معیشت‘‘ افراتفری اور انارکی کے سوا اور ہے کیا؟ یہ معاشرہ منصوبہ بندی سے عاری اور ’’مقابلہ بازی‘‘ پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہی تو ہے جس کی قصیدے سامراجی دانشوروں سے لے کر یہاں کی یونیورسٹیوں کے پروفیسروں تک، سب پڑھے لکھے جاہل گاتے ہیں۔ اور پھر ہمارے رہنما قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر ہمیں اس نظام کے لئے ہر قربانی دینے کا درس بھی دیتے ہیں۔ ۔ ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی!