لال خان
پندرہ سالوں کی سامراجی جارحیت، قبضہ گیری اور بربادی کے بعد عراقی سماج میں عوامی مظاہروں کی ایک نئی لہر ابھر رہی ہے۔ امریکی سامراج کی مسلط کردہ جنگ،مذہبی دہشت گردی اور سماج کی مذہبی فرقہ واریت اور تنگ نظر قوم پرستی کی بنیادوں پر تقسیم کی وجہ سے عراق کے محکوم عوام 2011ء کے عرب انقلاب میں حصہ نہ لے سکے۔ نہروں کے جال کی وجہ سے ایک وقت میں بصرہ کے علاقے کو’’مشرق وسطیٰ کا وینس‘‘ کہا جاتا تھا۔ سامراجی جارحیت نے دجلہ و فرات کی تاریخی تہذبوں کو تاراج کردیا اور معیشت،سماج اور ریاست کو تتر بتر کردیا۔لیکن اسی سامراجی جنگ اور بنیاد پرستانہ دہشت کے ملبے سے ایک نئی طبقاتی جدوجہد ابھری جس نے سامراجی سرپرستی میں پروان چڑھائی گئی مذہبی اور قومی منافرتوں کو چیر دیا۔
8 جولائی کو ہونے والا پہلا مظاہرہ اب ایک عوامی سرکشی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پورے ہفتے میں جنوبی عراق میں ہزاروں لوگ امریکی فوجی جارحیت اور صدام کی حکومت کے انہدام کے بعد کے پندرہ سالوں سے جاری ناقابل برداشت سماجی اور معاشی حالات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوئے۔ عراقی کٹھ پتلی حکمران حیدر العبادی کی’دعوہ پارٹی‘سامراجی چھتری تلے 2003ء سے عراقی سیاست پر قابض ہے۔
بڑھتے دباؤ میں عبادی نے کہا ہے کہ اسکی عبوری حکومت بصرہ کی پانی،بجلی اور صحت کی ضروریات کے لیے فنڈز جاری کرے گی لیکن اس شہر کے لیے کسی بڑے ریلیف کا امکان نظر نہیں آتا۔عراقی حکومت نے مصالحانہ نعرے بازی اور ریاستی جبر کے امتزاج سے ان مظاہروں کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔حواس باختہ حیدرالعبادی بے بسی میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
مظاہروں کا آغاز 8 جولائی کو اس وقت ہوا جب روزگار، پانی، بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے احتجاج کرنے والے نوجوانوں پر سکیورٹی فورسز نے فائر کیا جس سے ایک شخص ہلاک ہو اجس سے عوامی غم وغصے میں مزید اضافہ ہوا۔ ساماوا میں عراقی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں دو مظاہرین ہلاک اور28 زخمی ہوئے۔ایک پولیس اہلکارنے بتایا، ’’سینکڑوں لوگوں نے ایک عدالت میں گھسنے کی کوشش کی۔‘‘
اسی دن سے مظاہرین ہر دن ہزاروں کی تعداد میں احتجاج کرتے ہوئے ٹریفک بند اور حکومتی عمارات و آئل فیلڈز پر قبضے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مظاہرین ہر طرف پھیلی بدعنوانی، بے روزگاری اور ناکافی عوامی خدمات جیسے مسائل کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔امریکی جارحیت اور قبضہ گیری کے وقت سے یہ مسائل عراقی سماج کا جزولاینفک بن چکے ہیں۔ بالخصوص باقاعدگی سے بجلی کی بندش اور صاف پانی کی کمی نے اس سخت گرمی میں محنت کشوں کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔اس سال خشک سالی کی وجہ سے ملکی ڈیموں میں بجلی کی پیداوار کم ہوئی اور نتیجتاً جنوبی عراق میں بجلی کی غیریقینی صورت حال نے مزید شدت اختیار کی۔دوسری طرف ادائیگیوں کے تنازعے پر ایران سے سپلائی ہونے والی بجلی میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔
بصرہ ملکی تیل کا سب سے مالامال صوبہ ہے جس کی برآمدات عراقی حکومت کی سالانہ آمدنی کا 95 فیصد ہیں۔ اس لیے یہاں کی سکیورٹی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ریاستی میڈیا کے مطابق عبادی نے عراقی فوج کے نویں ڈویژن اور بدنام زمانہ انسدادِ دہشتگردی سروس کے کمانڈوز کو بصرہ کی آئل فیلڈز کا ’دفاع‘ کرنے کا حکم دیا ہے۔حکومت نے انٹرنیٹ تک رسائی کو انتہائی محدود کردیا ہے تاکہ مزید مظاہروں کے لیے باہمی رابطوں میں رکاوٹ ڈالی جا سکے۔
جمعہ کو مظاہرین نے ام قصر بندرگاہ جانے والے راستے کو بند کردیا جبکہ تحریک امارا، ناصریہ اور نجف تک پھیل گئی جہاں سینکڑوں مظاہرین نے ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا اور فضائی آمد و رفت کو معطل کردیا۔ ایئرپورٹ پر تعینات سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مزید دو مظاہرین ہلاک ہوئے جس سے پچھلے ہفتے سے مرنے والوں کی تعداد آٹھ تک پہنچ گئی ہے۔ مظاہرے بغداد اور کربلا تک پھیل گئے ہیں۔ یہ مظاہرے ماضی کے مقتدی الصدر کی کال پر ہونے والے مظاہروں سے مختلف ہیں اور فرقہ واریت کی بجائے طبقاتی کردار کے حامل ہیں۔ جنوبی صوبوں میں محنت کش‘ بورژوا مذہبی پارٹیوں سے آزاد اور ان کی مخالفت میں روزگار،کرپشن کے خاتمہ اور بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے اپنے طبقاتی مطالبات پیش کر رہے ہیں۔وہ امریکی سامراج کے عراقی عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کے فارمولے کے تحت پروان چڑھائی گئی فرقہ وارانہ تقسیموں سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
دنیا میں سعودی عرب کے بعد عراق کے پاس تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہیں لیکن اسکے باسی آج تک محروم اور برباد ہیں۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق درحقیقت 1980ء میں ایران عراق جنگ سے پہلے عراق ایک فلاحی ریاست بننے کے قریب تھا۔ 1987ء میں اسکا ’GNP‘ مناسب سطح پر تھا۔جدید تاریخ میں عراق میں متعدد انقلابی سرکشیاں ہوئیں۔ 1958ء میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں دس لاکھ لوگ بغداد کی سڑکوں پر موجود تھے۔ لیکن برطانوی سامراج کی مسلط کردہ بادشاہت کا خاتمہ’ بعث پارٹی ‘کے جونئیر فوجی افسران کے ایک کُو میں ہوا تھا کیونکہ کمیونسٹ پارٹی نے انقلابی سرکشی کے لیے تیار عوام اور انکے جوش و خروش کے باوجود طاقت اپنے ہاتھوں میں لینے سے انکار کردیا تھا۔ جولائی 1968ء میں ایک دفعہ پھر میجر جنرل احمد حسن البکیرنے جنرل عبدالرحمان عارف کی حکومت کا ایک پرامن فوجی کُو میں خاتمہ کردیا جس نے عرب لیگ، تیل کے شعبے اور اقلیتوں کے حوالے سے ریڈیکل پالیسیوں اور عراقی عوام کی زندگیوں کوبہتر بنانے کے وعدے کیے۔اس حکومت نے تیل پر سامراجی کنٹرول کو ختم کرکے اس صنعت کو ضبط کرلیا اور معیشت کے دوسرے شعبوں اور صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1980ء کی دہائی کی شروعات میں عراق بہت تیزی سے ترقی یافتہ ممالک کی معیار زندگی کے قریب پہنچ رہا تھا۔ایک وسیع اور جدید صحت کا نظام موجود تھا۔صاف اور وافر پینے کا پانی ایک معمول تھا۔ گندے پانی کے جدید ٹریٹمنٹ پلانٹ اور دجلہ و فرات کے پانی کے معیار کو ایک مناسب سطح پر رکھنے کا نظام اور ٹیلی کمیونیکیشن کا ایک جدید نیٹ ورک تمام شہری اور دیہی علاقوں میں پھیلا یا گیا تھا۔ بجلی کی پیداوار کے چوبیس اسٹیشن انفراسٹرکچر کا ایک اہم حصہ تھے۔شہر اور دیہات میں خواتین معیشت کے تمام شعبوں اور حکومتی ملازمتوں میں ہر جگہ سرگرم تھیں اور ایک ایسی سماجی آزادی حاصل تھی جو مشرق وسطیٰ میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں مفت اور لازمی تعلیم کی وجہ سے خواتین کا تعلیمی معیار بہتر ہوا۔ خلیجی جنگ،امریکی جارحیت اور اسلامی بنیادپرستی کے ابھار کی وجہ سے لڑکیوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح میں اضافہ ہوا۔ سیاہ رجعت،داعش اور دیگر اسلامی بنیادپرست تنظیموں کے ابھار نے خواتین کی سماجی، ثقافتی اور معاشی زندگیوں میں گراوٹ لا کر اسے دوزخ بنادیا ہے۔ آٹھ سالہ ایران عراق جنگ پہلے ہی ایرانی سرحد سے متصل سات صوبوں میں بنیادی خدمات کے شعبوں کو برباد کرچکی تھی۔ معیشت ابھی بحالی کی طرف گامزن تھی کہ خلیجی جنگ کا آغاز ہوا۔عراق نسبتاً خوشحالی سے بے تحاشہ غربت میں دھنس گیا۔
طبقاتی بنیادوں پر ہونے والی موجودہ سرکشی عراق کو دہائیوں تک برباد کرنے والی اس خونریزی کی فضا میں ایک امید کی کرن ہے۔امریکی سامراجی جارحیت سے پہلے عراق میں اسلامی بنیادپرست تنظیموں کا نام و نشان تک نہیں تھا۔سلطنت عثمانیہ کے لیوانت صوبے سے بنائی جانے والی ریاستیں عراق،لبنان،لیبیا،شام،یمن وغیرہ ڈھے گئیں۔ سامراجی مالیاتی اداروں اور ’عالمی طاقتوں‘ یا سامراجی معاہدوں کے ذریعے وجود میں آنے والی مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں کسی طرح کی ترقی یا خوشحالی نہیں آسکتی۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ متمول اور قدیم تہذیبیں سرمایہ دارانہ نظام کے حدود میں کبھی بھی بحال نہیں ہوسکتیں۔ تاہم موجودہ تحریک جس میں عوام اپنی آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں‘ ایک امید کی کرن ہے۔ جب اس طرح کی کوئی تحریک ایک انقلابی کردار اپنا لے تو یہ صرف عراق تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک انقلابی طوفان کی مانند لیوانت کے تمام تر ممالک،مشرق وسطیٰ اور اس سے بھی آگے تک پھیل جائے گی۔