لال خان
2013ء میں ’بھاری مینڈیٹ‘ کے ساتھ برسراقتدار آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت پاکستان کی سب سے پرانتشار اور غیر مستحکم حکومتوں میں سے ایک رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے نان ایشوز کی بھرمار دراصل حکو مت کی طاقت کا ہی باعث بن رہی ہے۔ درحقیقت پارلیمنٹ میں تمام اپوزیشن پارٹیوں کے پاس نواز حکومت سے مختلف کوئی بنیادی معاشی پالیسی نہیں ہے۔ تاہم ایک ایسا اہم ایشو ہے جو واقعی عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرکے عوامی مظاہروں کا باعث بن کر نواز حکومت کے وجود کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ صحت، تعلیم، پانی، نکاسی آب وغیرہ جیسے دیگر اَن گنت سماجی و معاشی مسائل کے علاوہ بجلی کے زخم اکثر و بیشتر عوامی غیض و غضب کا باعث بنتے رہے ہیں۔
لیکن یہ عوامی مظاہرے زیادہ تر اِکا دُکا اور الگ تھلگ ہوتے رہے ہیں۔ حکومت عارضی اقدامات کے ذریعے عارضی طور پر زیادہ بجلی سپلائی کرکے ان مظاہروں کو ٹھنڈا کر دیتی ہے لیکن یہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب اور سماج کی بجلی کی ضرورتوں کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ عوام کی بدحالی جاری ہے۔ حکمران بڑے منصوبوں کی شیخیاں بگھار رہے ہیں اور ملک میں توانائی کی کمی کے خاتمے کی تاریخ دیتے جا رہے ہیں۔ بجلی کی اس کمی کی اصل وجہ بڑھتی ہوئی طلب ہے جسے موجودہ انفراسٹرکچر اور پیداوار کی رفتار سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن مین سٹریم میڈیا اور سیاسی اشرافیہ کی نعرے بازیوں میں مسئلے کی اصل وجہ کو تو زیر بحث ہی نہیں لایا جاتا۔
پچھلی تین دہائیوں میں ایک بات ثابت ہوچکی ہے کہ بجلی اور دیگر سہولیات کی نجکاری نے سماج کو بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا ہے اور اکثریت کے پاس ’IPPs‘ اور توانائی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے والے دوسرے سامراجی اور مقامی کارپوریٹ سیکٹر کے منافعوں کی ہوس کو پورا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اس پیداوار کا مقصد متمدن انسانی وجود کی بنیادی ضرورت کے اس کاروبار میں مداخلت کرکے بے تحاشا منافع کمانا ہے۔ نجکاری کے آغاز کے بعد بجلی کی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ منافع خوری کی طرف موڑا گیا۔ 1990ء کی دہائی میں نجی شعبے کی بجلی کی پیداوار اس وقت شروع ہوئی جب بے نظیر کی دوسری حکومت نے بجلی کے شعبے کو سامراجی منافع خور نجی شعبے یعنی آئی پی پیز کے لیے کھول دیا۔ نواز شریف، مشرف اور بعد کی دوسری حکومتوں نے اس پالیسی کو جاری رکھا جس میں ان کے اپنے سرمایہ دار ٹولوں نے غریب آبادی سے بے رحم منافعے کشید کیے۔
فنانشل ٹائمز نے 1994ء میں نجی پیداوار کی طرف اس شفٹ کو ان الفاظ میں بیان کیا، ’’ورلڈ بینک کی معاونت سے (پاکستان نے) اپنی توانائی کے شعبے کی نجکاری کو پرکشش شرائط کے ذریعے دلکش بنایا۔ سالانہ 12 سے 15 فیصد ریٹرن (روپے میں نہیں بلکہ ڈالر میں) کی ضمانت دی گئی، ٹیکس چھوٹ اور نجی فنڈنگ پر سود دیا گیا جو حکومت کے لیے زیادہ مہنگاتھا۔ سرمایہ کاروں کے لیے یہ ناقابل یقین حد تک پرکشش تھا۔ ‘‘
ان سامراجی آئی پی پیز کے ساتھ طے پانے والے معاہدے واضح طور پر ان کارپوریٹ منافع خوروں کے مفاد میں تھے جنہوں نے اس وقت کے سیاست دانوں اور جرنیلوں کو نواز کر یہ ٹھیکے وصول کیے۔ ان حکومتوں نے ان سرمایہ کاروں کو گارنٹی دی کہ وہ بے تحاشا پیداواری صلاحیتیں تعمیر کریں اور وزارت خزانہ نے اس اضافی پیداواری صلاحیت کے لیے اتنی ہی ادائیگی کی گارنٹی دی چاہے وہ اسے استعمال میں لائیں یا نہ لائیں۔
فنانشل ٹائمز مزید لکھتا ہے، ’’یہ ماڈل حکومت پاکستان اور عوام، دونوں کے لیے کارکردگی کے حساب سے خراب طریقے سے تعمیر کیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ معاشی ترقی اور بجلی کی بہترین پیداوار کی کیفیت میں بھی حکومت کے لیے اس منصوبے کا خرچہ برداشت کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن چونکہ یہ دونوں کیفیتیں نہیں تھیں اس لیے نجی شعبے کی توانائی کے خرچے کو برداشت کرنا بالکل ہی ناممکن ہو گیا۔ بیشتر نجی سرمایہ کاروں نے تیل سے چلنے والے پلانٹ تعمیر کیے کیونکہ یہ جلدی اور کم خرچ سے تعمیر ہوجاتے ہیں۔ متغیر لاگتیں اور صارفین کے لیے قیمتیں بہت زیادہ تھیں۔ اسی لیے بہت سے صارفین اپنی بجلی کے بل ادا نہیں کرسکتے۔‘‘
حکمران طبقات اپنی بے تحاشا دولت بینکوں میں ذخیرہ کر رہے ہیں جبکہ عوام محروم ہیں اور ریاست دیوہیکل قرضوں میں غرق ہے اور اگر عالمی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے نہ ہوں تو فوراً ہی دیوالیہ ہوجائے۔ پاکستان کے گردشی قرضے بڑھتے ہوئے سود اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کی وجہ سے بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اس انتشار سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جوں ہی ادائیگیاں رکتی ہیں آئی پی پیز پاور پلانٹس کو بند کرکے پورے پاکستان کو تاریکی میں ڈبو دیتے ہیں۔ عوام کو روزانہ کی بنیاد پر لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود کہ ملک میں 35 فیصد زیادہ پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ عوام کو اس خطے کی سب سے مہنگی بجلی کا بوجھ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی قیمتیں خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ یہاں فی یونٹ 0.13 ڈالر، بھارت میں 0.12 ڈالر، چین میں 0.11 ڈالر اور بنگلہ دیش میں 0.09 ڈالر ہے۔ فرنس آئل ملک کی 40 فیصد، ہائیڈرو الیکٹرک ڈیمز 30 فیصد اور گیس 25 فیصد بجلی کی ضروریات پوری کرتی ہے۔
جہاں توانائی کی پیداوار میں مالی مشکلات ہیں وہیں اس کی تقسیم میں اس سے بڑا بحران ہے۔ اگر بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے تو گلی سڑی اور بوسیدہ ٹرانسمشن لائنیں اور ڈسٹریبیوشن انفراسٹرکچر اس اضافی پیداوار کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے۔ ریاست کو لوٹ لیا گیا ہے اور صرف قرضوں پر چل رہی ہے۔ اس میں اتنی مالیاتی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ بجلی کی پورے ملک میں تقسیم کے لیے جدید خطوط پر انفرسٹرکچر تعمیر کرے۔
اپنی موجودہ بوسیدہ حالت میں ڈسٹریبیوشن انفراسٹرکچر مشکل سے ہی موجودہ پیداوار کو سنبھال رہا ہے۔ ٹرانسمشن لائنیں اور تاریں گل سڑ چکی ہیں اور مختلف سرمایہ دارانہ حکومتوں میں نہ تو کوئی ارادہ اور نہ ہی مالی صلاحیت ہے کہ انہیں اپ گریڈ یا مرمت کرسکیں۔ حتیٰ کہ بڑے شہروں میں ٹرانسفارمر اوور لوڈ ہوجاتے ہیں اور اکثر بند ہوجاتے ہیں، جبکہ ریاست کے پاس ان کی مرمت کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔ ٹرانسمشن انفراسٹرکچر کی زبوں حالی کی کیفیت یہ ہے کہ نجی شعبہ بھی اس میں اتنی بڑی سرمایہ کاری سے کترا رہا ہے کیونکہ پاکستان جیسے غریب ملک میں اتنی مہنگی بجلی خریدنے کی صلاحیت بہت کم ہے اور منافع خوری میں لمبی تاخیر ہوگی۔ سی پیک کا سارا زور بھی ٹرانسمشن لائنوں کی بجائے توانائی کی پیداوار کے منصوبوں پر ہے۔ شمال سے جنوب کی طرف نئی ٹرانسمشن لائنیں بچھانے کے کچھ منصوبے ہیں لیکن پاکستانی ریاست کے بڑھتے ہوئے قرضے اور مالیاتی خسارے کے بحرانوں کی وجہ سے ان منصوبوں کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔
چینی کارپوریٹ سرمایہ کار یہاں سستی بجلی دینے کے لیے نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ منافع کشید کرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ پاکستان میں سرمایہ داری کی مسخ شدہ اور غیر ہموار صنعتی اور معاشی ارتقا کی ایک اور مثال ہے کہ توانائی کی پیداوار اور اس کی ٹرانسمشن اور تقسیم کے درمیان کوئی ربط ہی نہیں ہے۔ ترقی کے ان تمام ڈھکوسلوں کے باوجود انفراسٹرکچر کے لیے کوئی ایک بھی منصوبہ نہیں ہے جس کے ذریعے بجلی سے محروم بلوچستان کے لیے بجلی مہیا کی جاسکے، جہاں بجلی کی ٹرانسمشن کی صلاحیت 500 میگا واٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ بجلی کی طلب سالانہ 10 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے جو توانائی کے بحران کو مزید گہر ا کر رہی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ پاکستان کو سستے فوسل فیول جیسا کہ قدرتی گیس اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، بجائے فرنس آئل اور ڈیزل کے، جس سے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے بڑھ گئے ہیں اور قومی معیشت پر بوجھ بن گئے ہیں۔ لیکن اس نظام میں تمام دوسرے کاروباروں کی طرح بجلی بھی صرف منافع خوری کے لیے پیداکی جاتی ہے نہ کہ سماج کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے۔
حقیقت یہ ہے کہ بینکاروں، بیرونی اور مقامی سرمایہ کاروں، بورژوا سیاست دانوں اور فوج کے سرمایہ دارانہ کاروباروں کے منافعوں کا تحفظ صرف اس نظام کے تحت ہی ہو سکتا ہے جو محنت کشوں اور مزدوروں کا خون نچوڑ رہا ہے۔ اِس معیشت اور ریاست کی تعمیر ہی ان مراعات یافتہ طبقات کے مفادات کی تحفظ کے لیے کی گئی ہے۔ سماج کو سستی اور کارآمد بجلی کی فراہمی کے لیے بجلی کے پیداواری نظام اور اسے کنٹرول کرنے والے مالیاتی اور بینکنگ نظام کو سرمایہ داروں سے ضبط کرنا ہوگا، لیکن ایسا صرف مزدوروں کے جمہوری کنٹرول اور انتظام میں چلنے والی ریاست ہی کرسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا سماج ہوگا جہاں تمام تر پیداوار، خدمات اور زرعی شعبے امیروں کی منافع خوری کے لیے نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے کام کریں گے۔