عصمت پروین
’’اگر عورت کی آزادی کمیونزم کے بغیر ناقابل تصور ہے تو کمیونزم بھی عورت کی آزادی کے بغیر ناممکن ہے۔‘‘ (انیسا آرمنڈ)
انیسویں اور بیسویں صدی کے مارکسی اساتذہ کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، روزالگسمبر گ، ولادیمیر لینن اور لیون ٹراٹسکی نے سوشلزم اور عورت کی آزادی کو آپس میں جوڑتے ہوئے نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ اگر تاریخ کاجائزہ لیا جائے تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ خواتین نے مختلف انقلابات میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ ٹی وی سکرینوں پر عرب انقلاب کے مناظر نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مغربی میڈیا سمیت پوری دنیا یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ حجاب پہنے ہوئے عرب کی وہ خواتین جن کے متعلق بس یہ مشہور تھا کہ ’’یہ یا تو برقع پوش ہو سکتی ہیں یا بیلے ڈانسرز‘‘، وہ انقلاب کی قیادت میں ہراول کردار ادا کر رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں اور قلم سے حیرانگی عیاں تھی۔ بہت سی خواتین کئی مصری مردوں کی طرح غریب اور ان پڑھ تھیں۔ لیکن پچھلی ایک دہائی میں خواتین کثیر تعداد میں محنت کی منڈی میں شامل ہوئیں جو کہ اس وقت مزدوروں کا ایک چوتھائی حصہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کا گھر کے سربراہ ہونے کا تناسب بھی بڑھ گیا تھااور اس کی بڑی وجہ خواتین کا مردوں کے مقابلے میں کم اجرت پر کام کرنے پر مجبوراً راضی ہونا تھا۔ انقلاب کے پھیلنے کے ساتھ عورتوں نے سڑکوں پر احتجاج اور کام کر نے کی جگہوں پر جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا۔
خواتین پہلے سے منظم ہو رہی تھیں اور انقلاب نے اسے واضح کر دیا۔ اسطرح سے خواتین کو اپنے انقلابی کردار کا اظہار کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ احتجاجی مظاہروں میں خواتین پیش پیش تھیں۔ خاص طور پر نوجوان خواتین اپنے خاندانی جبر کو توڑتے ہوئے سڑکوں پر جا پہنچیں۔ یونیورسٹیوں میں طالب علم خواتین 49 فیصد تھیں جنہوں نے احتجاجی مظاہروں میں اہم کردار ادا کیا۔
مصر میں خواتین کی تحریک آزادی ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے۔ خواتین کی آزادی کی جدوجہد اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف لڑائی ہمیشہ ساتھ ساتھ چلی ہے۔ لیکن یہ جدوجہد ’’مغربی‘‘ معنوں کی کوئی دقیانوس تحریک نسواں نہیں تھی۔ کئی مسلمان خواتین اس تحریک میں پیش پیش تھیں۔ مغربی میڈیا کے مطابق عرب عورتوں کے مطیع ہونے کی وجہ ان کا حجاب پہننااور تعلیم یافتہ نہ ہونا ہے۔ مگر تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ عورت ہونا نہیں بلکہ غریب ہوناہے۔ تحریر اسکوائر پر قبضہ عورتوں میں آزادی کا نیا احساس جگا رہا تھا۔ انقلاب سے قبل تحریر اسکوائر جنسی طورپر ہراساں کرنے کی علامت تھا۔ قاہرہ کی سڑکوں پر خواتین سے چھیڑ چھاڑ ایک معمول تھا۔ اور پھر انقلابی خواتین کی کمیٹیوں نے حسنی مبارک کی فورسز کو تحریر اسکوائر سے بھگانے میں اہم کردار ادا کیا۔
نتیجتاً مرد اور عورتیں، مسلم اور غیر مسلم، باپردہ اور بغیر پردے کے خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ دن رات تحریر اسکوائر میں رہنا شروع کر دیا۔ خواتین اپنے بچوں کو ساتھ رہنے کے لیے لے آئیں اور پہلی با ر اتنا وسیع مجمع ہونے کے باوجود تحریر اسکوائر میں جنسی طور پرہراساں ہونے کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔
عام ادوارمیں شعور حالات کے تابع رہتا ہے اور انقلابی ادوار میں حالات پر غالب آجاتا ہے اور یہی انقلابی کیفیت ہمیں مصر اور عرب دنیا میں دیکھنے میں آئی۔ خواتین اور تمام تر سماجی پر توں میں طبقاتی شعور بیدارہو رہا تھا۔ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ ’’عام حالات میں محنت کش اپنے اندر ایک طبقہ ہوتا ہے اور جب سماج انقلابی کروٹ لیتا ہے تو محنت کش اپنے لیے ایک طبقہ بن جاتا ہے‘‘، یہی مصر میں ہوا۔ مگر تاریخ میں یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے قبل روس کا انقلاب، خواتین کے عالمی دن 8 مارچ کے موقع پر ٹیکسٹائل مل کے مزدوروں اور ماچس کی فیکٹری کے محنت کشوں کی ہڑتال سے شروع ہوا تھا۔ 1905ء کے انقلابِ روس میں خواتین کے کردار کے بارے میں کئی سوالات تیزی سے ابھرے۔ پیٹی بورژوا خواتین نے مساوی حقوق کی یونین کو منظم کرنے کی کوشش کی جس میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ انہوں نے خواتین کے ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے قانونی مہم چلائی مگر ان کے مطالبات ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکے۔ فی الوقت محنت کش خواتین کوبھی اپنے حقوق کی لڑائی کا ادراک نہیں تھا۔ مگر بعد میں جب محنت کش خواتین نے کم از کم اجرت مقرر کرنے کا مطالبہ کرنے کے لئے اس یونین پر زور دیا تو انہوں نے کہا وہ ’’مایوس‘‘ ہوگئے ہیں ا ور محنت کش خواتین کو منظم کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ انہیں اپنی ملازماؤں کی تنخواہیں بڑھانے کیلئے مجبور کیے جانے کا خدشہ تھا۔ اس کے بر عکس بالشویک، عورتوں کے مکمل حقوق اور مساوی اجرت کے لئے لڑے۔
الیگزینڈرا کولنتائی جو کہ ایک بالشویک تھی، سوشلسٹ اور لبرل خواتین کے اتحاد کے سخت خلاف تھی اور اس نے اصرار کیا کہ ان کے طبقاتی مفادات متصادم ہیں اوراگرکسی موقع پر یہ متحد ہو بھی جائیں توپیٹی بورژوا خواتین محنت کش خواتین پر غلبہ حاصل کرلیں گی۔ کچھ روسی حقوق نسواں کی علمبردار خواتین نے ہڑتالوں کی بھی مخالفت کی۔ اور پھر 1917ء میں سطح کے نیچے پنپنے والے تضادات کو ابھرنے کا موقع ملا۔ خواتین کی بڑھتی ہوئی صنعتی طاقت کی وجہ سے محنت کش خواتین کی خود اعتمادی میں اضافہ ہونے لگا۔ فیکٹریوں میں کئی ہڑتالیں ہوئیں۔ جن میں پرولتاروی خواتین کی اکثریت نے شرکت کی۔ ان کا بنیادی مطالبہ تنخواہوں میں اضافہ تھا۔
1917ء کے خواتین کے عالمی دن پر مزدور خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور ہڑتالیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فیکٹریوں میں منتخب کردہ وفود بھیجے، ساتھ ہی فروری انقلاب کا آغاز ہو چکا تھا۔ ان ہڑتالوں کے دوران کچھ فیکٹری مالکان نے کم از کم اجرت متعارف کروائی۔ مردوں کے لیے 5 روبل اور خواتین کے لیے 3 روبل۔ مگر گہرے تعصبات پھر بھی موجود رہے۔ حقیقی معنوں میں صرف بالشویک انقلاب نے عورت کی سماجی آزدی کی بنیاد رکھی تھی۔
جیساکہ ٹراٹسکی لکھتا ہے ’’اکتوبر انقلاب نے پوری ایمانداری کے ساتھ عورت کے سلسلے میں اپنے فرائض سرانجام دئیے۔ نئی بالشویک حکومت نے عورت کونہ صرف مردوں کے برابر سیاسی اور قانونی حقوق دئیے بلکہ جو بات اس سے بھی زیادہ اہم ہے، اس نے اپنی بساط کے مطابق اور کسی بھی دوسری حکومت کے کسی بھی وقت میں کیے گئے اقدامات سے بڑھ کر حقیقتاًعورت کے لئے ہر قسم کے معاشی اور ثقافتی کاموں میں شرکت کی راہ ہموار کی۔‘‘ انقلاب کے بعد کی پہلی دہائی میں عورت کو مردوں کے مقابلے میں سماجی برابری دینے کے قوانین منظور کئے گئے اور اس کیلئے بہت سے ٹھوس اقدامات کئے گئے۔ تاکہ عورت گھر گرہستی سے آزاد ہو جس کیلئے اجتماعی کھانے کے مراکز، لانڈریاں اور ڈے کئیر سنٹرز کو فروغ دیا گیا۔ محنت کش خواتین کو مردوں کے برابر تنخواہیں دی گئیں اور خاندان کے سربراہ کے طور پر انہیں برابر کے حقوق دیے گئے۔ اسقاط حمل اور طلاق کے قوانین کو آسان کیا گیا۔ انقلاب کی مراعات کی وجہ سے عورتوں کی اوسط عمر 40 سال سے بڑھ کر 74 سال ہو گئی اور بچوں کی شرح اموات، عورتوں کی زچگی کے دوران پیچیدگیوں اور اموات میں تیزی سے کمی آئی۔ سماجی اور عوامی کام کے شعبوں میں خواتین کے تناسب میں واضح اضافہ ہوا۔
منصوبہ بند معیشت کے سبب 70ء کی دہائی میں 98 فیصد نرسیں، 75 فیصد اساتذہ، 95 فیصد لائبریرین اور 75 فیصد ڈاکٹر خواتین تھیں اورپی ایچ ڈی سکالرزمیں ان کی ایک واضح تعداد موجود تھی۔ یہ صرف بالشویک انقلاب کی مراعات تھیں۔ بورژوادانشواروں کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ محنت کش طبقے کے وجود اور اہلیت کو جتنا مرضی جھٹلائیں مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ محنت کش طبقہ ہی اس درندہ صفت نظام کا گورکن ہے جو اس نظام کو دفن کر کے صنفی اور جنسی تفریق سمیت تمام تر تعصبات کو ختم کر دے گا۔