خواجہ زبیر
گزشتہ مضمون میں ہم نے کینیڈا کے سب سے بڑے صوبے اونٹاریو میں انتخابات سے قبل اپنا تجزیہ پیش کیا۔ تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے لبرل پارٹی کی شکست تو یقینی نظر آ رہی تھی۔ ساتھ ہی ہم نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ لبرل اس بُری طرح سے ہاریں کہ ایوان میں اپنا آفیشل پارٹی کا سٹیٹس تک کھو دیں اور یہ کہ اصل میدان دائیں بازو کے کنزرویٹوز اور بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کے بیچ سجے گا۔ مزید یہ کہ اونٹاریو کے 14 ملین محنت کش کسی بڑی تبدیلی کے متلاشی ہیں اور ’NDP‘ کے لیے میدان مارنے کو یہ اچھا موقع بھی ہے مگر لبرل پارٹی کے خلا کو پْر کرنے کے لیے ’NDP‘ خود کو سینٹر لیفٹ کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ ایسے میں تبدیلی کے خواہاں ووٹرز کے لیے لبرلز اور ’NDP‘ میں فرق کرنا دشوار ہو گا۔ ایسی سیاسی پوزیشن میں ’NDP‘ تیسرے پائیدان سے اٹھ کر ایک کڑا مقابلہ تو دے سکتی ہے مگر حکومت بنانے کا خواب ادھورا ہی رہ جائے گا۔ کنزرویٹوز، جن کا الیکشن سے ایک ہفتہ قبل تک پروگرام (منشور) ہی نہیں آیا تھا، لبرلز کی نااہلی اور مزدور دشمن پالیسیوں اور ’NDP‘ کی کوتاہی کے باعث باآسانی میدان مار جائیں گے۔
پھر سات جون کی شام الیکشن نتائج آنا شروع ہوئے تو ہماری پیش بینی کی بھرپور تصدیق ہوتی چلی گئی۔ پندرہ سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی لبرل پارٹی نے 48 نشستیں ہی نہیں کھوئیں بلکہ محض 7 حلقے ہی جیت کر ایوان میں آفیشل پارٹی سٹیٹس بھی کھو دیا۔ مقابلے میں کنزرویٹوز 49 سیٹوں کے اضافے کے ساتھ ایوان میں 27 سے بڑھ کے 76 سیٹیں لے کے اکثریتی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسرے نمبر پر ’NDP‘ رہی جو 22 سیٹوں کے اضافے کا ساتھ اب ایوان میں 18 کی بجائے 40 سیٹیں رکھتی ہے۔ انتخابات کو سیاسی عمل کے تسلسل میں دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم سوشل ڈیموکریٹ تو نہیں ہیں جو اس بورژوا نظام میں ہونے والے ان انتخابات سے کسی بڑی تبدیلی کا ڈھونگ رچائیں۔ لیکن ہم انارکسٹ بھی نہیں ہیں جو اس سیاسی عمل کا ہی بائیکاٹ کر دیں۔ تلخ سہی مگر حقیقت یہی ہے کہ غیر انقلابی حالات میں محنت کش اپنے مسائل کے حل کے لیے، اپنی محرومیوں کے مداوے کے لیے بڑی سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ان انتخابات سے کچھ امیدیں ضرور لگاتے ہیں۔ بالعموم ترقی یافتہ معاشروں میں یہ رجحان زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کر کے انقلابی‘ محنت کشوں کے لیے جہاں ایک طرف تو ہر ممکنہ رعایتوں اور مراعات کے لیے لڑتے ہیں دوسری طرف محنت کشوں پر اس نظام اور اس کے تحت چلنے والے اداروں کا دیوالیہ پن ضرور آشکار کرتے ہیں۔ ہم اس وقت حکمران طبقات کی کھال نہ بھی کھینچ سکیں تو بھی محنت کشوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں کہ وہ جن کو اپنا داد رس اور مشکل کشا سمجھ بیٹھے تھے وہ بھیڑ کی کھال اوڑھے بھیڑیے ہیں۔ انتخابات سے متعلقہ انقلابی لائحہ عمل کی بحث ہم کسی اور وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں اور واپس اونٹاریو الیکشن کے نتائج کی طرف لوٹتے ہیں۔
لبرل پارٹی کی شکست اس قدر ذلت آمیز تھی کہ وہ 8 سیٹیں بھی نہ جیت سکی اور ایوان میں اپنا آفیشل سٹیٹس تک کھو دیا۔ اب نہ تو اسے ایوان میں سوالات کرنے کا حق حاصل ہو گا نہ وہ پارٹی چلانے کے لیے فنڈ لے سکے گی۔ ان کی شرمناک ہار کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارٹی سربراہ اور سابق وزیرِاعلیٰ کیتھلین وِن محض 181 ووٹوں کے فرق سے بمشکل اپنی سیٹ بچا پائیں۔
دوسری طرف ڈگ فورڈ کی سربراہی میں کنزرویٹوز اکثریتی حکومت بنانے جا رہے ہیں۔ ایوان میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے میں ابھی دو ہفتے کا وقت ہے مگر وزیرِاعلیٰ کا حلف لینے سے قبل ہی ڈگ فورڈ نے اپنے مزدور دشمن تیور دکھانے کی شروعات کرتے ہوئے حکم صادر کیا ہے سرکاری نوکریوں کی خالی آسامیوں کو پر کرنے پر پابندی لگا دی جائے۔ اس وقت اونٹاریو پر 325 ارب ڈالر کا قرض ہے۔ پبلک سروسز میں کٹوتیاں کرنے پر سب سے زیادہ متاثر بھی معاشرے کے سب سے کمزور حصے ہوں گے جن کی زندگی کا انحصار ان سروسز پر ہے۔ سب سے بڑا جھٹکا صحت کے شعبے کو لگے گا۔ اونٹاریو کے ہسپتال جو پہلے ہی اپنی استعداد سے کہیں اوپر خطرناک سطح پر کام کر رہے ہیں نہ صرف انتظامی عملہ نہیں رکھ سکیں گے بلکہ ڈاکٹرز، نرسز، اور لیباریٹری ٹیکنیشنز کی آسامیاں پْر کرنے پر بھی پابندی ہو گی۔ اس کے بعد تعلیم کا شعبہ اس پابندی کی لپیٹ میں آئے گا۔ یونیورسٹیز، کالجز وغیرہ تدریسی اور غیر تدریسی عملہ نہیں رکھ سکیں گے۔ سکول بورڈز جو پہلے ہی کیتھلین وِن کے زیرِعتاب اپنی خود مختاری صوبائی حکومت کے پاس گروی رکھ چکے ہیں اساتذہ اور دیگر عملہ رکھنے سے قاصر ہوں گے۔ سکولوں میں نہ صرف کلاسوں کا حجم بڑھانا پڑے گا بلکہ بہت سے تعلیمی پروگرام بھی لپیٹنے پڑ جائیں گے۔ بہت سے شہر اور قصبے اپنی بلدیات چلانے کے لیے صوبائی حکومت کے محتاج ہوتے ہیں۔ ان کی خدمات بھی بری طرح متاثر ہوں گی۔ خالی آسامیوں کو پر کرنے پر پابندی بظاہر اتنا مضر دکھائی نہیں دیتا مگر اعلیٰ عدلیہ کے ایوانوں سے لے کر کوڑا اٹھانے تک، پیدائش سے موت تک زندگی کا ہر ہر شعبہ اس کی لپیٹ میں آئے گا۔ صحت، تعلیم اور دیگر سرکاری خدمات کا معیار بری طرح گرا کر پرائیویٹائزیشن کے لیے رائے عامہ ہموار کی جائے گی۔ساتھ ہی فورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ سرکاری اخراجات کی پائی پائی کا آڈٹ کروائے گا کہ حکومتی پیسہ کہاں کہاں خرچ ہوتا ہے۔ بظاہر اس کا مقصد بے جا خرچ پر روک لگانا اور سرکاری وسائل کی کارکردگی بڑھانا ہے۔ لیکن آڈٹ فرمز کے ذریعے ایسا حساب کتاب کروانا اشارہ دیتا ہے کہ معلوم کروایا جا رہا ہے کہ کون کون سی سرکاری خدمات کی قربانی دی جا سکتی ہے۔
فورڈ کو درپیش دوسرا فوری امتحان ٹورانٹو کی یارک یونیورسٹی میں جاری ہڑتال سے نبٹنا ہے۔ ماضی کی کئی حکومتوں نے کام پر واپس جانے کے کالے قانون کے ذریعے ایسی ہڑتالوں کو کچلا ہے مگر غالباً انتخابات سر پر ہونے کے سبب کیتھلین وِن نے مقبولیت کھونے کے خوف سے اس بار ایسا کرنے سے گریز کیا۔ یہ ہڑتال 105 دن کی طوالت پکڑ گئی ہے۔ ہڑتال کا میدان محنت کشوں کی درسگاہ ہوتا ہے۔ ان میں نظم و ضبط اور جڑت پروان چڑھتی ہے۔ اپنی قوت اور طاقت کا ادراک ہوتا ہے۔ یہ ان میں طبقاتی شعور پیدا کرتی ہیں۔ اس نظام اور اس کے اداروں جیسے حکومت، پولیس، عدلیہ اور انتظامیہ وغیرہ کا اصل چہرہ ان پر آشکار ہوتا ہے۔ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح کینیڈا کے محنت کشوں کو حاصل بہت سے حقوق اور مراعات بھی کوئی بھیک میں نہیں ملیں بلکہ ایسی ہی ہڑتالوں میں لڑ کے جیتی گئی تھیں۔ جیسا کہ 1872ء میں پرنٹنگ پریس کے مزدوروں کی ہڑتال نے ’’نو گھنٹے کی تحریک‘‘ کو جنم دیا جس سے کام کے اوقاتِ کار میں بہتری آئی۔ 1940ء میں ’’روزگار کا بیمہ‘‘ بھی محنت کشوں کی کامیاب ہڑتال کا ثمر تھا جب مزدوروں نے کام چھوڑ کے دارلحکومت اوٹاوا کی جانب مارچ شروع کر دیا تھا۔ بچے کی پیدائش پر 17 ہفتے کی تنخواہ کے ساتھ رخصت بھی 1981ء میں پوسٹل ورکرز کی 42 روزہ کامیاب ہڑتال کی بدولت جیتی گئی تھی۔ محنت کش طبقے کی جدوجہد میں ہڑتالیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر ان کے ثمرات بھی محدود ہوتے ہیں۔ ہڑتال محنت کش طبقے کی جدوجہد کی ایک اہم جہت ہیں مگر صرف ہڑتالوں کے بلبوتے پر ہی محنت کش اپنی کایا نہیں پلٹ سکتے۔ علاوہ ازیں جلد بازی اور بے صبری میں دی گئی ہڑتال کی کال کے اُلٹ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ورنہ ہڑتال کبھی تو کسی مزدور دشمن قانون کا سہارا لے کے کچل دی جاتی ہے یا کبھی طول پکڑ کے خود دم توڑ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں محنت کشوں کو پہلے سے بدتر شرائط پر کام پر لوٹنا پڑ جاتا ہے۔ ہم ایسا کچھ ہی ٹورانٹو کی یارک یونیورسٹی کی ہڑتال میں دیکھتے ہیں۔ 15 ہفتے یا لگ بھگ 105 دن جاری رہنے والی ہڑتال طوالت کے باعث اعصاب شکن ثابت ہو رہی ہے۔ لگ بھگ ایک تہائی ہڑتالی عملے نے پیش کردہ شرائط مان کے اس ہفتے سے کام پر واپس جانے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ دو تہائی ہڑتالی مزدور تاحال ہڑتال پر ہیں جن کی تعداد لگ بھگ 2000 ہے۔
ڈگ فورڈ کو سب سے بڑا چیلنج ڈولتی معیشت کو سہارا دینے کا ہے۔ اندرونی طرف سے اس پر قرضوں کا شدید دباؤ ہے جبکہ بیرونی محاذ پر کینیڈا کا سب سے قریبی حلیف امریکہ‘ یورپ، چین اور اب خود کینڈا سے تجارتی جنگ چھیڑ بیٹھا ہے۔ ڈگ فورڈ نظریاتی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے کافی قریب ہے اور اس کا برملا اظہار کر چکا ہے۔ ’NAFTA‘ ممالک یعنی امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کے مابین اشیا و خدمات اور سرمائے کا تبادلہ اس آزادی اور اس وسیع پیمانے پر ہوتا ہے کہ اس میں معمولی سا بدلاؤ سارا توازن بگاڑ کے بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ نے کرسیِ صدارت پر براجمان ہوتے ہی ’NAFTA‘ معاہدے میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کا عندیہ دے دیا تھا۔ مذاکرات کے کئی دور ہوئے جو ناکامی پر ختم ہوئے۔ کینیڈا کی وفاقی حکومت مسلسل دعوے کرتی رہی کہ وہ کامیاب مذاکرات کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ مگر اونٹاریو الیکشن سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل خود ٹرمپ نے لبرل سرکار کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دی اور کینیڈین سٹیل مصنوعات پر 25 فیصد اور ایلومینیم مصنوعات پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی۔ عذر یہ پیش کیا کہ کینیڈین ایلومینیم اور سٹیل مصنوعات امریکی عسکری گاڑیوں اور جہاز سازی میں استعمال ہوتی ہیں جس سے امریکی سکیوریٹی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ 16.6 ارب کینیڈین ڈالر مالیت کی ڈیوٹی کے جواب میں کینیڈا نے بھی امریکی مصنوعات پر دس اور پچیس فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکہ‘ کینیڈا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ کینیڈین ایکسپورٹ کا 72 فیصد امریکہ کو جاتا ہے۔ کینیڈا کے دس صوبے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے۔ امریکی ایکسپورٹ کا 15 فیصد کینیڈا آتا ہے۔ امریکہ کی 50 میں سے 32 ریاستوں کی سب سے بڑی منڈی اور دیگر 9 ریاستوں کی دوسری سب سے بڑی منڈی کینیڈا ہے۔ 18 ملین کینیڈین محنت کشوں میں سے 2.2 ملین کا روزگار براہ راست امریکہ کو جانے والی ایکسپورٹ پہ منحصر ہے۔ جبکہ 1.6 ملین امریکی محنت کشوں کا روز گار کینیڈا جانے والی ایکسپورٹ سے منسلک ہے۔ اس توازن کی پیچیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کی ایکسپورٹ کے خام مال کا 64 فیصد دوسرے ملک سے ہی آیا ہوتا ہے۔ اس ڈیوٹی سے سب سے زیادہ متاثر گاڑیوں کی صنعت ہوگی۔ گاڑیاں امریکہ سے کینیڈا سب سے بڑی ایکسپورٹ ہے جس کا حجم 51 ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ خام تیل اور تیل کی مصنوعات کے بعد کینیڈا میں تیار گاڑیاں امریکہ کو جانے والی کینیڈا کی دوسرے بڑی ایکسپورٹ ہے جس کے مالیت 56 ملین ڈالر سالانہ ہے۔ 2017ء میں امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو میں ایک کروڑ پچھتر لاکھ چھوٹی بڑی گاڑیاں تیار ہوئیں۔ صرف کینیڈا میں ہر سال اوسطاً چوبیس لاکھ گاڑیاں تیار ہوتی ہیں۔ 2016ء میں اس صنعت میں 1,40,404 کینیڈین محنت کش کام کر رہے تھے۔ اونٹاریو میں قائم فورڈ، ٹویوٹا اور فی ایٹ کرائیسلر کے کار اسمبلی پلانٹس پیداواری صنعت کے چھ سب سے بڑے آجرین میں شمار ہوتے ہیں۔ صرف ونڈسر اونٹاریو میں قائم ایک پلانٹ میں 6000 ملازمین ہیں۔ کار کمپنیاں جیسے ٹویوٹا، ہونڈا وغیرہ اپنے زیادہ تر پرزے دیگر کمپنیوں سے بنواتی ہیں۔ کار اسمبلی پلانٹ میں محض کار کے مختلف حصوں کو جوڑ کر کار اسمبل کی جاتی ہے۔ کینیڈین ملکیت میں قائم گاڑیوں کے پرزے بنانی والی کمپنیوں میں لگ بھگ 50,000 افراد کام کر رہے ہیں۔ اسٹیل اور ایلومینیم پر ڈیوٹی لگانے سے پیداواری لاگت بہت بڑھ جائے گی۔ قیمتیں بڑھنے سے ان کی طلب میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی اور بارڈر کے دونوں طرف لاکھوں افراد کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا۔
کینیڈا خاص کر اونٹاریو اور پھر ٹورانٹو اور اس کے مضافاتی شہروں میں محنت کشوں پر حالات زندگی پہلے ہی تنگ ہیں۔ گھروں کی قیمتیں اور کرائے غیر فطری بلندی کو چھو رہے ہیں۔ محنت کش اپنی معاشی بساط سے کہیں زیادہ مالیت کے گھر مجبوری میں قرض پر لیے بیٹھے ہیں اور اپنا پیٹ کاٹ کے گھروں کی قسطیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں امریکہ کینیڈا تجارتی جنگ جلد ختم نہ ہوئی تو بڑے پیمانے پر پیداواری اور صنعتی مراکز بند ہوں گے اور وسیع پیمانے پر بیروزگاری پھیلے گی۔ جس سے مورگیج انڈسٹری کا دیوالیہ نکلنے میں وقت نہیں لگے گا۔ یہ ساتھ میں انشورنس اور پھر بینکنگ شعبے کو بھی لے ڈوبے گی۔ ایسے میں بعید نہیں کہ ڈولتی معیشت اپنا توازن کھو کے کساد بازاری کے گڑھے میں جا گرے۔
مستقبل قریب میں ایک طرف تو روزگار کی غیر یقینی صورت حال اور دوسری طرف سرکاری خدمات میں کٹوتیاں، محنت کشوں پر دو دھاری تلوار تانے ہوئے ہیں۔’NDP‘ کی جانب سے لبرلز کا متبادل بننے کی پالیسی کو محنت کشوں نے ماضی قریب میں کئی بار ٹھکرایا ہے۔ ایوان میں کنزرویٹوز کو اکثریت حاصل ہے۔ پارلیمنٹ میں کنزرویٹوز کی مزدور دشمن پالیسیوں کا راستہ روکنا عددی اقلیت کی وجہ سے ’NDP‘ کے لیے ممکن نہ ہو گا۔ یوں اونٹاریو کے محنت کش اس لڑائی کو ایوان میں لڑنے کی بجائے سڑکوں اور چوراہوں پر لانے پر مجبور ہوں جائیں گے۔ اگلے برس وفاق کے عام انتخابات کا میدان سجے گا۔ وفاق میں ٹروڈو کی مقبولیت بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ کنزرویٹوز محنت کشوں اور حکومت کی بیچ تناؤ اور ممکنہ مڈ بھیڑ کو اگلے عام انتخابات تک ہر قیمت پر ٹالنے کی کوشش کریں گے۔
ایک سال کا وقت کافی ہے۔ اگر اب بھی ’NDP‘ اپنی پوزیشن واضح کر کے اپنی سوشلسٹ اساس پر مبنی پروگرام ترتیب نہیں دیتی اور ماضی قریب کے دو الیکشنوں سے نہیں سیکھتی تو آئندہ برس عام انتخابات کے بعد ہم دوبارہ کہیں یہی نہ لکھ رہے ہوں کہ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا!