لال خان
جنوبی کوریا کے نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں عام طور پر ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ لیکن نومنتخب صدر مون جین نے اپنی فتح کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی حلف اٹھا لیا۔ جزیرہ نما کوریا میں یہ ہنگامہ خیز لمحات ہیں جنہیں امریکی سامراج بڑے اضطراب سے دیکھ رہا ہے۔
مون سیاست میں آنے سے پہلے ایک لیبر وکیل تھا۔ اس نے اپنی انتخابی مہم میں شمالی کوریا سے براہ راست مذاکرات اور معاشی تعاون کے وعدے کیے تھے۔ مون نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی کمپنی’لاک ہیڈ مارٹن‘ کے تیارہ کردہ ’تھاڈ‘ نامی میزائل سسٹم کی تنصیب کومؤخر کرے۔ اگرچہ آخری دنوں میں، جب اس کی جیت کے امکانات روشن ہوگئے تھے، وہ اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گیا۔
وہ ملک کے داخلی اور خارجی بحران کے وقت اقتدار میں آیا ہے۔ جنوبی کوریا کو اس وقت آمدن میں بدترین نابرابری، نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور ایک بے جان معاشی نمو جیسے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مون نے بڑے پیکج کا اعلان کیا ہے جس سے 8 لاکھ 10 ہزار نئی سرکاری آسامیوں پیداکرنے اور کام کے طویل اوقات کار کو کم کرنے کا وعدہ شامل ہے۔ کام کے طویل اوقات کار اور کم اجرتیں نوکریوں کی دستیابی کو مزید مخدوش کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک کروڑ چالیس لاکھ میں سے تقریباً چالیس لاکھ بیروزگار ہیں۔ نوجوانوں نے ملک کا نام ’’ دوزخی سلطنت ‘‘ رکھ دیا ہے۔
بحیرہ جنوبی چین میں جاپان کے ساتھ تنازعہ اور سب سے بڑھ کر شمالی کوریا کے ساتھ دیرینہ جھگڑا شدید ہوتا جا رہا ہے۔ ایک لبرل جنوبی کوریائی اخبار نے اپنے اداریے میں خبردار کیا، ’’جزیرہ نما کوریا میں ایک فوجی تصادم نہ صرف جنوبی اور شمالی کوریا بلکہ تمام ہمسایہ ممالک کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوگا۔ … یہ جنگی کیفیت جنوبی اور شمالی کوریا کی پوری آبادی کو یرغمال کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
مون نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے ستر سال کی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے دونوں کوریاؤں کو جوڑنا ہی اس کی منزل ہے۔ اس نے ٹائم میگزین کو بتایا ہے کہ ’’جنوبی اور شمالی کوریا میں بسنے والے لوگ ایک ہی ہیں، جن کی ایک ہی زبان اور 5000 سال قدیم مشترکہ تہذیب ہے…ناگزیر طور پر ہمیں ایک ہونا ہو گا۔‘‘ اِسی قسم کی صورتحال ہمیں جنوب ایشیا ئی برصغیر میں بھی ملتی ہے جہاں حکمرانوں کی آپسی لڑائی میں عوام پس رہے ہیں۔
شمالی کوریا میں بھی بڑھتے ہوئے بحران نے ’کِم‘ خاندان کی سٹالنسٹ حاکمیت کو ماند کر دیا ہے۔ اگرچہ اب بھی اختلاف رائے کو سختی سے کچل دیا جاتا ہے تاہم منڈی کی معیشت کو جڑیں پکڑنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ نئے سال کی تقریب کے دوران ’کِم جانگ اُن‘ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ جنوب کوریا کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہے۔ تاہم مون کی اقتصادی معاونت کی پالیسیاں ماضی کی یادوں سے زیادہ اس بحران زدہ سرمایہ داری کی ضرورت ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ جنوبی کوریا کی کمپنیوں کو شمالی کوریا کی سستی محنت میسر آسکے۔ اس نے ٹائم میگزین کو بتایا کہ ’’باہمی اقتصادیات سے صرف شمال کو فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ اس سے جنوب کو بھی ترقی کی نئی جہت ملے گی، جس سے جنوبی کوریا کی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع میسر آئے گا۔‘‘
نوے کی دہائی میں نواز شریف جیسے پاکستانی بورژوا سیاست دان جنوبی کوریا اور دوسرے نام نہاد ’’ایشین ٹائیگر ز‘‘ کو پاکستانی سرمایہ داری کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ تاہم 1997ء کے کریش کے بعد یہ ’ٹائیگرز‘ بلیاں بن گئے اور اب تک جنوبی کوریا کی شرح نمو بحال نہیں ہو پائی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسی ایشیائی ریاستوں کی تیز معاشی ترقی کسی ’آزاد منڈی‘ کی بجائے امریکی سامراج کی بھاری مالی امداد اور جنرل ڈیگلس میکارتھر کے کَوڑے کے تحت سخت ریاستی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی۔ یوں اِن ریاستوں میں بورژوا انقلابات کے فرائض پورے کییگئے جس کا مقصد ’سرخ آندھی‘ کا راستہ روکنا تھا۔
کوریا بھی کئی دوسرے خطوں کی طرح دوسری عالمی جنگ کے اواخر میں سٹالن اور سامراجیوں کے درمیان بندر بانٹ کی وجہ سے تقسیم ہوا۔ شمال کے علاقوں پر روسی فوجوں نے قبضہ کیا تھا۔ یہاں بعد ازاں سٹالنسٹ طرز پر سرمایہ داری اور جاگیر داری کا خاتمہ کیا گیا جس سے ابتدائی دہائیوں میں تیز ترین معاشی و سماجی ترقی ہوئی۔ امریکی افواج نے 8 ستمبر 1945ء کو جنوبی کوریا پر قبضہ کیا اور یہاں فوجی حکومت قائم کی اور کوریائی سی آئی اے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کوریائی جنگ کا آغاز جون 1950ء میں ہوا جو تین سال تک جاری رہی اور جس نے دنیا کو ایک اور عالمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ تین ملین کوریائی قتل ہوئے۔ جنگ کے دوران امریکی کٹھ پتلی حکومت نے بد ترین جنگی جرائم کئے اور ایک لاکھ کے قریب بائیں بازو کے کارکنان کو قتل کیا گیا۔
جنوبی کوریا میں امریکہ نے مجبوراً زرعی اصلاحات لاگو کیں اور پچیس سال کے عرصے میں ایک ایسی صنعت کاری کی گئی جس کی بنیاد درآمدات سے بتدریج برآمدات کی طرف تھی۔ معیشت کے کلیدی حصے سرمایہ دارانہ ریاست کے کنٹرول میں تھے، جبکہ دفاع زیادہ تر امریکی نگرانی و امداد کے تابع تھا۔ یوں کوریائی سرمایہ دار طبقے کی پیوندکاری کی گئی۔
امریکی گماشتہ حکومتوں نے کوریا کے محنت کش طبقے پر بدترین جبر روا رکھا ہے۔ ’کوریائی معجزے‘ کی بنیاد ہی محنت کش طبقے کا شدید استحصال تھا۔ لیکن طلبہ اور محنت کشوں نے بھی کئی تحریکیں برپا کی ہیں۔ مئی 1980ء کے خونی جبر کے بعد واشنگٹن اور ٹوکیو کی حمایت سے ایک نئی جابرانہ آمریت قائم کی گئی۔ لیکن 1985ء سے امریکیوں نے بتدریج اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے فوجی آمریت، جو انہیں بہت مہنگی پڑ تی اور اکثر ہاتھ سے نکل جاتی تھی، کی بجائے کٹھ پتلی جمہوریت کا راستہ اپنایا۔ تاہم عوامی تحریکیں وقتاً فوقتاً ابھرتی رہی ہیں۔ 26 دسمبر 1996ء میں 1948ء کے بعد پہلی عام ہڑتال نے پورے ملک کو جام کیا تھا۔ محنت کش لیبر قوانین میں اصلاحات کے خلاف احتجاج کررہے تھے جس سے مزدوروں کو نوکریوں سے برطرف کرنا زیادہ آسان ہوجاتا۔ چوبیس دن کی ہڑتال کے بعد انہوں نے اپنے مطالبات منوائے اور حکمرانوں کو شکست ہوئی۔ لیکن 1997ء کے ایشیائی بحران کے بعد محنت کشوں کی جیتی گئی اصلاحات کو ختم کرنے کا عمل شروع ہوا۔
پچھلے چند سالوں میں کوریائی سماج اور معیشت کا بحران مزید بڑھ گیا ہے۔ پورے ملک میں سیاسی اشرافیہ اور کارپوریٹ مالکان کی کرپشن کا چرچا ہے۔ پچھلے سال نومبر میں سابق صدر پارک گیون ہائی کی بدعنوان حاکمیت کے خلاف دس لاکھ سے زائد لوگوں نے مارچ کیا۔ دسمبر 2016ء میں قومی اسمبلی نے اُسے برطرف کر دیا۔ اسی طرح جنوبی کوریا کی سب سے بڑی کمپنی سام سانگ کے مالک ’لی جے یانگ‘ کو بھی کرپشن کے الزامات کے تحت پابند سلاسل ہونا پڑا۔ سامراجیوں کا یہ سرمایہ دارانہ ’کوریائی معجزہ‘ اب ناکام ہورہا ہے۔ صدر مون کو شدید داخلی اور خارجی بحرانات درپیش ہیں، ٹرمپ انتظامیہ کا دباؤ ایک اور مسئلہ ہے۔ تاہم اس نے کہا ہے کہ ’’مجھے یاد ہے کہ اس (ٹرمپ) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ وہ کِم جان اُن سے چائے کی ایک نشست میں بات کر سکتا ہے… مزید مذاکرات کے ذریعے ہم بغیر کسی پریشانی کے ایک معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ یکم مئی کو ٹرمپ نے کہا کہ ’’مناسب حالات‘‘ میں کِم جونگ سے ملنا اُس کے لئے ’’اعزاز کی بات‘‘ ہو گی۔ تاہم ٹرمپ کی خواہشات نہیں بلکہ امریکی سامراجی اسٹیبلشمنٹ ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن امریکہ کی جانب سے کسی فوجی آپریشن یا مداخلت کے امکانات نہایت ہی کم ہیں۔ دھونس و دھمکیاں اپنی جگہ لیکن دونوں اطراف جانتی ہیں کہ کھلا تصادم صورتحال کو بے قابو کر دے گا۔ جنوبی کوریا کی ٹوری یونیورسٹی کے مشرقی ایشیا کے ماہر ’ڈینیل پنکسٹن ‘ نے کہا ہے کہ ’’امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا پر کوئی بھی حملہ یا کاروائی امریکہ کے ایشین سکیورٹی الائنس کا شیرازہ بکھیر دے گی۔ یہ محض پاگل پن ہو گا۔‘‘
چین کے اس خطے میں بھاری مفادات ہیں۔ آخری تجزئیے میں کِم جونگ کی ڈوریاں چین کے ہاتھ میں ہیں۔ جنوبی کوریا میں امریکہ کی 28500 فوجی چھاؤنیاں ہیں اور شمال و جنوب کا ملاپ ان کو چین کی سرحد کے قریب تر لے جائے گا۔ علاوہ ازیں کوئی انتشار بڑے پیمانے پر مہاجرین کی چین آمد کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ یوں نہ تو چین اور نہ ہی امریکہ دونوں ’کوریاؤں‘ کے اتحاد کے حق میں ہیں۔ تاہم آبادی کی بڑی اکثریت اس تقسیم کی ہمیشہ سے مخالف رہی ہے۔ لاکھوں خاندان آج تک منقسم ہیں۔ مون نے بھی اپنی الیکشن مہم کے دوران کہا تھا کہ ’’میری ماں (اپنے خاندان میں سے) واحد انسان تھی جو جنوب کی طرف آئی، وہ 90 سال کی ہے ، اسکی چھوٹی بہن ابھی بھی شمال میں زندہ ہے، میری ماں کی آخری خواہش اس کو دیکھنا ہے۔‘‘ ایک امریکی صحافی کے بقول ’’یہ خواہش جنگی سرحد کے دونوں اطراف کے ان گنت افراد کے دل کی آہ ہے۔‘‘ لیکن چین و امریکہ جیسی سامراجی قوتیں،جنوب کے سرمایہ دار اور شمال کی افسرشاہی اپنے اپنے مفادات کے تحت اس تقسیم کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔ صرف دونوں اطراف کے محنت کش عوام ہی ایک انقلابی تبدیلی کے ذریعے کوریا کو متحد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح سے سرمایہ دارانہ اور افسرشاہانہ جبر کا بھی خاتمہ ہوگا۔