حارث قدیر

وفاق میں اقتدار کے مسند پر براجمان پاکستان مسلم لیگ نواز نے اقتدار ختم ہونے سے چند ہی روز قبل پاکستان کے زیر انتظام سابق شاہی ریاست جموں کشمیر کے دو منقسم حصوں گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آئینی اصلاحات اور اختیارات مقامی اسمبلی کو منتقل کرنے کیلئے دو الگ الگ ڈرافٹ تیار کر کے انہیں منظور کیا ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں انضمام کے بعد مذکورہ آئینی و مالیاتی حقوق مقامی اسمبلیوں کو منتقل کئے جانے کو اہم کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں ’’جی بی آرڈر2018ء‘‘ کو کالعدم قرار دینے کیلئے اپوزیشن جماعتوں، تاجران، عوامی ایکشن کمیٹی اور وکلا کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جبکہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں انتیس مئی کو عبوری آئین ایکٹ 74ء میں ترمیم کیلئے جوائنٹ سیشن میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے مذکورہ ترامیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم قوم پرست قیادتوں سمیت اپوزیشن جماعتوں نے کسی قسم کے احتجاج کا تاحال فیصلہ نہیں کیا ہے۔

گلگت بلتستان میں نئے آرڈر کے خاتمے تک احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ستائیس مئی کووزیراعظم پاکستان کے گلگت بلتستان اسمبلی میں خطاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ جوتے دکھا کر وزیراعظم کا استقبال کیا گیا جبکہ حکومتی اراکین اور اپوزیشن اراکین کے مابین اسمبلی سیشن کے دوران ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کو صدارتی احکامات کے ذریعے چلانے کی بجائے یا تو پاکستان کا مکمل حصہ تسلیم کرتے ہوئے صوبہ بنایا جائے یا پھر بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی طرز پر آئینی و مالیاتی اختیارات دیئے جائیں۔ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی طرز پر آئینی و قانونی اختیارات دیئے جائیں۔قبل ازیں چھبیس مئی کو گلگت بلتستان کے دس میں سے نو اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں اور شیلنگ میں متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ 22 مئی کو گلگت بلتستان حکومت نے 2009ء سے نافذ جی بی امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورنینس آڈر منسوخ کرکے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان آڈر 2018ء کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدر پاکستان ممنون حسین نے وزیراعظم سے مشاورت کے بعد نئے جی بی آرڈر کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔

1947ء میں برصغیر کی سامراجی تقسیم کے بعد ریاست جموں کشمیر میں پہلے پہل چار اکتوبر 1947ء کو ایک باغی حکومت کے قیام کا اعلان راولپنڈی میں کیا گیا لیکن بعد ازاں مقامی بغاوت اور قبائلی یلغار کے نتیجے میں قبضے میں لئے گئے قطعہ اراضی پر ہنگامی حکومت کے نام سے حکومت قائم کی گئی جس کا اعلان آزادی روزنامہ پاکستان ٹائمز لاہور میں مورخہ27اکتوبر1947ء کو شائع ہوا۔ اعلان آزادی میں لکھا گیا ہے کہ:

’’ہنگامی حکومت، جسے عوام نے کچھ ہفتے قبل ناقابل برداشت ڈوگرہ مظالم کے خاتمے اور عوامی اقتدار کے حصول کیلئے بنایا تھا، نے اب ریاست کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور بقیہ حصے کو ڈوگرہ ظلم و تسلط سے آزاد کروانے کی امید کئے ہوئے ہے۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تشکیل نو عمل میں لائی گئی ہے اور دفاتر کو پلندری منتقل کر کے مسٹر ابراہیم بیرسٹر کو حکومت کا عارضی صدر مقرر کیا گیا ہے… نئی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کی مستند آواز کی ترجمان ہے کہ عوام کو ظالم اور غاصب ڈوگرہ خاندان سے نجات دلائی جا سکے۔ آزادی کی تحریک جس نے اس عبوری حکومت کو جنم دیا 1919ء سے جاری ہے۔ اس تحریک میں جموں کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے جیلیں کاٹیں، جانوں کی قربانی دی۔ بہرحال عوام کی مستند آواز کی جیت ہوئی ہے اور حکمران کی مسلح فوج ہار گئی ہے… حکمران اپنے وزیر اعظم کے ساتھ کشمیر سے بھاگ چلا ہے اور شاید عنقریب جموں سے بھی بھاگ نکلے گا۔ عارضی حکومت جو ریاست کا نظام اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت نہیں ہے۔ اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شریک ہونگے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے کہ عوام اپنی رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اور نمائندہ حکومت چن لیں… ہمسایہ مملکت ہائے پاکستان اور ہندوستان کے لئے بہترین جذبات، دوستی اور خیر سگالی رکھتی ہے۔ امید کرتی ہے کہ دو مملکتیں کشمیری عوام کی فطری آرزو آزادی کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں گی۔ عارضی حکومت ریاست کی جغرافیائی سالمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی متمنی ہے… پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے عوام کی آزادانہ رائے شماری سے کیا جائے گا۔ غیر ملکی مبصرین کو دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ عوام کی آزادانہ رائے سے یہ مسئلہ بخیر و خوبی طے ہو گیا ہے۔‘‘

بعد ازاں یکم نومبر 1947ء کو گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کا خاتمہ ایک بغاوت کی صورت میں کیا گیااور بغاوت کرنیوالے ناردرن سکاؤٹس کے اہلکاران، افسران و مقامی قائدین نے ابتدائی طور پر 24 اکتوبر کو ریاست کے ایک حصے پر قائم ہونیوالی حکومت کیساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ لیکن ساتھ ہی ایک وفد کو پشاورروانہ کیا گیا اورپاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے(NWFP) سے آزاد ہونیوالے علاقوں کی حفاظت کی درخواست کی گئی جس کے بعد سردار عالم خان کو پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر بھیجا گیا اور ایف سی آر (فرنٹیر کرائمز ریگولیشن ) کا نفاذ کیا گیا اور ایک سال بعد بلتستان (سکردو اور دیگر نئے آزاد ہونے والے علاقوں ) کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔دو سال کے لگ بھگ یہ علاقے غیر اعلانیہ طور پر پاکستان کے ساتھ رہے جبکہ اعلانیہ طو رپر ’’آزاد حکومت‘‘ کے تابع رہے۔ حکومت پاکستان نے اس انتظام کو دوام دینے کیلئے اٹھائیس اپریل 1949ء کو ’’آزاد حکومت‘‘ سے ایک معاہدہ کیا جسے معاہدہ کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مذکورہ معاہدے پر پاکستان کے وزیر بے محکمہ (انچارج وزارت امور کشمیر) مشتاق گورنامی، صدر ’’آزاد حکومت‘‘ بیرسٹر ابراہیم خان، صدر مسلم نفرنس چوہدری غلام عباس کے دستخط موجود ہیں لیکن بعد ازاں بیرسٹر محمد ابراہیم خان نے کئی مواقع پر تقاریر کے دوران مذکورہ معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار بھی کیا ہے۔ مذکورہ معاہدہ قریب 41 سال تک سرکاری طور پر عیاں نہیں کیا گیا نہ ہی دونوں خطوں میں بسنے والے عوام کو اس معاہدے سے متعلق کوئی اطلاع دی گئی۔ معاہدہ کراچی کی رو سے دفاع، خارجہ امور، مسئلہ کشمیر کی تشہیر، اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر بارے مذاکرات، مہاجرین جموں کشمیر کی بحالی و آبادکاری، استصواب رائے کیلئے تعاون اور اسکی تیاریوں اور کشمیر سے متعلق تمام سرگرمیوں کا ذمہ حکومت پاکستان نے اپنے پاس رکھا۔ جبکہ گلگت بلتستان کا کنٹرول بھی عارضی بنیادوں پر حکومت پاکستان نے اپنے پاس رکھا اور وجہ لکھی گئی کہ ’’آزاد حکومت‘‘ اس خطے کا انتظام سنبھالنے کی اہل نہیں ہے۔ مذکورہ معاہدے کے تحت ’’آزاد حکومت‘‘ کو اپنے زیر انتظام خطے میں پالیسی سازی، انتظامی امور چلانے، معاشی ذرائع کو ترقی دینے اور وزارت امور کشمیر کو مسئلہ کشمیر بارے مشورے دینے جیسے اختیارات تفویض کئے گئے۔ مذکورہ معاہدے کی بابت گلگت بلتستان کے عوام کو بھی نہ تو اطلاع دی گئی اور نہ ہی عوامی سطح پر کوئی ریفرنڈم کروایا گیا۔

گلگت بلتستان میں ایف سی آر کا نفاذ1971ء تک جاری رہا۔ اس دوران ایوب خان نے 1960ء میں بی ڈی نظام کے تحت انتخابات کروائے جبکہ 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے ایف سی آر کو ختم کیا۔ صرف پولیٹیکل ایجنٹ کو باقی رکھا۔ 1975ء میں بھٹو نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل قائم کی جس میں آٹھ ممبران گلگت بلتستان سے تھے اور آٹھ وفاق کی جانب سے مقرر کردہ لوگ تھے۔بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ضیاالحق کا مارشل لا آیا تو نادرن ایریاز کو E زون قرار دیا اور پھر 1981ء میں پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کا نفاذ نادرن ایریاز تک کر دیا۔ اس کے بعد 1994 ء میں بے نظیر نے پہلی مرتبہ گورنینس آرڈر دیا جس کے مطابق عدالتی اصلاحات اور دیگر تبدیلیاں ممکن ہو سکیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلہ کی روشنی میں بے نظیر حکومت نے گلگت بلتستان کے نظام میں مزید ترامیم کیں جن کا نفاذ بعد ازاں مشرف دور میں کیا گیااورقانون ساز کونسل کیلئے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے ساتھ اسپیکر کا عہدہ متعارف کروایا ۔ کونسل کو 47 مقامی سبجیکٹس میں قانون سازی کے اختیارات دئے۔ یہ تمام میونسپلٹی طرز کے تھے۔ 2005ء میں کورٹ آف اپیل کو سپریم اپیلٹ کورٹ کا نام دیا گیا جو تین ججوں پر مشتمل عدالت ہے۔ 2007ء میں کچھ اوراصلاحات لائی گئیں۔ دو سال کے مختصر عرصہ بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر2009ء میں نافذ کیا اور اب گلگت بلتستان آرڈر2018ء کا نفاذ عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کونسل کو ختم کرتے ہوئے اختیارات وزیراعظم پاکستان اور مقامی حکمران اشرافیہ میں تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ تاہم حتمی اختیارات و اقتدار کا منبع پھر حکومت پاکستان ہی رہے گی۔

مذکورہ اصلاحات پاک چین اقتصادی راہداری کو تقویت پہنچانے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو اس خطے کے وسائل تک رسائی دینے کی غرض سے ہی کی جا رہی ہیں جبکہ عوام محنت کش عوام کی زندگیوں پر انکے کچھ مثبت اثرات پڑتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کے دوبارہ نفاذ، سٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمے اور اختیارات کو وزیراعظم پاکستان کے پاس منتقل کرنے کے پیچھے سوست ڈرائی پورٹ پرٹریڈ کے لائسنس کا پاکستانی شہریوں کیلئے حصول آسان بنانے اور پانچ سالہ ٹیکس چھوٹ کے ذریعے سرمایہ کاروں کو گلگت بلتستان کی جانب راغب کرتے ہوئے خطے کے وسائل کے استحصال جیسے مقاصد پوشیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی کیلئے حتمی اختیار وزیراعظم پاکستان کے پاس ہی محفوظ رکھا گیا ہے جبکہ شہریوں پر مزید قدغنیں اور پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس قانون کا اطلاق گلگت کے شہریوں پر ہوگا چاہے وہ گلگت میں ہوں یا کسی اور شہر اور صوبے میں ہوں یا بیرون ملک ہی کیوں نہ ہوں۔ فوج، پولیس اور ایجنسیوں پر اس آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہو گا۔ مخصوص قوانین کے تحت گرفتار کئے گئے افراد کو قانونی معاونت کا حق بھی حاصل نہیں ہوگا۔ پاکستان یا پاکستان کے کسی حصے کی سالمیت، تحفظ اور دفاع، پاکستان کے خارجہ امور، امن عامہ اور رسل و رسائل کے امور سے متعلقہ معاملات میں گرفتار کئے گئے افراد کو تین ماہ تک مسلسل حبس بے جا میں رکھا جا سکے گا جس میں مزید توسیع بھی ہو سکے گی۔ گرفتاریوں کو پوشیدہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ غیر معینہ مدت تک غائب کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ ملک دشمن قرار دیئے گئے افراد کو کوئی قانونی تحفظ نہیں حاصل ہوگا۔ نقل و حرکت کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور تنظیم سازی کی آزادی صرف ان لوگوں کو حاصل ہو گی جنہیں ریاست یہ اجازت دے گی۔ نظریہ پاکستان کے خلاف کوئی سیاسی جماعت بنانے یا سیاسی سرگرمی کرنے پر پابندی ہو گی۔ گلگت بلتستان کی حکومت پاکستان کے وزیراعظم کی ہدایات کی پابند ہو گی۔ گلگت بلتستان کی اسمبلی میں خارجہ امور، دفاع، اندرونی سیکورٹی کے معاملات اور ججوں کے فیصلوں پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ قانون سازی کے تمام اختیارات پاکستان کے وزیراعظم کو حاصل ہوں گے اور اگر اسمبلی کوئی ایسا قانون بناتی ہے جس پر پاکستان کا وزیراعظم خوش نہیں تو اسمبلی کے قانون کے مقابلے میں پاکستانی وزیراعظم کا فیصلہ قانونی حیثیت کا حامل ہو گا اور گلگت بلتستان اسمبلی کا قانون کالعدم قرار پائے گا۔ وزیراعظم پاکستان ایمرجنسی کا نفاذ کسی بھی بنیاد پر کر سکتا ہے اوروزیراعظم کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ تھرڈ شیڈول میں باسٹھ شعبوں کا ذکر ہے جن پر قانون سازی کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو ہوگا۔ گلگت بلتستان اسمبلی جن شعبوں پر قانون سازی کر سکے گی ان پر قانون سازی کیلئے وزیراعظم پاکستان سے اجازت لینی ہوگی۔

موجودہ وقت گلگت بلتستان پاکستان بھر میں سب سے کم فی کس آمدن یعنی 350 ڈالر سالانہ کا حامل خطہ ہے جبکہ پاکستان ڈویلپمنٹ فورم انڈیکس کے مطابق پاکستان کی اوسط سالانہ فی کس آمدن 1046 ڈالر ظاہر کی گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں شرح خواندگی صرف 38 فیصد ہے جبکہ پاکستان کی اوسط سالانہ شرح خواندگی 56 فیصد ظاہر کی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کے دس اضلاع کے 209 دیہاتوں میں 208 سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جو انتہائی بوسیدہ ہیں اور وسیع آبادی کی پہنچ سے بہت دور ہیں، جبکہ کل 120 نجی تعلیمی ادارے اس خطے میں قائم ہیں۔ مقامی سطح پر روزگار کے ذرائع سرے سے ناپید ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے شہری پاکستان کے مختلف شہروں اوربیرون ممالک روزگار کیلئے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور 48 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ صحت کی سہولیات بھی انتہائی مخدوش ہیں۔ 4100 افراد پر ایک ڈاکٹر تعینات ہے اور صرف دوران زچگی اموات کی شرح ایک لاکھ میں 600 ظاہر کی جا رہی ہے جو کہ سرکاری طور پر فراہم کردہ اعداد و شمار ہیں۔ حقیقت اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ 42 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت، نوادرات، قدری جڑی بوٹیوں، دھاتوں، قیمتی پتھروں، دریاؤں، دلکش پہاڑی سلسلوں اور سیاحتی مراکز کے حامل اس خطے کے باسیوں کیلئے زندگی عملی طور پر ایک اذیت بنا دی گئی ہے۔ جمہوری آزادیوں اور سیاسی کی صورتحال یہ ہے کہ عوامی حقوق پر بات کرنیکی پاداش میں کئی سیاسی کارکنوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور انکی رہائی کیلئے کسی قسم کے اقدامات کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں بیرونی حکم ناموں کے ذریعے آئینی، سیاسی و مالیاتی حقوق کے نام پر کئے جانے والے ڈھونگ کو عوامی سطح پر مسترد کیا جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں قائم ہونیوالی ’’آزاد حکومت ‘‘ کو 1949ء میں ہی عملی طور پر مفلوج کرتے ہوئے مطیع کر دیا گیا تھا اور اس سب عمل کو تقویت پہنچانے کیلئے مقامی طفیلی حکمران اشرافیہ کو استعمال کیا گیا۔ ساٹھ ہزار تعداد کی حامل آزادکشمیر ریگولر فورسز (AKRF) کو پاکستانی فوج کی آزادکشمیر رجمنٹ میں تبدیل کر کے پاکستانی فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1970ء تک ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔ 1970ء میں پہلی مرتبہ ایک ایکٹ کا نفاذ کرتے ہوئے صدارتی نظام کے تحت الیکشن کروائے گئے۔ چوبیس ممبران پر مشتمل اسمبلی قائم کی گئی۔ چار سال بعد 56 بلوں پر مبنی ایکٹ 74ء نامی عبوری آئین کو پاکستان سے ہی ڈرافٹ کرکے مذکورہ اسمبلی سے پاس کروایا گیا اور بیالیس ممبران پر مشتمل پارلیمانی انتخابات 1975ء میں منعقد کروائے گئے۔ اسی ایکٹ کے تحت کشمیر کونسل قائم کرتے ہوئے چھپن میں سے باون بلوں پر قانون سازی کا اختیار کشمیر کونسل کو دیا گیا جبکہ باقی چار پر اختیار منتخب اسمبلی کو دیا گیا۔ کشمیر کونسل کا چیئرمین وزیراعظم پاکستان تھا۔ اب نئی آئینی ترمیم کے ذریعے بھی اہم نوعیت کے اختیارت وزیراعظم پاکستان کے پاس ہی رہیں گے لیکن مالیاتی منظوریوں سمیت مقامی انتظامات سے متعلق قانون سازیوں کے اختیار کے حامل’’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘‘ نامی ادارے کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ جو اہم نوعیت کے اختیارات بحیثیت چیئرمین کشمیر کونسل وزیراعظم پاکستان کو حاصل تھے وہی اب بطور وزیراعظم پاکستان انہیں حاصل ہونگے۔ مقامی حکمران اشرافیہ کو کرپشن اور لوٹ مار میں آزادی اور آسانی میسر آئے گی۔ مذکورہ ترامیم کے بعد آزادی کے شادیانے بجانے والے حکمرانوں کی اصلیت صرف اس بات سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ آئینی ترامیم کا ڈرافٹ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ خان نے تیار کیا ہے اور اس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل فرحت میر سے مشاورت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے مشیر کی جانب سے تیار کردہ ترمیمی ڈرافٹ کو منظور کرنے والی اسمبلی آزاد کہلائے گی اور اس کے ذریعے سے اس خطے کے بسنے والے محنت کشوں کو سہولیات فراہم کرنے کے دعوے کئے جائیں گے۔ عبوری آئین ایکٹ 74ء میں کی جانیوالی آئینی ترامیم کے ڈرافٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’موجودہ عبوری آئین آزاد جموں و کشمیر کے تحت وزیراعظم پاکستان کو بطور چیئرمین کشمیر کونسل حاصل اختیارات بشمول اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرریوں، الیکشن کمیشن، آڈیٹر جنرل وغیرہ بدستور وزیراعظم پاکستان کو حاصل رہیں گے جن پر عملدرآمد وزارت امور کشمیر کے ذریعے کیا جائے گا۔‘‘ ساتھ ہی ذیلی شق میں لکھا گیا ہے کہ ’’ایسے سبجیکٹس جو کشمیر کونسل کی قانون سازی کی فہرست میں شامل تھے یعنی آبادی کی منصوبہ بندی اور سوشل ویلفیئر، اخبارات، کتب و پرنٹنگ پریس، سیاحت، انکم ٹیکس، اثاثہ جات کی مالیتی قدر پر ٹیکس وغیرہ کو چھوڑ کر دیگر حکومت پاکستان کو تفویض ہو جائیں گے اور حکومت پاکستان کی پہلے سے موجود ذمہ داریوں اور اختیارات میں شامل ہو جائیں گے۔ اس چیز کا ذکر بھی اہم ہے کہ تھرڈ شیڈول کو پارٹ ’A‘ اور پارٹ ’B‘ میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ پارٹ ’A‘ میں موجود امور خصوصی طور پر حکومت پاکستان کے سپرد ہونگے جبکہ پارٹ ’B‘ میں درج امور پر آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی قانون سازی کر سکے گی لیکن اس کیلئے حکومت پاکستان کی رضامندی لینا ہوگی۔‘‘

یعنی جو اختیارات اسمبلی کو حاصل ہیں اس میں بھی حکومت پاکستان کی رضامندی ضروری ہے لیکن اکثریتی اختیارات پر قانون سازی کا اختیار ہی اسمبلی کو حاصل نہیں۔ صرف کشمیر کونسل کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کونسل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقوم آزاد جموں کشمیر کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں منتقل ہوجائیں گی جس سے اس خطے کے حکمرانوں کو کشمیر کونسل کے ذمہ داران میں کمیشن تقسیم کرنے کی آزادی مل جائے گی۔ جبکہ عام محنت کش عوام کا مقدر مزید پابندیاں، قدغنیں، معاشی و سماجی بربادی ہی رہے گی۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے باسیوں کے حالات زندگی کا جائزہ لیا جائے تو آبادی کا بڑا حصہ عرب کے صحراؤں اور یورپ کی یخ بستہ فضاؤں میں بسلسلہ روزگار مقیم نظر آئے گا۔ مقامی سطح پر روزگار کے ذرائع سرے سے موجود نہیں ہیں۔ آزادکہلانے والی ریاست سرکاری محکمہ جات میں ایک لاکھ کے لگ بھگ نفوس کو روزگار فراہم کرنیکی صلاحیت رکھتی ہے۔ چالیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس خطے میں شرح خواندگی 62 فیصد ہے لیکن محض دو فیصد گریجویٹس ہیں۔ لیکن پینسٹھ فیصد نوجوان آبادی پر مشتمل اس خطے کے پچاس فیصد سے زائد نوجوان بیروزگار ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں معاشی بحران کے بعد ایک بڑی تعداد تارکین وطن محنت کشوں کی بیدخل ہوکر واپسی کی تیاریاں کر رہی ہے۔ جس سے بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔ خطے کی اٹھاسی فیصد آبادی دیہی ہے جبکہ صرف تیرہ فیصد اراضی قابل کاشت ہے۔ فی کس آمدن چھ سو ڈالر سالانہ ظاہر کی گئی ہے جبکہ ہر ایک ہزار میں سے 58 بچے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم خوراکی اور قابل علاج امراض سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک لاکھ میں سے 201 بچے دوران زچگی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پانچ ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کیلئے محض ایک ڈاکٹر اور 1309 نفوس کیلئے ایک ہسپتال کا بستر میسر ہے۔ زلزلے میں متاثر ہونے والے سکول بھی تاحال تعمیر نہیں کئے جا سکے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر تباہ کرتے ہوئے تعلیم کے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے سرکاری سطح پر پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں۔ حالیہ بجٹ جسے اس خطے کی تاریخ کے سب سے بڑے حجم والا بجٹ قرار دیا جا رہا ہے میں بھی ایک بھی نئی ڈسپنسری، نئے سکول، کالج یا یونیورسٹی کے قیام کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ روزگار کی فراہمی کیلئے کسی قسم کی منصوبہ بندی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی تعلیم، صحت و روزگار میں بہتر ی کیلئے کوئی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

گلگت بلتستان میں ٹیکسوں کے نفاذ، بجلی کی لوڈشیڈنگ، آئینی و سیاسی حقوق کی فراہمی کیلئے گزشتہ چند سالوں میں متعدد تاریخی احتجاج کئے گئے ہیں، جبکہ حال ہی میں نافذ ہونیوالے جی بی آرڈر کے خلاف بھی احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے جس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ واضح طور پر اعلان کیا جا رہا ہے کہ اب پاکستانی حکومت کی جانب سے نافذ کئے جانے والے حکم ناموں کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ گزشتہ ستر سال سے مسئلہ کشمیر سے منسلک ان دونوں خطوں کو آئینی، سیاسی و مالیاتی حقوق کی فراہمی کے نام پر سامراجی حکمناموں کے ذریعے ہر چند سال بعد مقامی حکمران اشرافیہ کو مزید مضبوط کرتے ہوئے ان علاقوں پر سامراجی تسلط کو مزید تقویت دیئے جانے کو ہی ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ ان دونوں خطوں کے وسائل، ذخائر اور بیرون ممالک سے آنیوالے زرمبادلہ سے مستفید ہونے کا حق بھی انہی خطوں کے عوام کا ہے لیکن موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کیا جانے والا ہر فیصلہ، ہر آئینی ترمیم اور ہر نیا حکم نامہ اس خطے کے عوام کو کسی قسم کے حقوق دینے کی بجائے استحصال اور لوٹ کھسوٹ کو ہی دوام بخشے گا۔ نام نہاد آزادی کے بعد اس خطے کے حکمران طبقات کے گزشتہ ستر سال سے جاری جبر و استحصال سے نجات آئینی و قانونی اصلاحات کے ذریعے ممکن نہیں ہے بلکہ ان دونوں خطوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی جانب سے مروجہ معاشی، سیاسی اور سماجی ڈھانچوں کے خلاف جدوجہد سے مشروط ہے جسے پاکستان اور پورے برصغیر کے محنت کشوں، نوجوانوں اور مظلوم قومیتوں سے ملکر ہی کامیاب کیا جا سکتا ہے۔

مزدور ہوں محنت کا صِلہ مانگ رہا ہوں
حق دیجیے، خیرات نہیں چاہیے مجھے
یہ لفظ ہیں، لفظوں سے نہ کبھی بھوک مِٹی ہے
لفظوں کی سوغات نہیں چاہیے مجھے
مخلص ہو تو تقسیم کرو زر کو ابھی سے
وعدوں کی سیاہ رات نہیں چاہیے مجھے