لال خان
کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں میں شدید گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں نے بجلی کے بحران اور سماجی انفراسٹرکچر کی بوسیدگی جیسے سلگتے ہوئے مسائل کو پھر منظر عام پر لا کھڑا کیا ہے۔ پانی کی عدم دستیابی اور طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ ان ہلاکتوں کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ ذرا نزدیک سے صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ان بنیادی سہولیات کی فراہمی کا نظام ملک کے بیشتر حصوں میں بالکل منہدم ہو چکا ہے۔
اس ملک میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت مجموعی طلب سے کہیں زیادہ ہے لیکن عوام پھر بھی لوڈ شیڈنگ کی نہ ختم ہونے والی اذیت سے دوچار ہیں۔ بنیادی وجہ بجلی پیدا کرنے والے نجی شعبے کی وحشیانہ منافع خوری اور بجلی کا بوسیدہ انفراسٹرکچر ہے۔ سیاسی اشرافیہ کا ہر دھڑا اس وسیع لوٹ مار اور سماج کی بربادی میں برابر کا حصہ دار ہے۔
ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 23 ہزار میگا واٹ جبکہ زیادہ سے زیادہ طلب کم و بیش 18 ہزار میگا واٹ ہے۔ پیداواری صلاحیت کا صرف 50 فیصد استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ نجی کمپنیاں مطلوبہ مقدار میں تیل نہیں خریدتیں اور بجلی نہ پیدا کرنے میں بھی ان کے لئے منافع ہی منافع ہے۔ مجموعی پیداواری صلاحیت کا ایک تہائی سے زیادہ سامراجی اور مقامی ’’انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹس‘‘ (IPPs) کے تصرف میں ہے۔ 1990ء کی دہائی میں ہونے والے معاہدوں کے تحت یہ ’IPPs‘ کسی قسم کی ’Fuel Efficiency‘ کی ضمانت دینے کے پابند نہیں ہیں۔ الٹا حکومت انہیں پیداواری صلاحیت کے 60 فیصد کے مساوی ادائیگی کرنے کی پابند ہے، پلانٹ بجلی بنائے یا نہ بنائے۔ یہ پلانٹ ’’80:20 ایکویٹی‘‘ کے تحت لگائے گئے تھے یعنی ان کا 80 فیصد پیسہ عوام نے بھرا تھا اور اس سرمایہ کاری کی قسطیں اور سود آج تک بھر رہے ہیں لیکن ملکیت، کنٹرول اور منافع نجی سیکٹر کے پاس ہے۔ مزید برآں ٹیکس سے مستثنیٰ ان پلانٹس کو ریاست سبسڈی کے ذریعے انتہائی سستے داموں بجلی پیدا کرنے کے لئے تیل فراہم کرتی ہے جس کی بلیک مارکیٹ میں فروخت کی خبریں بھی کئی بار منظر عام پر آ چکی ہیں۔
نجی شعبے کے زیادہ تر پلانٹس سستے، پرانے اور کھٹارہ قسم کے ہیں جن کی کارکردگی انتہائی کم ہے اور جو ماحولیاتی آلودگی کا موجب بنتے ہیں۔ یہاں ہر حکومت نے عوام کو بنیادی ضروریات پر دی جانے والی سبسڈی چھینی ہی ہے لیکن ان سرمایہ داروں کو سینکڑوں ارب روپے کی ’’سبسڈی‘‘جاری و ساری ہے۔ آئی پی پیز سے 12.50 روپے فی کلو واٹ کے ریٹ پر حکومت بجلی خریدتی ہے اور صارف کو 9 روپے کے ریٹ پر فراہم کی جاتی ہے۔ 3.50 روپے کا فرق سبسڈی سے پورا کیا جاتا ہے لیکن یہ پیسہ بھی غریب عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگا کر حاصل کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر ’IPPs‘ کے کاروبار کا آغاز 1980ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ مقامی سرمایہ داروں اور سامراجی کمپنیوں کے لئے اس کاروبار میں مال ہی مال تھا۔ یہ پوری دنیا میں سرمایہ داری کی ’نیو لبرل ازم‘اور ’ٹریکل ڈاؤن اکنامکس‘ کی طرف شفٹ کا عہد تھا۔ ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں نے بجلی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کا آغاز کروایا اور پاکستان ان کا پہلا حدف تھا، اس کے بعد 40 مزید ممالک کو حدف بنایا گیا۔ چین اور ہندوستان سمیت کئی ممالک نے خطرات کو پہلے مرحلے میں بھی بھانپ لیا اور سرمائے کے اس پھندے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہر دوسری لعنت کی طرح پاکستان میں بھی ’IPPs‘ کا اجرا 1985ء میں ضیا الحق نے کروایا۔ یہ بھی تاریخ کا المیہ ہے کہ بینظیر بھٹو کی ’’جمہوری حکومت‘‘ نے ضیاالحق کی نجکاری کی پالیسی کو برقرار رکھا اور ملک کی معیشت اور وسائل کو کارپوریٹ گِدھوں کے حوالے کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت تک ذوالفقار علی بھٹو کی نیشلائزیشن کی پالیسی اور پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور کو یکسر مسترد کر چکی تھی۔ اپنے دوسرے دور حکومت میں بینظیر نے بجلی کی پیداوار کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی پالیسی زیادہ جارحانہ طریقے سے نافذ کی۔
’فنانشل ٹائمز‘ میں شائع ہونے والا ایک حالیہ مضمون اس پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’1994ء کی نجکاری میں سرمایہ کاروں کو بلند شرح منافع کی یقین دہانی کروائی گئی اور ضرورت سے زائد پیداواری صلاحیت پیدا ہوئی۔ ’IPPs‘ کو ٹیکس معافی دی گئی اور نجی سرمائے پر سود بھی ریاست کے ذمے تھا۔ یوں یہ نجی سرمایہ حکومت کو اپنی سرمایہ کاری سے بھی زیادہ مہنگا پڑا۔ ان معاہدوں میں سرمایہ کاروں کی تو چاندی ہی چاندی تھی۔ پیداواری صلاحیت میں اضافے کا عمل جاری رہا اور حکومت ضرورت سے زیادہ پلانٹس لگانے والوں کے ساتھ بھی ایسے معاہدے کرتی چلی گئی۔ ان اقدامات کی قیمت آج توانائی کے بحران کی شکل میں چکانی پڑ رہی ہے۔ یہ ماڈل پاکستان کے عوام اور حکومت دونوں کے لئے عذاب بن گیا ہے۔ اگر معیشت ترقی کر رہی ہو اور پلانٹ مناسب کارکردگی سے بجلی پیدا کر رہے ہوں تو بھی حکومت کے لئے مطلوبہ ادائیگیاں کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ دونوں شرائط ناپید ہیں لہٰذا نجی شعبے کی توانائی کی قیمت ادا کرنا کم و بیش نا ممکن ہے۔ جب تک بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا جائے گا، توانائی کی اس تاریک سرنگ کا سرا نہیں ملے گا۔ ‘‘
آسان الفاظ میں ہر سال سینکڑوں ارب روپے کی ادائیگی سے بھی گردشی قرضہ (Circular Debt) ختم نہیں ہو گا بلکہ بڑھتا ہی جائے گا جسے پورا کرنے کے لئے بجلی کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھائی جائیں گی۔ لیکن جس ’’بنیادی مسئلے‘‘ کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے وہ سرمایہ داری کی حدود و قیود میں کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ حکومت ہو یا نام نہاد ’’اپوزیشن‘‘، سیاسی اشرافیہ کی تمام پارٹیاں اسی نظام کی نمائندہ ہیں اور سب کا معاشی پروگرام ایک ہے۔ کارپوریٹ میڈیا پر بھی لوڈ شیڈنگ کا سارا ملبہ واپڈا کے محنت کشوں یا صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن کسی میں آئی پی پیز کی طرف انگلی اٹھانے کی جرات نہیں ہے۔ آئی پی پیز میں سرمایہ کاری کرنے والی تین بڑی غیر ملکی کمپنیوں (برطانیہ کی انٹرنیشنل پاور، امریکہ کی ’AES‘ پاور اور والٹرز پاور) کے اثاثے گزشتہ 15سالوں میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور اربوں ڈالر کے منافعے ہر سال ملک سے باہر بھیجے جا رہے ہیں۔ سیاسی حکمرانوں کی ڈوریاں ہلانے کے لئے ان کمپنیوں کے پارٹنر یا کمیشن ایجنٹ ہر حکومت اور سیاسی جماعت میں موجود ہیں۔ ان سرمایہ کاروں کو ورلڈ بینک کی طرف سے جاری کی گئی گارنٹیاں بدستور برقرار ہیں یعنی ورلڈ بینک بھی مال بنا رہا ہے۔
یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ ان آئی پی پیز کو نیشنلائز کر کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول اور عوامی ضرورت کے تحت چلائے بغیر بجلی کا بحران کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ کراچی کے نزدیک شیل گیس کے زخائز کا تخمینہ 51 ہزار ارب کیوبک فٹ ہے۔ اسی طرح کوئلے کے ذخائر، پن بجلی، ونڈ انرجی اور سولر انرجی سمیت پاکستان میں سستی اور آلودگی سے پاک بجلی پیدا کرنے کے بیشمارممکنات موجود ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں انہیں بروئے کار نہیں لایا جا سکتا کیونکہ ہر جنس کی طرح اس نظام میں بجلی کی پیداوار کا واحد مقصد بھی منافع ہے۔ بجلی کا شعبہ تو صرف ایک مثال ہے۔ دوسرے ہر شعبے میں بھی محنت کش عوام کا خون اسی طرح نچوڑا جا رہا ہے۔ کسی ایک شعبے میں نیشنلائزیشن جیسی ریڈیکل اصلاحات کو بھی سرمائے کا جبر ناگزیر طور پر نامراد بنا دے گا۔ نجات کا واحد راستہ نجی ملکیت اور منافع پر مبنی اس نظام کا مکمل خاتمہ ہے۔ آج جو ٹیکنالوجی موجود ہے ان کے ذریعے بجلی سمیت تمام ضروریات زندگی کی انتہائی سستی اور وافر پیداوار عین ممکن ہے۔ سرمائے کی جکڑ سے ان جدید ذرائع پیداوار کو آزاد کر کے قلت اور مانگ سے پاک، بہتات اور خوشحالی پر مبنی معاشرہ چند سالوں میں تعمیر کیا جاسکتا ہے۔