حارث قدیر
ستر سال قبل برصغیر کے خونی بٹوارے نے ایک ایسا رستا زخم چھوڑا جواب ایک ناسور کی شکل اختیارکر گیا ہے۔ ایک ایسا خطہ جو جغرافیے اور وسائل کے اعتبار سے بیش بہا دولت سے مالا مال تھا لیکن تقسیم کے سامراجی فارمولے نے اسے ایک ایسے زخم میں تبدیل کر دیا کہ اس میں بسنے والے پونے دو کروڑ نفوس نہ صرف اذیت ناک زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ اس خطے میں ہر تبدیل ہوتی ہوئی سامراجی مفادات کی حامل حکمت عملی کا براہ راست شکار بنتے ہوئے ان اذیتوں میں مسلسل اضافے کی کیفیت سے دو چار ہیں۔ اگست 1947ء کی سامراجی تقسیم کے نتیجے میں خطہ جموں وکشمیرا ور گلگت بلتستان کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا اور تینوں حصوں میں انسانوں کی زندگیوں کو نہ صرف اجیرن بنا دیا گیا بلکہ انکی سیاسی، سماجی، ثقافتی، معاشرتی، طبقاتی اور قومی آزادیاں صلب کرتے ہوئے ایک ایسے سراب میں چھوڑ دیا گیا جہاں سے نکلنے کی جدوجہد بھی تینوں حصوں میں مختلف طریقوں سے منقسم انداز میں ہی آگے بڑھی لیکن حتمی طور پر کوئی بھی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
تینوں خطوں میں موجود انسانوں کو درپیش مسائل کا اگر مختصراً جائزہ لیا جائے تو ہمیں ایک طرف بھارت کے زیر تسلط جموں کشمیر نظر آتا ہے جہاں وادی کشمیر، جموں اور لداخ میں رہنے والے انسانوں کو بنیادی شہری حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور بھارتی جبر و تسلط کے سائے تلے زندگیاں سسک رہی ہیں۔ جبر و استحصال کیخلاف جدوجہد کو قابو کرنے کیلئے مختلف کالے قوانین کا نفاذ کرتے ہوئے فوج کو اس حد تک اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ کسی کو بھی کہیں بھی قتل کرنے اور کسی بھی نوعیت کا غیر انسانی سلوک کرنے کے مجاز ہیں اور اسکا عملی نمونہ ہمیں گزشتہ ستر سال میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ لیکن مذکورہ مقبوضہ حصہ کو بھی قابض بھارتی ریاست کی آشیرباد سے پلنے والی مقامی حکمران اشرافیہ، بنیاد پرست و تنگ نظر قوم پرست قیادتوں کے اشتراک سے سیاسی طو رپر ہی تین حصوں میں تقسیم رکھا گیا ہے جس کے باعث ریاستی جبر کیخلاف ہونیوالی مزاحمت بھی محدود و مقید اور نام نہاد قیادتوں کے چنگل سے تاحال آزاد اور اپنی قیادت تراشنے کے اہل نہیں ہو سکی ہے۔ دوسری طرف ہمیں پاکستان کے زیر تسلط کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے نظر آتے ہیں جہاں آزادیاں اعلانات کی حد تک تو دیکھنے کو نصیب ہوئیں لیکن حالات بھارتی مقبوضہ کشمیر سے کسی طور پر بھی اچھے نہیں ہیں۔ بغاوت اورقبائلی حملے کے نتیجے میں چوبیس اکتوبر کو پاکستان کے زیر تسلط کشمیر میں ایک اعلان آزادی اور پھر یکم نومبر کو گلگت بلتستان میں بغاوت کے بعد اعلان آزادی اورآزاد حکومت سے الحاق کے اعلان کے فوری بعد ہی مذکورہ آزادیاں پاکستانی ریاست کی جانب سے صلب کر دی گئیں۔ گلگت بلتستان کی نگرانی ایک تحصیلدار کے سپرد کی گئی اور بعد ازاں گلگت بلتستان کونسل کے ذریعے پاکستان کی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے زیر نگرانی کر دیا گیا جبکہ کشمیر کی حکومت کے تمام تر اختیارات بھی چند افسران اور پھروزارت امور کشمیر کے سپرد کر دیئے گئے۔ مذکورہ خطوں میں بھی مقامی حکمران اشرافیہ کو پاکستانی حکمرانوں کی آشیرباد سے عوام پر مسلط کیا گیااور انہیں لوکل باڈی کے برابر اختیارات بھی نہیں دیئے گئے۔ نتیجتاً ان خطوں میں بجلی و پانی پیدا کرنے کے اختیارات، سیاحت، آبادی کی منصوبہ بندی، بینکنگ، انشورنس، سٹاک ایکسچینج اور مستقبل کی منڈیاں، تجارتی ادارے، ٹیلی مواصلات، معاشی روابط کیلئے منصوبہ بندی، ہائی ویز، کان کنی، آئل اینڈ گیس، صنعتوں کی ترقی اور اخبارات کی اشاعت کا اجازت نامہ بھی کونسلوں سے لینا لازمی ہے جبکہ آمدنی کے بڑے ذرائع انکم ٹیکس سمیت متعدد دیگر ٹیکسز جمع کرنے کا اختیار بھی کونسلوں کے پاس ہے۔ جمع ہونے والے ٹیکسوں کی 80 فیصد رقم مقامی حکومتوں کو ملتی ہے جبکہ 20 فیصد رقم کونسل انتظامی اخراجات کی مد میں اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔ دونوں خطوں کے عوام کو حقوق و اختیارات دیئے جانے کی تجاویز کو وفاق کی جانب سے متنازعہ خطے ہونے کو جواز بناکررد کر دیا جاتا ہے جبکہ ٹیکسوں کی وصولی سمیت وفاق میں بننے والے تمام تر قوانین کو نافذ کرنے کیلئے قبل ازیں آرڈیننس اور اسمبلیوں کے اجلاس بلائے جانے کی زحمت گوارا کی جاتی تھی لیکن اب وہ سلسلہ بھی ختم کرتے ہوئے وفاق میں بننے والے تمام قوانین بلاچوں چراں دونوں متنازعہ خطوں کے عوام پر نافذ کر دیے جاتے ہیں۔
سات دہائیوں سے متنازعہ ریاست سے وسائل کی لوٹ مار اور عوام کے استحصال کے وقت کسی قسم کے تنازعہ کو زیر بحث نہیں لایا جاتا لیکن جب بھی حقوق مانگے جائیں تو انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تنازعہ کی کہانی سنا دی جاتی ہے۔ دسمبر 2017ء میں ایسی ہی صورتحال کیخلاف ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کے ہزاروں افراد یخ بستہ موسم کو شکست دیتے ہوئے سڑکوں پرآئے لیکن مطالبات کی منظوری کے نام پر انکے ساتھ ایک مرتبہ پھر دھوکہ دہی سے کام لیا گیا ہے۔ 2014ء میں نو نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر احتجاج کا آغاز کیا گیا تھا۔ مطالبات میں گندم کی قیمتوں کو2009ء کی سطح پر بحال کرنے، تمام سبسڈیز کی بحالی، صحت کی سہولیات اور ادویات کی مفت فراہمی، معدنیات کی ٹرانسپورٹیشن کی اجازت اور غیر مقامی کمپنیوں کو دیئے گئے لیز کا خاتمہ، غیر قانونی تقرریوں کا خاتمہ، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور ٹیکسز کا خاتمہ شامل تھے۔ عوامی ایکشن کمیٹی اور تاجروں کی مشترکہ کمیٹیوں کی زیر قیادت چلنے والی اس تحریک کی کامیابی گندم کی قیمتوں پر سبسڈی کی بحالی کا مطالبہ منظور کیا جانا تھا جبکہ دیگر مطالبات منظور کرنیکی یقین دہانی کروائی گئی لیکن عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔ جبکہ معدنیات کے حوالے سے 2016ء میں نئی پالیسی نافذ کر دی گئی جبکہ ٹیکسوں کے حوالے سے بھی کئے گئے وعدوں پر وفاق کی جانب سے عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ اکیس دسمبر 2017ء کو ایک مرتبہ پھر ایکشن کمیٹی اور تاجروں کی کال پر دس اضلاع میں احتجاج کا آغاز کیا گیا جن میں ہزاروں افراد نے بھرپور شرکت کی اور تمام اضلاع سے گلگت شہر کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا لیکن ایک بار پھر مذاکرات اور معاہدہ جات کی بھول بھلیوں میں مظاہرین کو الجھا دیا گیا اور ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ گلگت بلتستان کونسل کی جانب سے جاری کئے جانیوالے نوٹیفکیشن کے مطابق ٹیکس اڈاپٹیشن ایکٹ 2012ء میں ترمیم کئے جانے تک گلگت بلتستان سے ٹیکسوں کی وصولی کا سلسلہ روکا جائے گا جبکہ منرل پالیسی اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی تقسیم کار کے تعین کیلئے فروری تک کی مہلت حاصل کی گئی۔ تاہم مذکورہ نوٹیفکیشن پر بھی مکمل طو رپر عمل تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے جبکہ ایکشن کمیٹی کی جانب سے احتجاج کے سلسلے کو بھی محض فروری تک موخر کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں وفاقی سطح کا ایک اجلاس بھی منعقد کیا گیا ہے جس میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے سلسلہ کو زیر بحث لایا گیا ہے اور غیر اعلانیہ طور پر فیصلہ جات کئے گئے ہیں کہ گلگت بلتستان کو ’’آزادکشمیرطرز‘‘ کا حکومتی سیٹ اپ دیا جائے گا اور این ایف سی ایوارڈ سمیت دیگر وفاقی اداروں میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کو بطور مبصر نمائندگی دی جائے گی۔ جس طرح 2009ء میں گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دیئے جانے کے اعلان اور صوبائی طرز حکومت دیئے جانے کے بعد شہریوں کے حالات زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا اسی طرح نئی مرتب کی جانیوالی حکمت عملی سے بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کے حالات زندگی میں کوئی تبدیلی کی امید لگانا دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ ’’آزادکشمیر‘‘ طرز کی حکومت میں اس خطے کے عوام کو جو حقوق اور آزادی دی گئی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی گلگت بلتستان کو دیئے جانے والے نئے آئینی حقوق کی حقیقت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ درحقیقت گلگت بلتستان کے عوام کو مسلسل یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اس حالت میں اس لئے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ انکی آئینی حیثیت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اصل مسئلے کو دبائے رکھنے کیلئے حکمران طبقات بھی اس پہلو کو ہی استعمال کرتے ہوئے آئینی حقوق اور آئینی حیثیت کے تعین کو ہی تمام مسئلوں کا حل گردانتے ہیں۔ ایسے میں پھر پشتونخواہ، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی آئینی حیثیت کے تعین کے ستر سال بعد ان چاروں صوبوں میں موجودبائیس کروڑ سے زائد انسانوں کے حالات زندگی کو تبدیل ہو جانا چاہیے تھا۔ جہاں آئینی حیثیت اور سیاسی حقوق کی فراہمی کی جدوجہد ضروری ہے وہاں اس جدوجہد کو طبقاتی جبر، محکومی، بھوک، لاعلاجی، جہالت، پسماندگی اور استحصال کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے اس نظام کے خلاف جدوجہد کو منظم کیا جانا اشد ضروری ہے کہ یہی نظام تمام تر مسائل کی جڑ ہے، جب تک اس جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے اس نظام کیخلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا جاتا تب تک سیاسی حقوق کی عدم فراہمی سمیت تمام دیگر مسائل کے خاتمے کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔ لازمی طور پر گلگت بلتستان کے عوام کا وقفے وقفے سے سیاسی میدان میں اترنے کا یہ سلسلہ انہیں مزید سیکھنے کا موقع فراہم کرے گا اور جو طوفان اب کے اٹھ رہے ہیں وہ حکمران طبقات کی حکمت عملیوں اور آئینی جعل سازیوں کو پہچانتے ہوئے حقیقی آزادی اور حسین انسانی مستقبل کی جانب اپنے سفر کو تیز تر کرنے کیلئے اپنی قیادتیں تراشنے کی طرف بھی جائیں گے۔
بھارتی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں ریاستی جبر کیخلاف مزاحمت کو کچلنے کیلئے بھارتی حکومت مزید سخت گیر اقدامات اٹھا رہی ہے جبکہ مزاحمت کا سلسلہ مکمل طور پر پسپا نہیں کیا جا سکا ہے۔ 2017ء میں طلبا کے ساتھ ساتھ طالبات کی جانب سے بھی جدوجہد اور مزاحمت کے میدان میں عملی شرکت نے بھارتی ریاست کو بوکھلاہٹ کا شکار کر رکھا ہے۔ ایک سال کے دوران چار سو کے لگ بھگ ہلاکتوں کے باوجود نئے سال کے آغاز پر بھارتی آرمی چیف کو یہ بیان جاری کرنا پڑ رہا ہے کہ ’’ کشمیریوں کی خواہشات کی تکمیل ناممکن ہے۔ سیاسی اور عسکری نوعیت کی علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کو ایک ہی زاویہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ ‘‘ کیونکہ نئے سال کا آغاز بھی مزاحمت، احتجاج، شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالوں کے ذریعے ہی کیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت بھی گومگوں کی کیفیت سے دو چار ہے اور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جہاں پنچایتی (بلدیاتی) انتخابات کے رواں سال انعقاد کا اعلان کیا ہے وہاں ممکنہ احتجاج اور بائیکاٹ کے خوف کے تحت فوجی، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے اجلاس میں اسے کہنا پڑا ہے کہ ’’قانون نافذ کرنے والے ادارے نوجوانوں کیخلاف سخت گیر کارروائیوں کا سلسلہ ترک کریں۔‘‘ دوسری جانب مزاحمت میں عملی طور پر شریک نوجوان نام نہاد قیادتوں کی غداریوں اور نظریاتی کمزوریوں سے نالاں اپنی قیادت خود تراشنے کے نتیجے پر پہنچ رہے ہیں جبکہ بھارتی ریاست نوجوانوں کی اس مزاحمت کو کسی نہ کسی طرح سے بیرونی سپانسرڈ تحریک ثابت کرنیکی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے۔ اسی سلسلے میں علی گیلانی، صلاح الدین کے صاحبزادوں، سات علیحدگی پسند لیڈروں سمیت کل بارہ افراد کیخلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ لیکن درحقیقت 2010ء میں شروع ہونیوالی سنگباز نوجوانوں کی تحریک کے تسلسل میں نوجوانوں نے نتائج اخذ کرتے ہوئے نام نہاد علیحدگی پسند یا حریت قائدین پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا اور مزاحمت کو اپنے طور پر آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کا اظہار ہمیں 2016ء میں نوجوانوں کی جانب سے نام نہاد حریت قائدین کے تمام اعلانات کو مسترد کئے جانے اور 2017ء میں طالبات کی جرأت مندانہ مزاحمت کی صورت میں دیکھنے کو ملا تھا۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی مزاحمت کے اس نئے سلسلے نے جہاں ہندوستانی ایوانوں کو جھنجھوڑ کر رکھا ہے وہاں اس پار پاکستانی حکمران بھی تاحال اس تحریک اور مزاحمت پر کسی قسم کا کنٹرول حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے شدید بے چینی کا شکار نظر آرہے ہیں۔ کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں کی آبادیوں کی جانب سے عسکریت پسندوں کو سرحد پار بھیجے جانے کے منصوبوں کیخلاف سخت مزاحمت اور احتجاج ہوئے ہیں۔ دونوں ریاستیں نام نہاد دشمنی اور جنگ کے ناٹک کو بھی مسلسل ہوا دے رہی ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر ایک مرتبہ پھر مسلسل گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ کنٹرول لائن پر جاری ہے۔ گزشتہ چار روز کے اندربیس کے لگ بھگ سول و فوجی ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ چالیس سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں اور کنٹرول لائن کے آٹھ مختلف سیکٹرز پر ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے سول آبادیوں پر مسلسل گولہ باری کی جا رہی ہے۔ پاکستانی فوج نے کشمیر کی حکومت کو ہدایت کر رکھی ہے کہ کنٹرول لائن کے قریبی پانچ کلومیٹر کے علاقہ سے آبادی کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا جائے۔ مذکورہ نقل مکانی سے دس لاکھ سے زائد آبادی کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اندرون خانہ اس منصوبہ پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ ضلع پونچھ میں اراضی کی فہرستیں مرتب کرنے میں تاخیر کرنے پر ڈپٹی کمشنر نے بیک جنبش قلم 39 پٹواریوں کو معطل کرتے ہوئے چار تحصیلداروں کے سپرد کر دیا ہے جبکہ دیگر اضلاع میں کام تیزی سے جاری ہے۔ تاہم ابھی تک میڈیاپر مذکورہ منصوبہ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے جبکہ اس منصوبے کی راہ ہموار کرنے کیلئے جنگی ماحول اس طور بنا دیا گیا ہے کہ دس لاکھ افراد کو اپنی املاک چھوڑ کر اپنے ہی وطن میں مہاجروں کے طور پر زندگیاں گزارنے پر مجبور کیا جا سکے۔
منقسم ریاست کی تینوں اکائیوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے سات دہائیوں کے اس جبر کیخلاف متعدد تحریکیں چلائیں۔ کنٹرول لائن کو پاؤں تلے روندنے جیسی مہم جوئی سے بھی گریز نہیں کیا، بندوق کا راستہ بھی اپنایا جبکہ پتھروں سے مسلح افواج کا مقابلہ بھی کیا۔ لیکن آزادی اور انقلاب کی امید لئے ہر بار ہر تحریک پسپائی اور مایوسی کا شکار ہوتی گئی۔ مسلح جدوجہد کشمیر سے سامراجی قبضے کو چھڑانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ منقسم اکائیوں میں الگ الگ تحریکیں منظم کئے جانے کا سلسلہ بھی ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ جیسے سامراجی اداروں کی قراردادیں، امریکی سامراج و دیگر سامراجی ممالک کی ثالثی سمیت تمام کرداربری طرح سے بے نقاب ہو چکے ہیں لیکن ایک راستہ آج بھی کھلا ہے، وہ انقلاب کا راستہ ہے، منقسم ریاست کی تمام اکائیوں اور پورے خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی طبقاتی بنیادوں پر جڑت کا راستہ ہے۔ جس راستے پر گامزن ہوتے ہوئے برصغیر کی تمام مظلوم قومیتوں اور محروم و محکوم طبقات کے ساتھ جڑت بنائی جا سکتی ہے۔ جس راستے پر گامزن ہوتے ہوئے اس خطے سے محرومی، محکومی اور جبر کی بنیادی کڑی‘ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کی گلی سڑی لاش کو اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔ بقول فیض:
ابھی چراغ سر راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کے وہ منزل ابھی نہیں آئی