لال خان

پچھلے کئی دنوں سے دنیا بھر میں امریکہ کے ہالی ووڈ فلم پروڈیوسر ، ڈائریکٹر اور ’میر امیکس فلمز‘ کے مالک ہاروے وائنسٹین کے خلاف جنسی دست درازی کے الزامات کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ وائنسٹین کی فلمیں 341 مرتبہ آسکر کے لئے نامزد ہوئی ہیں اور اسے چھ مرتبہ آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس کی اِن انعام یافتہ فلموں میں ’شیکسپیئر اِن لو‘، گینگز آف نیویارک، پلپ فکش، ون چانس، مالینا، نائین، کِل بِل وغیرہ شامل ہیں۔ ہالی ووڈ کی مشہور ترین اداکاراؤں نے اس پر جنسی ہراسانی اور ریپ کے الزامات لگائے ہیں۔ ان ادارکاراؤں میں انجیلینا جولی، گیونتھ پالترو، جین آسٹن، ایشے جوڈ اور دنیا کی دوسری کئی مشہور ترین اداکارائیں شامل ہیں۔ اسکے بعد دنیا بھر میں خواتین کی ایک مہم ’می ٹو‘ کے نام سے شروع ہو چکی ہے جس میں ہر روز مزید خواتین انکشافات کرتی چلی جا رہی ہیں کہ انہیں بھی زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی طور پر ہراساں کیا جا چکا ہے۔ پاکستان میں اس مہم سے پہلے ہی ایسے الزامات عائشہ گلا لئی، عائشہ احد ملک اور عائلہ ملک نے عمران خان اور حمزہ شہباز پر لگائے تھے جو کئی ہفتے ہیڈ لائنز بنے رہے۔

اگر ہم ہاروے وائنسٹین کا جائزہ لیں تو وہ امریکہ کے امرا کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ اس کروڑ پتی فلم ساز نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے لئے لاکھوں ڈالرز جمع کئے۔ لیکن ان الزامات کی بوچھاڑ کے بعد اسکی بیوی نے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور اس کو فلمی تنظیموں اور اپنی ہی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے نکال دیا گیا ہے۔ میڈیا اپنی ریٹنگز کے لئے اِس واقعے کو خوب اچھال رہا ہے لیکن اس سے یہ حقیقت بھی بے نقاب ہوتی ہے کہ مغرب کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں بھی جنسی ہوس اور مردانہ جبر کتنا شدید ہے۔ خواتین کے حقوق کی تمام تر تنظیموں اور تحریکوں کے باوجود یہ جنسی جبر اور صنفی کمتری کی ذلت ختم نہیں ہوسکی بلکہ بحران کے ساتھ اس میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔ اس نظام کا معاشرتی ڈھانچہ بھی اسی طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس میں عورت کی معاشی اور سماجی حیثیت کو کمتر رکھ کر اسے جنسی بنیادوں پر جبر و استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غیر ترقی یافتہ ممالک میں یہ صورتحال زیادہ بد تر اور خام کیفیت میں خواتین کے لیے عذابِ مسلسل بن چکی ہے۔

ایسے معاشرے جہاں سماجی اور ریاستی طور پر قدامت پرستانہ اقدار جبر سے مسلط کی جاتی ہیں ان میں خواتین کو محکوم رکھنے کے لئے اخلاقیات اور عقائد کی رجعتی تشریحات کو بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ کہیں مذہبی، کہیں ثقافتی اور کہیں روایتی بنیادوں کو استعمال کر کے معاشرے میں عورت کو دوسرے یا اس سے بھی گھٹیا درجے پر لا کھڑا کیا جاتا ہے اور یہ امتیاز سماجی نفسیات میں نسل در نسل سرایت کروایا جاتا ہے۔

تاہم خواتین کے استحصال کے مسئلے پر بہت سے فیمینسٹ رجحانات اور تاولیں ایک بنیادی اور کلیدی نکتے کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ یہ ان خواتین و حضرات کا طبقاتی پس منظر ہے۔ جن اداکاراؤں نے اب کئی سالوں اور دہائیوں بعد انکشافات کئے ہیں وہ ڈالروں میں کروڑ پتی ہو چکی ہے۔ لیکن انہوں نے یہ الزامات اس وقت عائد نہیں کئے جب وائنسٹین نے یہ حرکات کی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تب ان کو کام چاہیے تھا اور وائنسٹین ان کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتا رہا۔ شاید بہت سی اداکارائیں دولت اور شہرت کی بلندیوں پر اس کی ان حرکات کو درگزر بھی کرچکی تھیں۔ اب ایک بار الزامات کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ان میں سے کئی گمنامی سے نکل کر منظر عام پر آ رہی ہیں۔

اگر ہم غور کریں تو ہالی ووڈ میں اپنی پوزیشن کو استعمال کر کے اداکاراؤں کو جنسی طو ر پر ہراساں کرنے والا وائنسٹین اکیلا پروڈیوسر یا ڈائریکٹر نہیں ہے۔ اسی طرح بمبئی سے لے کر دنیا بھر میں منافع خوری کی اس صنعت میں یہ معمول ہے۔ فلم اور فیشن کی اِس رنگین دنیا کی غلیظ اصلیت پر کئی فلمیں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں بن چکی ہیں۔ خواتین کے معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور جنسی استحصال کا اگر جائزہ لیا جاتا تو سب سے زیادہ مظلوم محنت کش طبقے کی خواتین ہیں۔ ان کو کئی قسم کے جبر و استحصال کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں مردانہ جبر کے تسلط کا یہ سرمایہ دارانہ معاشرہ محروم طبقات کی عورتوں کا استحصال کرتا ہے وہاں محنت کش اور پسے ہوئے طبقات کے مردوں کا بھی استحصال مسلسل جاری رہتا ہے۔ لیکن معاشرے کی پست ترین پرتوں میں محنت کش مرد اپنی بیوی، بہن اوردوسری رشتہ داروں کو بھی دباتے ہیں۔ کیونکہ معاشرے پر مردانہ برتری کے رحجانات اور سوچیں درمیانے طبقے کے ذریعے محروم ترین طبقات کے مردوں کی نفسیات پر بھی عام حالات میں مسلط ہو جاتی ہیں۔ لیکن یہ دلیل کہ صرف مرد ہی عورتوں کا استحصال کرتے ہیں صریحاً غلط ہے ۔یہاں بڑی بڑی بیگمات اپنی نوکرانیوں، سیکرٹریوں اور دوسری ملازماؤں اور ملازموں کو جس تذلیل اور جبروتشدد کا نشانہ بناتی ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اسی طرح درمیانے طبقات میں اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ مالیاتی طو ر حاوی خواتین اپنے مردوں کو کچھ کم تضحیک کا نشانہ نہیں بناتیں۔ بلکہ بعض تو ان کو نوکروں کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ اس لئے جنسی بنیادوں پر جبر کا مسئلہ طبقاتی رشتوں اور سماج میں مالیاتی حیثیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

’می ٹو‘ کی موجودہ مہم کو زیادہ تر درمیانے طبقے اور سول سوسائٹی کی خواتین چلا رہی ہیں لیکن کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ پسی ہوئی محنت کش خواتین ایسی مہمات میں حصہ لیتی ہوں۔ ان کے پاس اس تلخ زندگی میں وقت اور سماجی و مالیاتی وسائل ہی نہیں ہوتے۔ بہت ہی ایسی مہارانیاں بھی ہیں جن کی جاگیروں پر کام کرنے والی دہقان خواتین پر جنسی تشدد ان کے منشی اور درمیانے درجے کے ملازم کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی گھریلو ملازمہ کا کیس سامنے آتا ہے تو عموماً اس میں بھی کسی پیسے اور طاقت والے کی ترغیب شامل ہوتی ہے۔ مختلف مالیاتی اور جائیداد کے جھگڑوں کے بدلے لیے جاتے ہیں۔ این جی اوز نے ایسے کیسوں کو بھی منافع بخش کاروبار بنا لیا ہے۔

خواتین اراکینِ پارلیمنٹ عموماً اپنے بالاد ست طبقات میں اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لئے انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے تحفظ کے بل پیش کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ بل پاس بھی ہوجاتے ہیں لیکن اس معاشرے کی وسیع تر آبادی کی محنت کش اور غریب خواتین کو انکے بارے میں نہ کوئی علم ہے اور نہ ہی ان کے پاس اس مہنگے انصاف کو حاصل کرنے کے پیسے ہیں۔ یہاں قانون اندھا نہیں مہنگا ہے اور جج سب کچھ دیکھ سکتا ہے ۔پہنچ کے لئے دولت درکار ہے۔ اس معاشرے کے ڈھانچے جہاں بنیادی طور پر طبقاتی استحصال کی بنیادوں پر استوار ہیں لیکن ان میں جنسی، مذہبی، فرقہ وارانہ، قومی، نسلی اور دوسری نوعیت کے ظلم و استحصال بھی موجود ہیں۔ ہر قسم کے جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد انسانی فریضہ ہے۔ لیکن ان ذلتوں سے حتمی نجات کے لئے اس لڑائی کو اُس طبقاتی جدوجہد سے جوڑنے کی ضرورت ہے جو اس بوسیدہ نظام کے متروک اور تعفن زدہ سماجی ڈھانچوں کو اکھاڑ کر لالچ اور ہوس سے پاک ایسے نظام کواستوار کرے جس میں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال، جبر اور جنسی درندگی کا خاتمہ ہوسکے۔