بشکریہ پاکستان ٹریڈیونین ڈیفنس کمپئین شمالی پنجاب
آپ واپڈا میں کتنے عرصے سے کام کر رہے ہیں اور آپ کا عہدہ کیا ہے؟
میں گزشتہ 32 سال سے واپڈا میں ملازم ہوں اور ابھی تک بطور’ SSO ‘ گریڈ 1 کا ملازم ہوں۔
اپنے سیاسی پس منظر اور مزدور سیاست میں شمولیت کے حوالے سے بتائیں؟
میں گزشتہ 30 سال سے مزدور سیاست سے منسلک ہوں۔ رہا سوال مزدورسیاست کی جانب راغب ہونے کا تو میں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاززمانہ طالبِ علمی میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF) سے کیا۔ اور 1983ء میں ہونے والے طلبہ یونین کے الیکشن میں جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوا۔ ضیا الحق کے مارشل لا دور میں سیاسی جدوجہد ہی وہ قوت محرکہ بنی جس نے مجھے مزدور سیاست کی طرف مائل کیا۔
واپڈا میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لیے کتنا بجٹ آتا ہے اور کتنا خرچ ہوتا ہے؟
مجھے بجٹ کا تو پتا نہیں کہ کتنا مختص کیا جاتا ہے اور کتنا خرچ ہوتا ہے۔ لیکن قارئین کے لیے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ 1998ء تک واپڈا ایک بااختیار ادارہ تھا۔ جس کے ذمے نئے ڈیموں کی فزیبلٹی تیار کرنا ، ہسپتال ، ملازمین کے لیے کالونیاں بنانا، انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال کرنا، بجلی کی ترسیل کو ممکن بنانا، زراعت کے لیے تمام صوبوں کو ان کی ضروریات کے مطابق ڈیموں سے پانی فراہم کرنا شامل تھا۔ یعنی تمام تر امور واپڈا خود سرانجام دیتاتھا۔ لیکن ان تمام امور کی انجام دہی کے باوجود واپڈا کے ذمے ایک روپے کا بھی قرض واجب الادا نہیں تھا۔
1998ء میں واپڈا کی وحدت کو کیوں ختم کیا گیا ؟
1990-98ء تک جو بھی حکومت آئی اس نے عذر پیش کیا کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے واپڈا کو ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں تبدیل کرنا ضروری ہے۔ ایک ادارہ پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (PEPCO) متعارف کروایا گیااور بجلی کی طلب کو پورا کرنے اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا بہانہ بنا کر واپڈا کو 8 کمپنیوں میں تحلیل کر دیا گیااور انڈیپنڈٹ پاور پلانٹس (IPPs) کے حوالے کر دیا گیا۔’ IPPs‘ کے آنے کی وجہ سے کرپشن میں کمی کی بجائے کئی گنا اضافہ ہوا اور واپڈا ملازمین کو بھی نقصان ہوا۔
اس اقدام سے کس حد تک مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکے؟
بالکل بھی نہیں، بلکہ صارفین کو سستی بجلی مہیا کرنے کی بجائے اسکو بہت ہی مہنگا کر دیا گیا ہے۔ ’IPPs‘ کے ساتھ اتنا ظالمانہ معاہدہ کیا گیا کہ اگر وہ کوئی پاور ہاؤس لگاتے ہیں اور واپڈا ان سے ایک یونٹ بھی نہیں خریدتا پھر بھی واپڈا ’IPPs‘ کو 40 فیصد ادائیگی کرنے کا پابند ہو گا۔ مثلاً 25 روپے یونٹ خرید کر صارفین کو بجلی 17 روپے فی یونٹ میں دی جا رہی ہے جبکہ یہی بجلی واپڈا خود 8 روپے فی یونٹ کے حساب سے تیار کرتا تھا۔
آپ کے خیال میں سستی بجلی کی فراہمی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
اس حوالے سے بہت سے متبادل ذرائع موجود ہیں لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ساہیوال میں کوئلہ کے ذریعے بجلی پیداکرنے کا جو منصوبہ شروع کیا گیا اس میں جو کوئلہ استعمال کیا گیا وہ انتہائی غیر معیاری تھا جو فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہا تھا۔ اب کوئلہ درآمد کیا جارہا ہے جس سے پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ سولر انرجی پلانٹ پر اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ اس پلانٹ سے گرمیوں میں 100 میگا واٹ کی پیداوار لی جاسکتی ہے۔ لیکن گرد کی زیادتی کی وجہ سے مطلوبہ پیداورار حاصل نہیں ہو پا رہی ہے۔
سب سے سستی بجلی پانی سے بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم صرف 30 فیصد بجلی پانی سے بنا رہے ہیں۔ نئے ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے جو پہلے سے موجود ڈیم ہیں ان کی پیداوار بھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسرا ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہر سال 90 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ بھاشا ڈیم کے لیے تمام فزیبلٹی تیار ہونے کے باوجود آج تک زمین ہی نہیں خریدی جا سکی۔ چھوٹے ہائیڈل منصوبے اور نیوکلیئر انرجی کے ذریعے سستی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ بھی اسی طریقے سے ممکن ہے۔ نئے ڈیم بنا کر زراعت کے پانی کی فراہمی کو ممکن بنا کر لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو سیراب کیا جا سکتا ہے۔ اگر بہت سے گرڈ اسٹیشنز کی مرمت اور ٹرانسمشن لائنز کو اپ گریڈ کر دیا جائے تو اس وقت بھی اتنی صلاحیت موجود ہے کہ 20 ہزار میگاواٹ بجلی ایک سال کے اندر اندر پیدا کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں مزدور تحریک کے تناظر اور موجودہ حالات میں ٹریڈ یونین سیاست کے زوال کی کیا وجوہات ہیں ؟
مزدور تحریک کے زوال کی سب سے بڑی وجہ تو قیادت کا نظریاتی دیوالیہ پن ہے۔ دوسری اہم وجہ قومی اداروں میں سیاسی پارٹیوں کی یونینز کا بننا ہے۔ فیڈریشنز اور کنفیڈریشنز کی باہمی چپقلش نے بھی مزدوروں میں بد اعتمادی کو جنم دیا ہے۔ جس کے اثرات یہ ہیں کہ واپڈا کے مظاہروں میں بھی صرف 25 فیصد محنت کش شرکت کرتے ہیں۔ بے حسی کی فضا پورے سماج اور اداروں میں حاوی نظر آتی ہے۔ اس بے حسی کو ختم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ تمام اداروں کے محنت کش تمام تر سیاسی، مذہبی ، قومی اور لسانی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک طبقاتی جڑت بنائیں۔
پی آئی اے کی تحریک کی شکست کی بڑی وجہ ائیر لیگ (CBA) کی مرکزی قیادت کی تحریک سے لاتعلقی تھی۔ دو محنت کشوں کی شہادت کے باوجود ائیر لیگ کی مرکزی قیادت حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے میں مشغول رہی ہے۔ تحریک کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا اور اب پی آئی اے انتظامیہ محنت کشوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں مصروف ہے۔ رائج الوقت سیاست اور مزدور سیاست میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حکمرانوں کی سیاست ان کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ جبکہ مزدور طبقے کی سیاست ان کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہوتی ہے۔ اسکا تعلق مزدوروں کے اجتماعی مفاد کے ساتھ ہوتا ہے۔
مسائل میں گھرے محنت کش طبقے کی وقتی خاموشی اپنے بطن میں طوفان تیار کر رہی ہے۔ جو جلد یابدیر ایک تحریک میں اپنا اظہار ضرور کرے گا۔ محنت کش طبقے کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرتے ہوئے اپنے لیے جدو جہد کرنی چاہیے یہی اسکی کامیابی کی ضمانت ہو سکتی ہے۔ مزدور اتحاد زندہ باد!