لال خان
کیوبا میں 1959ء کے انقلاب کے بعد فیڈل کاسترو 2006ء تک ملک کے صدر رہے۔ جس کے بعد اُن کی علالت کے پیش نظر اُن کے چھوٹے بھائی راؤل کاسترو نے منصب صدارت سنبھال لیا۔ اب بدھ کو کیوبا کی قومی اسمبلی نے 57 سالہ ’دیاز کینل‘ کو نیا صدر منتخب کیا ہے۔ تاہم ریاستی معاملات میں راؤل کاسترو کا اثر و رسوخ قائم رہے گا۔ ولا کلارا صوبے سے تعلق رکھنے والے دیاز‘ کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار سمجھے جاتے ہیں اور ایک محنتی اور عوام دوست ٹیکنوکریٹ کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں جن کی طویل سیاسی جدوجہد رہی ہے۔ 2013ء میں نائب صدر بننے سے پہلے وہ اعلیٰ تعلیم کے وزیر رہے۔ وہ اپریل 1960ء میں فیڈل کاسترو کے صدر بننے کے ایک سال بعد پیدا ہوئے۔ الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور بیس سال کی عمر میں ہی سانتا کلارا میں ’ینگ کمیونسٹ لیگ‘ کا رکن بن کر سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز انہوں نے شہر کی ایک انجینئرنگ یونیورسٹی میں بطور استاد کیا۔ 33 سال کی عمر میں وہ ینگ کمیونسٹ لیگ کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ راؤل کاسترو نے دیاز کی ’نظریاتی پختگی‘ کی خوب تعریف بھی کی ہے۔
تمام تر معاشی پابندیوں اور سامراجی دھونس کے باوجود کیوبا میں آج بھی منصوبہ بند معیشت رائج ہے جس میں قومی ملکیت میں موجود صنعتیں غالب ہیں۔ زیادہ تر روزگار بھی ریاست فراہم کرتی ہے۔ تاہم سوویت یونین کے انہدام کے بعد کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی نے ’ورکر کوآپریٹوز‘ کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اسی طرح خودروزگاری (سیلف ایمپلائمنٹ) کی ترغیب بھی دی گئی۔ 2006ء میں راؤل کاسترو کے صدر بننے کے بعد معیشت کے بعض حصوں کو نجی شعبے کے لیے کھولنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن سرمایہ داروں کا غلبہ اور معاشی ناہمواری کی لعنت بڑھنے کی وجہ سے اس عمل کو روک دیا گیا اور ان ’اصلاحات‘ کو واپس لینا پڑا۔ کمیونسٹ پارٹی کا ’سوشل ڈیموکریٹک‘ دھڑا راؤل کاسترو کو چینی و ویتنامی ماڈل اپنانے پر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے جس میں حکومت تو ایک پارٹی کی حکومت ہوگی لیکن معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری اور نجی شعبے کے لیے کھولا جائے گا۔
نوے کی دہائی میں جب کیوبا کی معاشی امداد کے اہم ذریعے سوویت یونین کا انہدام ہوا اور کیوبا کو بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑا تو معیشت کے کچھ حصوں میں نجی مداخلت کی اجازت دی گئی تھی۔ 1990ء سے 1993ء کے درمیان کیوبا کا جی ڈی پی 33فیصد گرا۔ سال 2000ء میں ریاستی شعبہ 76 فیصد اورنجی شعبہ 23 فیصد (جو زیادہ تر خود روزگاری پر مشتمل تھا) روزگار فراہم کر رہا تھا جبکہ 1981ء میں یہ تناسب بالترتیب 91 فیصد اور 8 فیصد تھا۔ تاہم اب بھی بیرونی سرمایہ کاری خاصی محدود ہے اور حکومت کی اجازت کی مرہونِ منت ہے۔ زیادہ تر قیمتوں کا تعین بھی حکومت کرتی ہے اور اجناس کی راشن بندی کی جاتی ہے۔ رہائش اور ٹرانسپورٹ کی قیمتیں انتہائی کم ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیا کا بہترین علاج بھی بالکل مفت میسر ہے۔ کیوبا میں اٹلی کے بعد ڈاکٹروں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ غذائی قلت ناپید ہے۔
1959ء کے انقلاب کے بعد سامراجی لوٹ مار کا خاتمہ کیا گیا اور ملکی وسائل کو عوامی فلاح پر صرف کرنے کا آغاز ہوا۔ نتیجتاً امریکی سامراج نے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں جو آج تک قائم ہیں۔ انقلاب سے پہلے کیوبا ایک انتہائی پسماندہ زرعی ملک تھا جس کی معیشت گنے کی فصل پر منحصر تھی۔ امریکی سامراج کا کٹھ پتلی اور جابر حکمران بیٹسٹا اقتدار پر قابض تھا۔ بیروزگاری، غربت اور ناخواندگی بے انتہا تھی۔ بیت لحم سٹیل اور سپیئر جیسی امریکی اجارہ داریاں ملکی مالیات، بجلی کے شعبے اور زیادہ تر صنعتوں پر قابض تھیں۔ بہترین زمینوں کا 25 فیصد بھی ایسی ہی اجارہ داریوں کے قبضے میں تھا۔ تمباکو کے علاوہ خام چینی کا 90 فیصد امریکہ کو برآمد کیا جاتا تھا۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف کامرس کی رپورٹ کے مطابق 1956ء میں امریکی کمپنیاں ’’90 فیصد ٹیلی فون اور بجلی، 50 فیصد ریلوے اور 40 فیصد خام چینی کی پیداوار پر قابض تھیں۔‘‘ شہروں اور دیہاتوں کے بڑے حصے بجلی سے محروم تھے۔ صرف 15 فیصد دیہی گھروں کو نکاسی آب کی سہولت میسر تھی۔ دیہی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ دارالحکومت (ہوانا) کی طرف ہجرت کرتے تھے۔
آج کیوبا میں شرح خواندگی تقریباً سو فیصد جبکہ اوسط عمر امریکہ سے زیادہ ہے۔ یہ سب انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی حاصلات ہیں۔ لیکن نئے صدر کی حیثیت سے دیاز کو سخت چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ اگرچہ وہ منصوبہ بند معیشت کو برقرار رکھنے کے حامی معلوم ہوتے ہیں لیکن بحران کی موجودہ کیفیت میں یہ بہت مشکل کام ہوگا۔
کیوبا کے ہر طرف سے سرمایہ داری میں گھرے ہونے کے پیش نظر یہاں ’مکمل سوشلزم‘ کا تصور فی الوقت بالکل بچگانہ ہے۔ ایک سائنسی نظرئیے کے طور پر مارکسزم ’ایک ملک میں سوشلزم‘ کے تصور کو بالکل مسترد کرتا ہے۔ بالخصوص وہ بھی ایک صنعتی طور پر پسماندہ ملک میں۔ ریاست کا افسرشاہانہ کردار اور انقلابِ کیوبا کی تنہائی ایک صحت مند اور ترقی یافتہ سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ معاشی منصوبہ بندی پر افسر شاہانہ جکڑ سے انتشار اور بدنظمی جنم لیتی ہے۔ محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول اور فیصلہ سازی کی عدم موجودگی میں معیشت کا دم رفتہ رفتہ گھٹنے لگتا ہے۔
آج کیوبا کا انقلاب دوراہے پر کھڑا ہے۔ انقلاب کی قیادت کرنے والی نسل اب سیاسی منظر نامے سے ہٹ رہی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے 27 سالوں میں اس نے اپنے ’غیرسرمایہ دارانہ‘ سفر کو جاری رکھا ہے۔ سامراجیت اور نیولبرل آرڈر کیخلاف ونیزویلا، بولیویا اور ایکواڈور میں ابھرنے والی بائیں بازو کی حکومتوں کے ساتھ تعلقات استوار کئے۔ ونیزویلا میں ہوگو شاویز کی قیادت میں ’بولیوارین انقلاب‘ کی پیش رفت میں کیوبا کی معاونت کا اہم کردار تھا۔ لیکن آج اصلاح پسندانہ روش کی وجہ سے یہ بائیں بازو کی تحریکیں اور حکومتیں زوال پذیری کا شکار ہیں۔ ونیزویلا اور کسی حد تک بولیویا کو بھی سخت بحرانات اور سامراجی یلغار کا سامنا ہے۔ایسے میں ایک بار پھر انقلابِ کیوبا کی تنہائی بڑھ رہی ہے۔اس سے صدر دیاز کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ کیوبا میں منڈی کی معیشت اور سماجی تعلقات کی جزوی بحالی بھی نئی نسل میں بداعتمادی اور منصوبہ بند معیشت میں کمزوری پیدا کرے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کو دوبارہ سخت کرنا درحقیقت کیوبا کی قیادت کو ’مصالحت‘ پر راضی کرنے اور سرمایہ داری کی طرف لانے کی ایک کوشش ہے۔ لیکن تمام تر مشکلات اور افسر شاہانہ بگاڑ کے باوجو د کیوبا کے انقلاب نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک چھوٹے سے پسماندہ جزیرے میں بھی منصوبہ بند معیشت بے انتہا سماجی ترقی دے سکتی ہیں اور عوام کو بہترین معیار کی بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ کیوبا کا نظام صحت انتہائی محدود وسائل کے باوجود دنیا میں بہترین تصور کیا جاتا ہے اور ان امکانات کو واضح کرتا ہے جو منڈی اور منافع سے پاک معیشت نسل انسان کے لئے کھول سکتی ہے۔ کیوبا کے محنت کشوں کو دنیا بھر میں بربادیاں پھیلانے والے سرمایہ دارانہ نظام کے متبادل کے طور پر اپنی منصوبہ بند معیشت کا دفاع کرنا ہو گا۔ اس میں موجود خامیوں کو دور کر کے زیادہ سے زیادہ جمہوری بنانے کی جدوجہد کرنا ہو گی۔ سرمایہ داری کی بحالی کی ہر کوشش کو ناکام بنانا ہوگا جب تک کہ لاطینی امریکہ اور دنیا بھر میں انقلابی تحریکیں اپنی سوشلسٹ منزل سے ہمکنار ہو کر انقلابِ کیوبا کو کمک نہ فراہم کر دیں۔