قمرالزماں خاں
پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک سے قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں پر سرداروں،وڈیروں،تمن داروں اور 1857ء کی جنگ آزادی میں دھرتی سے غداری کرکے انگریزوں سے جاگیریں لینے والے دوسرے عوام دشمنوں کو کبھی شکست ہو سکتی ہے۔ 1947ء کے خونی بٹوارے کے بعد حاکمیت گورے انگریز سے ’بھورے انگریز‘ کے پاس آ گئی تھی۔ حاکمیت کا نظام وہی تھا جو فرنگی چھوڑ کر گیا تھا۔ اس نظام نے انگریز سامراج کے کاسہ لیسوں کو مضبوط سے مظبوط تر کیا اور تقسیم ہند کے بعد لٹے پٹے اور بدحال عوام کی حالت زار مزید زبوں حالی کا شکار ہوتی گئی۔ ایسے میں سیاسی طاقت اور دولت پر براجمان’ زمینی دیوتاؤں‘ کو کون للکار سکتا تھا؟ مگر للکارا گیا اور اسی دھرتی پر للکارا گیا۔ 68-69ء کی انقلابی تحریک نے ثابت کیا کہ دھرتی پر سب سے طاقتور عنصر محنت کش طبقہ ہی ہے۔ طبقے نے زمینوں، جاگیروں، فیکٹریوں پر قبضہ کرکے اپنا کردار ادا کر دیا تھا۔ یہ قیادت تھی جو تحریک کو اسکے منطقی انجام یعنی سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل تک پہنچانے کی بجائے اسکے بالکل برعکس سمت یعنی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی طرف لے گئی۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ ایک انقلابی قیادت کا فقدان تھا۔
تحریک میں دم خم تھا۔ محنت کش طبقہ انقلاب کرنے کی صلاحیت کے باوجود قیادت کے فقدان کی وجہ سے انقلاب نہ کرسکا۔ اسی کیفیت میں اسکے سامنے 1970ء کے الیکشن کاسراب تھا۔ یہ انتخابات جس قسم کا انقلابی تاثر اختیار کر گئے تھے اس کے پیش نظر انہوں نے انقلابی سوشلزم کی بنیاد پر روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ دینے والی پیپلز پارٹی کو بے نظیر فتح سے سرفراز کیا تھا۔ یہی لاہور تھا جہاں قومی اسمبلی کی سات کی سات نشستیں پاکستان پیپلزپارٹی نے جیتی تھیں۔ ان میں سے ایک منصورے والی نشست پر جماعت اسلامی کے امیر میاں محمد طفیل الیکشن لڑ رہے تھے جنہیں ’بابائے سوشلزم‘ کہلانے والے شیخ محمد رشید نے شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ یہ اِسی ملک میں ہوا تھا جسے آج ملائیت اور بنیاد پرستی کا گڑھ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ میاں محمد طفیل کے پاس روپے بھی تھے اور امریکی ڈالر بھی، جماعت اسلامی جیسی پارٹی بھی تھی جو اُس وقت خاصی منظم ہوا کرتی تھی اور جس نے پیپلز پارٹی کے خلاف خطیر بجٹ سے پاکستان بھر میں پراپیگنڈا شروع کیا ہوا تھا۔ اسکے علاوہ بھی بہت سا’بارود ‘ تھا۔ اس الیکشن کو جماعتیوں نے کفر اور اسلام کی جنگ قرار دے دیا تھا۔ دوسری طرف شیخ محمد رشید کے پاس الیکشن فیس جمع کرانے کے بعد الیکشن مہم چلانے کیلئے ایک روپیہ نہیں تھا۔ صرف ’سوشلزم‘ کے نظریات تھے۔ سوشلزم کیساتھ وابستگی ہی وہ طاقت تھی جس نے جماعت اسلامی کے تما م تر زہریلے پراپیگنڈے، سرمائے اور ہر دوسرے حربے کوشکست دی۔ کم و بیش یہی قصہ باقی لاہور کا بھی تھا۔
آج یہی وہ پیپلز پارٹی ہے جو پنجاب میں چند سو ووٹ لینے سے بھی قاصر نظر آتی ہے۔ ایسے میں پارٹی قیادت ’تخت لاہور‘ کو چیلنج کرنے کی باتیں کر رہی ہے۔ مدمقابل مسلم لیگ (نواز) اور ’ تحریک انصاف‘ ہے، جو ایک دوسرے سے بھی دست و گریباں ہیں۔ لیکن 1970ء اور 2018ء کے الیکشن میں ایک بنیادی فرق ہے کہ مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی طرح اب کی بار پیپلز پارٹی کے پاس بھی سرمایہ داری کا متبادل کوئی نعرہ، کوئی پروگرام نہیں ہے۔ 1970ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس عوام کی محرومی کو ختم کرنے کیلئے دولت کی منصفانہ تقسیم کا ایک عملی فارمولہ تھا جس میں ذرائع پیداوار اور دولت پر محنت کشوں کے اشتراکی قبضے کی بات کی گئی تھی۔ آج ’’بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام‘‘ کی ذلت بھری خیرات ہے جس کو’’ بھٹو کی روح‘‘ والے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ’’روٹی ،کپڑا اور مکان‘‘ کی فراہمی کا ذریعہ قراردیتے ہیں۔ انکے نظریات کے مطابق ’’بھٹوازم‘‘ یہی ہے کہ لوگ انکے گرد نعرے لگاتے پھریں مگر جب بھوک لگے تو کہیں سے بھیک مانگ کر پیٹ کا دوزخ بھرنے کی کوشش کریں۔ ایسی کیفیت میں جب پارٹی اپنے بنیادی نظریات سے غداری کرتے ہوئے سرمایہ داری کی طرف رخ کرچکی ہے تو پھرکیسے یہ توقع کرسکتی ہے کہ وہ ان پارٹیوں پر سبقت لے جائے جن کی پیدائش ہی سرمایہ دارانہ نظریات پر ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی کے نظریات کیا ہونے چاہئیں؟ یہ فیصلہ تو 1967ء میں ہو چکا تھا لیکن یہ نظریات بالخصوص 1984ء سے پارٹی قیادت کیلئے ناقابل قبول ہوچکے ہیں۔ پارٹی کو دائیں طرف موڑتے موڑتے اب ماضی کی تنظیم، حمایت اور طاقت کا شاید شائبہ بھی نہیں بچا۔ لیکن سرمایہ داری اور پیپلزپارٹی کا تعلق غیر فطری ہونے کے باعث جس پریشانی کا قیادت کو سامنا کرنا پڑا اسکا تدارک انہوں نے رنگ برنگ کی نظریاتی ٹامک ٹوئیوں سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہی ٹامک ٹوئیوں میں سے ایک ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘ بھی ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ سوشلزم اورسوشل ڈیموکریسی کی صوتی مماثلت کو ایک نئے فریب کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب تو ’ ہولو گرام‘ کے ذریعے نشر کی جانے والی تقاریر میں بلاول بھٹو برملا کہتے پائے جاتے ہیں کہ ’’پیپلز پارٹی پہلے دن سے ہی تمام طبقات کی پارٹی تھی اور اب بھی تمام طبقات کے مفادات کی محافظ ہے۔‘‘ یہ موقف حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ نہ تو پہلے دن سے پیپلز پارٹی تمام طبقات کی پارٹی تھی نہ ہی کوئی پارٹی تمام طبقات کے مفادات کی محافظ ہوسکتی ہے۔ ایسی ’ملٹی کلاس‘ پارٹیاں حکمران طبقات کے مفادات کی محافظ ہی ہوا کرتی ہیں۔ ان باتوں کی لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر 30 نومبراور یکم دسمبر 1967ء کو بننے والی پیپلز پارٹی کے تاسیسی مقاصد سے کسی قسم کی مطابقت نہیں ہے۔ تاسیسی پروگرام میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’پارٹی کے قیام کا مقصد طبقات سے پاک سماج کی تشکیل ہے جو آج کے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔‘‘
دنیا بھر میں بننے والی ہر پارٹی کا ایک طبقاتی کردار ہوتا ہے۔ وہ یا تو حکمران، استحصالی اور صاحب جائیداد طبقات کی نمائندہ ہوتی ہے یا پھر محنت کش طبقے کی۔ دونوں طبقے اگر ایک دوسرے کی ضد اور موت ہیں تو پھر کوئی پارٹی بیک وقت دو متحارب طبقات کی نمائندہ کیسے ہوسکتی ہے؟ ماضی میں اِس کوشش کا کیا نتیجہ نکلا تھا؟ ’’ملٹی کلاس پارٹی‘‘ والوں کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی گھاٹ سے چند قدم کے فاصلے پر اپنی کوٹھڑی میں بیٹھ کر ایک تحریر لکھی تھی جو بعد میں ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں چھپی۔ اس کتاب میں بھٹو لکھتے ہیں کہ ’’میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کوجوڑنے کیلئے دو متضاد طبقات کے مابین ایک آبرومندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس فوجی بغاوت کا سبق ہے کہ متضاد مفاد ات کے حامل طبقات کے مابین کسی قسم کی مفاہمت ایک یوٹوپیائی خواب ہے… ایک طبقاتی جنگ ناگزیر ہے جس میں ایک طبقہ برباد اور دوسرا فتح یاب ہوگا۔ ‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی بنانے والی قیادت نے برملا طور پر اس پارٹی کو محنت کش اور غریب طبقات کی پارٹی قرار دیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ جلد ہی ایک تحریک کے زیر اثر ملک کے مغربی حصے کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی۔ اب جب یہ’ تمام طبقات‘ کی پارٹی بن چکی ہے تو پاکستان کی چھوٹی پارٹیوں کی لسٹ میں بھی تیزی سے نیچے کی طرف جا رہی ہے۔
جب کوئی پارٹی انقلابی سیاست کی بجائے عام انتخابی سیاست کر رہی ہو تو پھر انتخابی نتائج ہی اسکی مقبولیت کا پیمانہ ہوتے ہیں۔ 2008-13ء کے عرصہ میں بدترین حکمرانی کی اور اسکے نتیجے میں عبرت ناک انتخابی شکست ہوئی۔ پچھلے کچھ عرصے میں ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئی ہیں اور نتائج کی فہرست پر انکا نمبر نیچے سے ذرا ہی اوپر والے درجوں پر رہا ہے۔ لیکن جلسوں اور میڈیا میں پارٹی قیادت جس قسم کی گفتگو اور دعوے کرتی پائی جاتی ہے وہ یا تو دانستہ طور پر مذاق ہے یا پھر یہ حضرات زمینی حقائق جاننے کا وصف ہی کھو بیٹھے ہیں۔ ویسے آج کل انہیں ’’مقتدر حلقوں‘‘ سے بھی بہت امیدیں ہیں۔ لیکن اِن حالات میں آصف زرداری کی جانب سے پنجاب اور پورے ملک میں حکومت بنانے کی باتیں موصوف کی ذہنی حالت کے بارے میں ہونے والی چہ میگوئیوں کودرست ثابت کرتی ہیں۔
پارٹی کی رکنیت سازی کی موجودہ مہم میں بھی معاشی اورسیاسی پروگرام پر بات نہیں کی جاتی بلکہ سندھ میں تعمیر کئے گئے چند ہسپتالوں کو دنیا کے سات عجوبوں کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ اقتدارکے سنگھاسن پر کئی مرتبہ براجمان رہنے والوں نے علاج معالجے جیسے بنیادی حق کو بھی کیسے ایک مراعت بنادیا ہے! اپنے بنیادی نظریات سے عاری پیپلز پارٹی عجب قسم کی نظریاتی دوعملی کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ سندھ میں تمام بنیادی ہیلتھ سنٹرز کو نجی تحویل میں دے کر غریب لوگوں سے مفت ڈسپرین کا حق بھی چھین رہی ہے اور دوسری طرف پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کر رہی ہے۔ اپنی پچھلی حکومتوں میں پارٹی نے نہ صرف نجکاری کی وزارت قائم رکھی بلکہ قومی اداروں کی نجکاری کی متعدد کوششیں کیں۔ تاہم خریداروں کی عدم موجودگی اور محنت کشوں کی مزاحمت نے ایسی ہر کاوش کوناکام بنا دیا۔
نظریاتی انحراف کے نتیجے میں پارٹی کا تنظیمی زوال بھی مسلسل بڑھا ہے۔ چاروں صوبوں بشمول جنوبی پنجاب کی قیادتیں پارٹی تنظیموں کو ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا سکیں۔ حالیہ ’’رکنیت سازی‘‘ کا مقصد بھی اس سال کے وسط میں متوقع عام انتخابات کیلئے ’بچے کھچے کارکنان‘ کو متحرک کرنا ہے تاکہ پھر ان بھٹی کا بالن بننے والوں کوطبقہ امرا اور ’الیکٹ ایبلز‘ کے الاؤ میں ڈالا جا سکے۔ پچھلی دودہائیوں سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی پربراجمان قیادتیں شعوری طور پر بغیر منظم پارٹی اور ڈھانچوں کے سیاست کرنا چاہ رہی ہیں۔ بالکل پارٹی تنظیم کے بغیر بھی گزارا نہیں ہے اس لئے جس قسم کے ضروری ڈھانچے مطلوب ہیں وہاں پر نامزد مخصوص قسم کے’’ کلونڈ‘‘ اشخاص کو ’عہدیدار‘ بنا یا جاتا ہے۔ یہ سب غیر جمہوری طریقے سے ہو رہا ہے حالانکہ اس کے لئے ’’پارٹی الیکشن ‘‘ کا باقاعدہ ڈھونگ رچایاجاتا ہے۔ ایک صحت مند جمہوری بحث مباحثے اور آزادانہ سیاسی ماحول کو پروان چڑھانے کے راستے بندکردئیے گئے ہیں۔ عہد یداری کیلئے کسی کارپوریٹ کمپنی کے ملازمین کی تقرری جیسا طریقہ کاروضع کیا گیا ہے۔ نظریات کے بغیر سیاسی کارکنان کا کردار عصمت فروشی جیسا ہی ہوتا ہے۔
پارٹی قیادت کی جانب سے بھٹو کے انقلابی آدرشوں کی بجائے اس کی غلطیوں کو ہی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہمہ قسم کی مسلم لیگوں، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت بلاول کے بزرگوں اور ’سیاسی ٹیوٹرز‘ کے سیاسی نظریات اور طبقاتی عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لیکن تاریخ جس سرمایہ داری نظام کو مسترد کرچکی ہے اس پر پاکستان کی تمام مروجہ سیاست کے انحصاراور اعتقاد کامطلب ہے کہ حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں اور پارٹیوں کے پاس محرومی میں غرق عوام کو مصیبتوں سے نکالنے کا کوئی حل نہیں ہے۔ ’ سوشل ڈیموکریسی‘ کا ماڈل بھی قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ آج اِس نظام میں اصلاحات اور ’’کچھ لینے کچھ دینے‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یورپ میں بھی سوشل ڈیموکریسی نے محنت کشوں پر بدترین معاشی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی داخلی تقاریب کیک کاٹنے اور فاتحہ خوانی تک محدود ہو چکی ہیں۔ ان میں سیاسی بحث کے امکانات بتدریج کم ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کی بجائے روحانی پیروکاروں کی تشکیل کے کم ازکم ایک دہائی پر مشتمل شعوری طریقہ کارکے نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ سیاسی ملنگ ’ایک زرداری سب پر بھاری‘ جیسے مضحکہ خیز اور بھونڈے نعرے لگا کر زرداری کی سازشوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ ساز باز پر اتراتے پھرتے ہیں۔ ایسی حالت میں بیشترپرانے کارکنان غیر فعال ہوکر خود کوپارٹی سے الگ کر چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ساری زندگی جس وڈیرہ شاہی اوربالادست طبقات کے خلاف جدوجہد کرتے رہے موجودعہد میں وہی رسوائے زمانہ کردار پارٹی کے بالائی اور نچلے ڈھانچوں میں سیاہ وسفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔
ایسے میں امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں کہ پارٹی خود کو محنت کش طبقے کی کسی تحریک کیساتھ ہم آہنگ کر پائے۔ سنجیدہ نظریاتی و سیاسی کام کی گنجائش بہت ہی کم رہ گئی ہے اور بہت سی جگہوں پر تو بالکل ہی ختم ہوگئی ہے۔ پارٹی اسٹیج اور ایسے’ادارے‘ جہاں پر بات کرنا ممکن تھا وہاں صرف مخصوص قسم کے سیاسی شعبدہ بازوں کی رسائی ممکن ہے یا پھر مقامی وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ملازمین بن جانے والے ماضی کے سیاسی کارکنان کو ’قیادت کے نصاب‘ کے مطابق بات کرنے کی اجازت ہے۔ انجمن ستائش باہمی جیسا ماحول بنا کر تازہ ہوا کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ بظاہر نہیں لگتا کہ پارٹی کے پالیسی ساز اگلے الیکشن کی بدترین شکست کے بعد بھی ’ہوش وہواس‘ میں آسکیں۔
پارٹی کی نجات آج بھی اسکے بنیادی تاسیسی منشورمیں دیئے گئے پروگرام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی قیادت اس اہل ہے کہ وہ خوابوں کی دنیا سے نکل کرجائزہ لے سکے کہ پارٹی کا عروج کن نظریات کے باعث تھا ؟ اور اب کن نظریات کو اپنانے پر پارٹی گراوٹ کی انتہاؤں پر کھڑی ہے ؟ لیکن ’بلاول ہاؤس‘ نامی قلعوں میں بیٹھی پارٹی قیادت کیسے یہ جان سکے گی ؟ قیادت کو خوش رکھ کر نامزدہونے والے عہدیداروں اور کمیٹیوں کے اراکین سے ایسی توقع رکھنا حماقت ہے۔
سماج کا ایک بڑا حصہ موجودہ جمہوری نظام سے خود کو لاتعلق کرچکا ہے۔ ووٹنگ کی شرح بتاتی ہے کہ ساٹھ فیصد یا اس سے بھی زیادہ لوگ ایک جیسی پارٹیوں، ایک جیسے نظریات اور ایک ہی طرح کے الیکشن منشور کی بنا پر ووٹ نہ ڈالنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ محنت کش طبقہ نجات چاہتا ہے۔ موجودہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ سرمایہ داری گل سڑچکی ہے۔ سماج کو انقلابی آدرشوں کی ضروت ہے۔ عوام کی بجائے عالمی اور مقامی مقدر حلقوں کوطاقت کے نئے ’سرچشمے‘ سمجھ لینے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا زوال تیز تر ہے۔ فی الوقت سیاست کے میدان میں محنت کش طبقے کی امنگوں کا کوئی واضح اظہار موجود نہیں ہے۔ ایسے میں محنت کشوں اور نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ جس اضطراب کا شکار ہے اس کے پیش نظر ان تک رسائی حاصل کرنا اور انہیں توجہ کا مرکز بنا نا انقلابیوں کے لئے لازم ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں معروضی مشکلات کے باوجود سماج میں وسیع میدان موجودہیں۔ انقلابیوں کو اپنے نظریات پر اعتماد رکھتے ہوئے محنت کش طبقے کی ان پرتوں تک پہنچنا ہوگا جواس استحصالی نظام کے خاتمے کی تمنا دل میں لیے ایسے نظریات اور انقلابی لائحہ عمل کی منتظر ہیں جو ان کی طبقاتی طاقت کو انقلاب کے عمل میں منظم اور متحرک کر سکے۔