مقدس

قدیم دور میں سماجی محنت یوں ہوتی تھی کہ اس میں مرد اور عورت دونوں ہی مشترکہ طریقے سے پیداوار کرتے تھے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم وتربیت بھی مشترکہ طور پر کی جاتی تھی جس میں عورتیں بچوں کو مستقبل کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار کرتی تھیں اور بچوں کو مردوں کے حوالے کردیا جاتا تھا جو انکے اُستاد اور نگران کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ پیداواری عمل مرداور عورت دونوں کا مشترکہ سماجی فعل تھا۔ جب قدیم اشتراکی نظام زوال پذیر ہوا اور سماجی پیداواری عمل، جس کی بنیاد پر دونوں جنسوں میں برابری کا تعلق قائم تھا، سے عورت کو خارج کیا گیا تب سے ہی عورت کی غلامی کی ابتدا ہوتی ہے۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ زراعت اور مویشی پالنے کے باعث ایک نئی معیشت نے جنم لیا جس میں پہلے درجے کی جنس کی بنیاد پر محنت کی تقسیم کی بجائے درجہ بدرجہ محنت کی تقسیم عمل میں آئی۔ مثال کے طور پر مویشی پالنے والے کسانوں سے لیکر دھاتوں کا کام کرنے والے، کشتیاں اور جہاز بنانے والے اور کپڑ ا بننے سے برتن بنانے والوں تک ہر کام ایک دوسرے سے الگ ہوگیا۔ محنت کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ثقافتی تقسیم بھی عمل میں آئی جیسے پُجاری، مصور اور سنگتراش وغیرہ۔ اس عمل کے دوران دونوں جنسوں کے کردار کی شکلوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور جیسے جیسے محنت کی مزید تقسیم ہوتی گئی ویسے ویسے عورتیں مردوں کے ماتحت ہوتی چلی گئیں اور آخر کار مکمل طور پر محکوم بن گئیں۔

عورتوں کو سماجی اور ثقافتی کاموں سے ہٹا کر گھر اور خاندان کے کاموں میں لگا دیا گیا جبکہ ریاست اور کلیسا کی بڑھتی ہوئی قوتوں نے بھی عورتوں کو یہی درس دیا کہ ان زندگیوں کا دائر ہ ان کے گھروں تک ہی محدود ہے اورستم ظریفی یہ ہے کہ وہ کسی قسم کی شکایت کیے بغیر خاموشی سے اپنے شوہروں اور خاندان کی خدمت کرتی رہیں اور ابھی تک کر رہی ہیں۔ عورت کے کمتر ہونے اور مرد کے اس سے بالا تر ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف عورتوں کو سماجی پیداوار میں اپنی سابقہ حیثیت گنوانی پڑی بلکہ وہ بچوں کی پرورش کے قدیم اجتماعی نظام سے بھی محروم ہوگئیں۔ نچلے طبقے کی عورتیں ہمیشہ جدوجہد اور محنت کرتی رہی ہیں۔ زرعی دور میں عورتیں کھیتوں میں محنت کرتیں اور اسکے ساتھ ساتھ بچوں کی پیدائش وپرورش کے ساتھ گھر کے دیگر کاموں کا بھی انہیں سامنا کرناپڑا، لیکن ایک اجتماعی سماج میں مشترکہ محنت اُس محنت سے بہت مختلف ہوتی ہے جو اپنے گھرمیں کی جائے یا صرف اپنے خاندان میں کی جائے یاصرف اپنے شوہر کی خاطر کی جائے۔ سماجی پیداوار میں حصہ لینے سے ذہن اور جسم دونوں کی نشوونما ہوتی ہے جبکہ سماج سے کٹ کر اپنے انفرادی بیزار کن گھریلو کام میں محو ہو جانے سے ذہن اور جسم دونوں کی نشوونما سکڑ جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مرد اور عورت کے درمیان محنت کی تقسیم ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہی ہے۔ طبقاتی سماج، نجی ملکیت اور پدرسری نظام نے مردوں کی بالا دستی پر مشتمل محنت کی جس تقسیم کو جنم دیا وہ عورتوں کے بڑے پیمانے پر استحصال کا باعث بنی۔

انسانی تاریخ کی ابتداسے ہی یہ بتایا گیا ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان محنت کی تقسیم ہر خاندان میں ہوتی تھی۔ شوہر کام کے لیے باہر جاتا ہے جبکہ بیوی گھر میں ہی رہتی ہے تاکہ بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کام کرسکے۔ اس سلسلے میں گھر کاکا م کاج کرنے والی کچھ عورتیں اس بات پر شدید برہم ہیں کہ مردوں کو ان کی محنت کی اجرت ملتی ہے لیکن عورتوں کو اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا اور اس نا انصافی کی جڑیں تاحال شدیدگہر ی ہیں جسکا اس چاردیواری میں اکتا دینے والے کاموں میں مصروف مجبور عورتوں کی ہر طرح سے ویران زندگی میں بڑا عمل دخل ہے۔ ’’اچھی عورت‘‘ بننے کے لیے شادی اور خاندان کو زندگی کا مقصد بنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

عورت نے شروع سے ہی ضروریات زندگی کی پیداوار میں کلیدی کردار ادا کیا۔ زندہ رہنے کے لیے انسان کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور ابتدائی ادوار میں خوراک کی ضروریات شکار اورجنگلی جڑی بوٹیوں سے ہی پوری کی جاتی تھیں۔ شکاری مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ خوراک اکٹھی کرتی تھیں، چونکہ شکار خطرناک بھی ہوتا تھا اور مرد اکثر خالی ہاتھ بھی لوٹتے تھے۔ اُس وقت عورتوں کی جمع کی ہوئی خوراک ہی کام آتی تھی۔ خوراک کی منتظم بھی عورتیں ہوا کرتی تھیں۔ یعنی قدیم اشتراکی سماج میں عورتوں کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی تھی، لیکن عورت کے کام کی تو یہ محض ابتداتھی۔ جس وقت مرد شکار میں مصروف ہوتے تھے اس وقت میں عورتیں چمڑے کی اشیا، مٹی کے برتن بنانے اور مختلف قسم کے کام کرتے ہوئے خوراک کے لیے جڑی بوٹیوں کو آزما رہی تھیں اور اس طرح سائنسی علوم کی بنیادیں رکھ رہی تھیں۔ اس دور میں جو عورتیں خوراک کے لیے تجربات کرتے ہوئے زہریلی بوٹیاں اور پتے چبا کر اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئیں ان کا حساب نہیں ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ آج ہم جو اجناس اور سبزیاں وغیرہ استعمال کرتے ہیں اس کے پیچھے قدیم عہد کی عورت کے جان لیواتجربات اور لازوال قربانیاں ہیں۔ اسی دور میں عورت ایک طرف تو نوکدار لکڑی سے زمین کھودتے ہوئے زراعت کی ابتدا کررہی تھی تو دوسری جانب جنگلی جانوروں کو پالتو بناتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والے گوشت، اون اور دودھ وغیرہ کی اہمیت کو اجا گر کر رہی تھی۔ یہی وہ بنیادی اقدامات تھے جو انسانی تہذیب کی بنیاد بنے اور جن کی بدولت انسان کو شکارکی تکلیف دہ زندگی سے نجات حاصل ہوئی اور انسان اعلیٰ قسم کے پیداواری عمل کے قابل ہوسکا۔ مرد کی برتری کے دعویداروں نے قدیم سماج میں عورت کے پیداواری عمل کی اہمیت کو نظر انداز کر کے انتہائی نا انصا فی برتی ہے۔

عورت کی محنت کو محض گھریلونوعیت کا کام ہی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو اس قدیم دورمیں الگ الگ خاندانوں کا وجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی ملکیت رکھنے والا کوئی حکمران طبقہ تھا جو عورت کی محنت کا اجر حاصل کرنے کے لیے اسے خاندان کی غلامی پر مجبور کرتا، بلکہ قدیم گھرانے ایک طرح سے سماجی زندگی کے محور ہوتے تھے۔ جن میں اپنے زمانے کے لحاظ سے فیکٹریاں، درسگاہیں، تجربہ گاہیں، دواخانے اور اجتماعی گھروں سمیت ساری چیزیں ہو اکرتی تھیں۔ اس دور کے نظام میں مشترکہ طور پر کام کرنے والی عورت، آج کی عورت سے بہت زیادہ مختلف تھی، جبکہ موجودہ دورکی عورت کا محور اس کے گھر کی دنیا ہے۔ ہم مرد کی قابلیت کو نظر انداز نہیں کررہے جو اس نے اپنے شکاری دور میں حاصل کی، بلکہ ہم صرف توازن قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت میں نہ صرف عورت کے کام کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ مرد کی شکار کرنے والی محنت کی بھی صحیح قدر نہیں کی گئی۔ اس دور کے سماجی اور معاشی ارتقا کی مناسبت سے مخصوص حالات میں تقسیمِ محنت کی ضرورت کے مطابق مردوں اور عورتوں میں کام بانٹا جاتا تھا۔ جب طبقاتی نظام نے قدیم اشتراکیت کی جگہ لی تو عورت کی مشکلات زندگی میں اضافہ ہوتا گیا۔

جب ہم جنوبی امریکہ کو ذہن میں لاتے ہیں تو وہاں کے ’’ریڈ انڈین‘‘ قبیلوں پر دھیان جاتا ہے۔ اِن قبیلوں میں تو نہ عورت مظلوم ہوتی تھی اور نہ ہی مرد کی بالا دستی ہوتی تھی۔ لیکن جب یورپ سے آئے ہوئے مہذب لوگوں نے ان کی زمینیں بندوق اور شراب کے عوض خریدنا شروع کی تو صورتحال تبدیل ہونے لگی۔ ریڈ انڈین قوم کی قدیم دستاویز ’لافیتو‘میں لکھا ہے کہ’’ اس سے بڑی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ عورت عظیم ہے۔ یہ عورت ہی ہے جس سے قوم تشکیل پاتی ہے، خاندان کا شجرہ بنتا ہے، آنے والی نسل کی تربیت ہوتی ہے اور خاندان کو تحفط حاصل ہوتا ہے۔ حقیقی حاکمیت عورت ہی کی ہے اور ملک کے سارے کھیت کھلیان اسی کے ہیں۔ وہ صلاح ومصلحت کی جان ہے اور جنگ اور امن کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے۔ ‘‘ اسی طرح بیشترانقلابات و سرکشیوں کی فوری وجہ عورت بنی ہے۔ ان میں سے روس کا انقلاب سرفہرست ہے۔ ٹراٹسکی نے انقلابِ روس کے دوران معاشرے کی پچھڑی ہوئی پرتوں کی زندگیوں، عادات واطوار اور سوچوں کی کیفیات میں برق رفتار تبدیلیوں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ روس میں بھی پردے کے لیے سکارف اور چادروں کا استعمال درمیانے اور نچلے طبقات میں عام تھا۔ لیکن فروری کے انقلاب کا آغاز ہی محنت کش خواتین کے عالمی دن سے ہوا تھا۔ اس سے پہلے انقلابی ریلے کی سادہ سی مانگ تھی ’روٹی اور امن‘۔ بالشویکوں نے ان بنیاد ی مطالبات کو سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام سے جوڑکر روس کے طول وارض میں پھیلا دیا تھا۔

یہی خواتین جو قدامت پسند بھی تھیں، دوہرے استحصال تلے دبی ہوئی تھیں اور جس میں بیشترسپاہیوں کی بیویاں تھیں، جب باہر نکلیں تو انہوں نے اپنے ’پردے‘ اور ہچکچاہٹ کو ہی نہیں جھٹکا بلکہ مروجہ حاکمیت کے خاتمے کا بیڑا اٹھایا۔ اب محنت کش طبقے کی عورت انقلاب سے پہلے والی عورت نہیں تھی۔ ایک موقع پر لینن نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ دیکھئے!یہاں نئی تشکیل شدہ سوشلسٹ ریاست میں خواتین بڑاکردار ادا کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں پہلی مرتبہ وہ وسیع سماجی میدان میں آئی ہیں۔ دیکھئے ہماری عورتیں، دیہاتوں تک میں پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی کتنی مشتاق ہیں۔ کچھ سا ل گزرنے پر ہمارے ہاں عورتیں ڈاکٹر، ماہرِ زراعت، انجینئر، سائنس دان اور ریاستی کارکن ہونے لگیں گی۔ ‘‘

محنت کش عورتوں جیسی کیفیت نچلی ذاتوں، اقلیتوں اور معاشرے کی پسی ہوئی پرتوں کی بھی تھی۔ یہ خواتین جب انقلاب کے آغاز میں سفاک ترین فوجی دستوں اور گھڑ سواروں کی جانب بڑھیں تو سپا ہیوں کی ہمت تک نہ ہوئی کہ ان پر وار کر سکیں۔ وہ اُن کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔ 23 فروری خواتین کا عالمی دن تھا۔ سوشل ڈیموکریٹک حلقوں نے اس دن کو عمومی انداز سے ہی منانے کا ارادہ کیا تھا، جلسے، تقاریر، لیف لیٹ وغیرہ۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ انقلاب کا پیش خیمہ بن جائیگا۔ کسی ایک تنظیم نے بھی اِس دن ہڑتالوں کی کال نہیں دی۔ حتیٰ کہ وائبورگ علاقے کی کمیٹی بھی، جو انتہائی لڑاکا بالشویک تنطیم تھی اور مزدوروں پر مشتمل تھی، ہڑتالوں کی مخالفت کررہی تھی۔ اِس مزدور علاقے کے ایک رہنما کائیوروف کے مطابق عوام کا مزاج بڑا تنا ؤ بھرا تھا، کوئی بھی ہڑتال کھلی لڑائی میں تبدیل ہوسکتی تھی۔

خواتین نے انقلاب کی کامیابی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور انقلاب کے بعد ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، ماہر زراعت، سائنسدان اور قانون دان بنیں۔ انہوں نے سیاست میں بھی اہم کردار ادا کیا، مختلف عہدوں پر بھی فائز ہوئیں۔ یہ سوویت عورتوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا عملی اظہار تھا جس کا شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ اُن کو موقع ملا اور انہوں نے اپنے عمل سے زندگی کے ہر میدان میں خود کو مردوں کے شانہ بشانہ سماجی ترقی کا حصہ دار بنایا۔ اگر ہم آج کے اس جدید ترقی یافتہ عہد میں عورتوں کا تجزیہ کریں تو سرمایہ داری نے اپنی بقا کے لیے اُسے صرف ایک اشتہاری جنس بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ نظام عورتوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے اور بروئے کار لانے کی بجائے انہیں محض نمودونمائش تک محدود کر دیتا ہے۔

قدامت پسند سوچ یہ کبھی پسند نہیں کرتی کہ عورتوں کا بھی نظریاتی جدوجہد اور سیاست میں کوئی کردار ہو۔ اِس لیے خواتین کے لیے جدوجہد کرنا انتہائی کٹھن ہوتا ہے مگر یہ ناممکن نہیں۔ لہٰذا تمام استحصال زدہ لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، جب جنسی تعصبات کو جھٹک کر طبقاتی بنیادوں پر سوشلزم کی جدوجہد کرتے ہوئے غیر طبقاتی نظام کی بنیاد رکھیں گے تو ایک بے مثال معاشرہ قائم ہو گا۔ جب تمام نوجوان نسل تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی حاکموں کی غلامی اور جھوٹ پر مبنی تاریخ کی اصلیت جانے گی اورمحکوموں اور محنت کشوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوگاتو یہ مٹھی بھر لوگ یعنی سرمایہ دار زیادہ دیر تک ٹک نہیں پائیں گے۔ اب وہ وقت دور نہیں کہ جب محنت کش عورتیں اپنے طبقے کے مردوں کے ساتھ مل کر سُرخ پرچم کو تھامے اس بوسیدہ سماج کوجڑوں سے اکھاڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب اور سرخ سویرے کی نوید سُنائیں گی!