ذیشان بٹ
ہزاروں سال پہلے، آقاؤں اور دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے انسان بَلی چڑھائے جاتے تھے۔ آج اکیسویں صدی میں سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والی ریاست، انڈیا، میں آج بھی ایسی روایات قائم ہیں۔ بی بی سی پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں دس سالہ لڑکی کو قربان کر دیا گیا جس کی وجہ ایک شخص پر کالے جادوکے اثرات کو ختم کرنا بتائی گئی۔ریاست جھاڑکنڈ میں خواتین کو چُڑیل قرار دے کر قتل کردینا معمول بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک خبر کے مطابق چھ سالہ بچی کا ریپ کرنے کے بعد گلا کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ ایک تحقیق کے مطابق فرانس میں 87 فیصد خواتین زنابالجبر کو رپورٹ ہی نہیں کرتیں، جوثابت کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی پدرسری نظام کی جکڑ نہایت مظبوط اور منظم ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر خواتین اپنے غلامانہ کردار کو قبول کئے ہوئے ہیں۔ اٹلی جیسے یورپی ملک میں 70 فیصد خواتین سائبر کرائم کا شکار ہیں۔اور ایسے بے شمار واقعات ہیں جو اس کراہِ ارض میں رونما ہو رہے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں خواتین کی ’آزادی‘ لبرل ایجنڈے تلے چل رہی ہے جس میں خواتین ایک نمائشی شے، ایک ننگا بدن،بچہ پیدا کرنے کی ایک مشین اور ایک سستا مزدور یا بغیر تنخواہ کے گھریلو غلام بن کر رہ گئی ہیں۔ برطانیہ میں کئی ایسی طالبات ہیں جنہیں تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کسی ادھیڑ عمر امیر شخص کی عیاشی کا سامان بننا پڑتا ہے۔ امریکہ میں تو اب صدر ایسا آ گیا ہے جو خود عورت دشمن رویے کی بہترین مثال ہے۔عرب ممالک ہوں یا افریقی، خواتین کے استحصال میں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کی زیادہ تر آبادی ایک ہی کام کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور وہ ہے گھریلو مشقت۔ گھرداری کے نام پر خواتین کا جو استحصال جاری ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ دنیا میں ایسی محنت ہے جس کا انعام ذلت، رسوائی، استحصال، زنابالجبر اور گھریلو تشدد کی صورت میں ملتا ہے۔ جن خواتین کو ملازمتیں حاصل ہوئی ہیں وہ دو وجوہات کی بنا پر دی گئی ہیں: پہلی یہ کہ سرمائے کی اس منڈی میں سستا مزدور سرمایہ داری کو تقویت پہنچاتا ہے، دوسری یہ کہ مردوں نے اپنی جنسی خواہشات (بشمول عورت کو ایک شو پیس بنا کر اپنا سامان بیچنے کے لیے) کو پورا کرنے کے لیے انہیں گھر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ موجودہ نظام میں جہاں سرمایہ پر مبنی جنسی تعلقات انسان کو حقیقی تسکین پہنچانے سے قاصر ہیں (اکا دوکا کیس نکال کر)وہاں گھر میں موجود خاتون جلد ہی مردوں کے لیے محض ایک بغیر اجرتی محنت کش بن جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں جنسی رشتہ لذت دینے کی بجائے ایک اذیت بن کر رہ جاتا ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں خواتین مردوں سے پیچھے رکھی گئی ہیں، لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ قدیم اشتراکی نظام میں خواتین و مرد میں کچھ خاص فرق نہیں تھا ماسوائے جسمانی فرق کے، لیکن اُس وقت اس جسمانی فرق کو عورت کی کمزوری سے منسوب نہیں کیا گیا تھا ۔انسانی تاریخ کا زیادہ تر حصہ قدیم اشتراکی نظام پر مشتمل ہے جس میں خواتین و مرد برابری کی بنیاد پر رہ رہے تھے، لیکن جب انسان نے پہلی بار اپنی ضرورت سے زیادہ پیداوار کرنا سیکھ لیا تو اس کے نتیجے میں ذاتی ملکیت کے تصور، ریاست اور خاندان معرضِ وجود میں آئے۔ یہی وہ نقطہ ہے کہ جب انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کی وجوہات نے جنم لے لیا اورتب ہی سے خواتین مردوں کی ذاتی ملکیت میں دے دی گئیں، جو آج تک مردوں کے تسلط میں چلی آرہی ہیں۔ علاوہ ازیں زبان بھی مردوں کے تسلط میں بنی ہے اس لیے اُس میں بھی خواتین کو کمزوری سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ اس لیے اگر ہم گالیوں پر غور کریں تو اُن میں بھی خواتین ہی مرکز ہوتی ہیں۔مذہب، ثقافت، رنگ و نسل کی بنیاد پر بھی خواتین کا استحصال جاری ہے۔
آئرلینڈ میں معاشی بدحالی، گھرداری اورمردانہ تسلط سے تنگ گھریلو خواتین نے ہڑتال کردی، جس میں لگ بھگ نوے فیصد خواتین نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کیا۔اس کے پیشِ نظر زیادہ تر مردوں نے کام پر جانے کی بجائے بچوں اور گھروں کو سنبھالنے میں آفیت جانی اور یوں پورا سماج رُک گیا۔ اُس دن خواتین کو اپنی اجتماعی طاقت کا ادراک ہوا کہ ہم ایک ایسی طاقت رکھتی ہیں کہ جس سے کسی حکومت کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔
اس مثال سے ایک اور بات بھی واضح ہوتی ہے کہ خواتین کا کردار موجودہ سماج میں اُس مزدور کا غلام بن کر رہنا ہے جو سرمایہ داری نظام میں خود اپنی محنت سستے داموں بچنے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اس نظام میں رہتے ہوئے دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں خواتین بھیڑ بکریوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں، مگر پھر بھی بہت سی خواتین سوچے سمجھے بغیر اپنا غلامانہ کردار قبول کئے ہوئے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ اس نظام میں خواتین کی آزادی کا خواب تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن اُس کو پورا کرنے کے لیے وسائل اور حالات میسر نہیں ہیں۔ جو خواتین معمولی سی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں اُس کے پیچھے اُن خواتین کی مسلسل جدوجہد اور بہادری کارفرما ہوتی ہے، مگر اس سب کے بعد بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کے آزادی کی طلب گار یہ خواتین محفوظ ہوگئی ہیں۔
جب تک استحصال کی وجوہات موجود رہیں گی، استحصال جاری رہے گا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ وجوہات کو ہی جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے، کیونکہ موجودہ نظام کا مکمل خاتمہ نہ صرف خواتین بلکہ تمام محنت کشوں کی حقیقی آزادی کے لیے ضروری ہے۔تب ہی انسانوں میں حقیقی رشتے جنم لے سکیں گے جو ذاتی ملکیت کے تعصبات اور سرمائے کی غلامی سے آزاد ہوں گے۔