حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقوں میں شامل اور براہ راست وفاق پاکستان کے زیر کنٹرول خطہ گلگت بلتستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات، صدارتی حکم نامے اور ابھرتی احتجاجی تحریک کے پیش نظر خبروں کی زینت ہے۔ خبروں کے مطابق دو اور تین اگست 2018ء کی درمیانی شب گلگت بلتستان کے ضلع دیامر  کی تین تحصیلوں چلاس، داریل اور تانگیر میں دہشت گرد عناصر کی جانب سے قریباً 13 گرلز سکولوں کو نذر آتش اور دھماکہ خیز مواد کے ذریعے سے تباہ کیا گیا ہے۔ تباہ ہونے والے سکولوں میں دو آرمی پبلک سکول جبکہ دو زیر تعمیر سکولوں کی عمارتیں بھی شامل تھیں۔ سرکاری طور پر دی گئی اطلاعات کے مطابق تباہ ہونیوالے سکولوں کی تعداد بارہ تھی اور انہیں دو اور تین اگست کی درمیانی شب ایک بجے کے قریب دہشت گرد عناصر نے پٹرول پھینک کر نذر آتش کیا ہے اور تباہ ہونیوالے سکولوں میں بوائز سکول بھی شامل تھے۔ سرکاری ذرائع نے بارودی مواد کے استعمال کی تصدیق نہیں کی لیکن گلگت بلتستان سے شائع ہونیوالے اخبارات روزنامہ کے ٹو، شمال اور دیگر میں شائع ہونیوالی خبروں اور مقامی ذرائع کے مطابق تیرہ سکول تباہ ہوئے اور تمام کے تمام گرلز سکول تھے اور تباہ ہونیوالے چار سکولوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا گیا ہے۔
گلگت بلتستان کا ضلع دیامر ماضی میں بھی دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے خبروں میں رہا ہے۔ 2003ء اور 2004ء میں بھی سکولوں کو تباہ کئے جانے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اگست 2013ء میں پولیس آفیسر سمیت سکیورٹی فورسز اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اُسی سال جون میں ہی نانگا پربت بیس کیمپ (جو ضلع دیامر کی حدود میں ہی شامل ہے) میں دہشت گردوں کے ایک حملہ میں دس غیر ملکی جبکہ ایک پاکستانی سیاح کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ماضی میں سیاحوں پر متعدد حملے اور اغوا کی وارداتیں رونما ہو چکی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر مذکورہ علاقہ میں دہشت گردی کی روک تھام کیلئے سکیورٹی فورسز اور صوبائی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دیئے ہیں۔ اس کے برعکس عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرنے والے ترقی پسند رہنماؤں، صحافیوں، لکھاریوں سمیت گزشتہ عرصہ میں گلگت بلتستان کی تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں، تاجران، وکلا، سول سوسائٹی اور طلبہ تنظیموں پر مشتمل عوامی ایکشن کمیٹی کے کئی درجن رہنماؤں کو ’فورتھ شیڈول‘ (جو دہشت گردی، انتہا پسندانہ، فرقہ وارانہ اور شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث افراد کیخلاف وفاقی سطح پر بنایا گیا قانون ہے) میں شامل کیا گیا تھا۔ دہشت گردی کیخلاف بنائے گئے دیگر قوانین جن میں انسداد دہشت گردی ایکٹ بھی شامل ہے کا نفاذ عوامی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوں کیخلاف کیا گیا ہے لیکن دہشت گرد عناصر کے خلاف اس طرح کے اقدامات سے مقامی حکومت نے گریز کیا ہے۔

مقامی حکام کے مطابق دہشت گردانہ سوچ کے حامل یا عسکری تنظیموں کے افراد اس علاقے (ضلع دیامر)میں موجود ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی صحافی امتیاز علی تاج کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ضلع دیامر کے علاقہ میں آج تک کارروائی نہ کئے جانے کے سوال کا جواب گلگت بلتستان کی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر شہری یہاں گلگت بلتستان کے حکومت اور پولیس سے بھی کر رہا ہے کہ ان لوگوں نے ماضی میں سکولوں کو تباہ کیا، دفاتر تباہ کیے، شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا، تو پھر ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی۔ لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ ان کے مطابق تانگیر اور داریل میں عسکریت پسندوں کے جانب سے سکول جلائے جانے کے واقعے کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر کارروائی کی جس میں ایک مبینہ عسکریت پسند ہلاک ہوا۔ ان کے مطابق اس کارروائی کے دوران پولیس پر فائرنگ کرنے والے بیشتر عسکریت پسند گرفتار ہوئے ہیں۔ تاہم کچھ ایسے ہیں جو اس علاقے کی ایک جانب گھنے جنگلوں میں فرار ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق پہاڑوں میں گھِرے اس دشوار گزار علاقے میں گھنے جنگلات ماضی میں بھی شدت پسندوں کے لیے ایک آسان پناہ گاہ ثابت ہوئے ہیں۔

دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان (جس میں گلگت بلتستان کی تمام سیاسی جماعتیں (ماسوائے مسلم لیگ ن)، انجمن تاجران، وکلا، سول سوسائٹی نمائندگان اور طلبہ تنظیمیں شامل ہیں) نے دہشت گردی کے حملوں کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے اس کی آڑ میں مقامی شہریوں کو تنگ کئے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔ چیئرمین عوامی ایکشن کمیٹی مولانا سلطان رئیس نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک سازش کے تحت اس علاقے میں دہشت گردی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جس کا مقصد اس علاقے کو برباد کرنا اور لوگوں کو عوامی حقوق کیلئے آواز اٹھانے سے روکنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ دیامر میں دہشت گردی کے خلاف سرچ آپریشن ضرور کیا جانا چاہیے لیکن مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیکر یہ آپریشن کیا جائے۔ انہوں نے دبے الفاظ میں یہ بھی کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی منصوبہ بندی کہاں ہوتی ہے لیکن اگر دہشت گردی کی آڑ میں دیامر کے لوگوں کے خلاف بلاجواز کارروائی کی گئی تو سخت احتجاج کیا جائیگا۔ یہ بھی واضح رہے کہ سکولوں پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد دیامر کی تینوں تحصیلوں میں طلبا و طالبات اور عوام علاقہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کئے گئے جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کی جانب سے گلگت شہر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع میں بھی طلبہ اور شہریوں نے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کرتے ہوئے دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت کی۔

رواں سال مئی میں نافذ ہونیوالے نئے صدارتی حکم نامے کو مقامی ایپیلٹ کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد گلگت بلتستان کا اقتدار آئینی بحران کی سی کیفیت میں چلایا جا رہا تھا۔ صدارتی حکم نامے کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے بحال کرتے ہوئے آٹھ اگست 2018ء کو مقامی ایپیلٹ کورٹ کا اقدام کالعدم قرار دیدیا ہے اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستان کے شہریوں کے برابر سہولیات فراہم کی جائیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم اس بینچ نے یہ واضح نہیں کیا کہ مذکورہ گلگت بلتستان آرڈر کی رو سے کس طرح سے وفاقی حکومت پاکستان کے شہریوں کے برابر سہولیات گلگت بلتستان کے شہریوں کو فراہم کر سکتی ہے۔

بلند و بالا ہمالیائی پہاڑی سلسلے پر مشتمل گلگت بلتستان کے خطے کی مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے حیثیت تاحال متنازعہ ہے لیکن اس خطے کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے الگ پہلے ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) کے قانون کے تحت جبکہ بعد ازاں براہ راست صدارتی احکامات کے ماتحت وفاق کے زیر انتظام رکھا گیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے گیٹ وے کی وجہ سے اس خطے کی عالمی سطح پر اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے پر تسلط کو مزید گہرا اور مضبوط کرنے کیلئے ابتدائی طور پر ’گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء ‘کا نفاذ کیا گیالیکن قومی و طبقاتی استحصال اور لوٹ مار کیخلاف گلگت بلتستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران شدید احتجاج اور نظام حکومت کو مفلوج کئے جانے کے اقدمات کے بعد جب وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان کے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے تو وقتی طور پر مطالبات کو منظور کرتے ہوئے ایک نئے صدارتی حکم نامے کی تیاری شروع کی گئی۔ اصلاحات اور مسائل حل کرنے کے دعوؤں کے ساتھ مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کا انتظام چلانے کیلئے ’گلگت بلتستان آرڈر2018ء ‘کے نام سے نیا صدارتی حکم نامہ نافذ کر دیا۔

مذکورہ صدارتی حکم نامے کا اطلاق گلگت کے شہریوں پر ہوگا چاہے وہ گلگت میں ہوں یا کسی اور شہر، صوبے یا بیرون ملک ہی کیوں نہ ہوں۔ فوج، پولیس اور خفیہ اداروں پر اس آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہو گا۔ مخصوص قوانین کے تحت گرفتار کئے گئے افراد کو قانونی معاونت کا حق بھی حاصل نہیں ہوگا۔ پاکستان یا پاکستان کے کسی حصے کی سالمیت، تحفظ اور دفاع، پاکستان کے خارجہ امور، امن عامہ اور رسل و رسائل کے امور سے متعلقہ معاملات میں گرفتار کئے گئے افراد کو تین ماہ تک مسلسل حبس بے جا میں رکھا جا سکے گا، اس مدت میں مزید توسیع بھی ہو سکے گی۔ گرفتاریوں کو پوشیدہ بھی رکھا جا سکتا ہے، غیر معینہ مدت تک غائب کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ ملک دشمن قرار دیئے گئے افراد کو کوئی قانونی تحفظ نہیں حاصل ہوگا۔ نقل و حرکت کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور تنظیم سازی کی آزادی صرف ان لوگوں کو حاصل ہو گی جنہیں ریاست یہ اجازت دے گی۔ نظریہ پاکستان کے خلاف کوئی سیاسی جماعت بنانے یا سیاسی سرگرمی کرنے پر پابندی ہو گی۔ گلگت بلتستان کی حکومت پاکستان کے وزیراعظم کی ہدایات کی پابند ہو گی۔ گلگت بلتستان کی اسمبلی میں خارجہ امور، دفاع، اندرونی سیکورٹی کے معاملات اور ججوں کے فیصلوں پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ قانون سازی کے تمام اختیارات پاکستان کے وزیراعظم کو حاصل ہوں گے اور اگر اسمبلی کوئی ایسا قانون بناتی ہے جس پر پاکستان کا وزیراعظم خوش نہیں تو اسمبلی کے قانون کے مقابلے میں پاکستانی وزیراعظم کا فیصلہ قانونی حیثیت کا حامل ہو گا اور گلگت بلتستان اسمبلی کا قانون کالعدم قرار پائے گا۔ وزیراعظم پاکستان ایمرجنسی کا نفاذ کسی بھی بنیاد پر کر سکتا ہے اوروزیراعظم کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ تھرڈ شیڈول میں باسٹھ شعبوں کا ذکر ہے جن پر قانون سازی کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو ہوگا۔ گلگت بلتستان اسمبلی جن شعبوں پر قانون سازی کر سکے گی ان پر قانون سازی کیلئے وزیراعظم پاکستان سے اجازت لینی ہوگی۔

حالیہ دہشت گردی کے واقعات کو جہاں قومی میڈیا پر سرسری سے جگہ مل سکی ہے وہاں گلگت بلتستان کے اخبارات نے بھی محض سرکاری سطح پر ہونیوالی بیان بازی اور اداریے میں سرسری جگہ دینے کے سوا اس اہم ترین مسئلے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ کمانڈر ٹین کور، چیف سیکرٹری، سیکرٹری داخلہ، ڈپٹی کمشنر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے روایتی انداز میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی بیان بازی کی جبکہ سکولوں کی سکیورٹی کو سخت کرنے سے متعلق اقدامات کا عندیہ بھی دیا گیا۔ اخبارات نے اداریوں میں دہشت گردی کی اس واردات کو سی پیک کے خلاف سازش قرار دیا اور بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے جیسے روایتی الفاظ کا ہی سہارا لیا گیا۔ تاہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کی سماجی بنیادوں اور پس پردہ حقائق کو سامنے لانے اور انکے تدارک کیلئے اقدامات سے ایک مرتبہ پھر صرف نظر کیا گیا ہے۔ جہاں ایک متنازعہ خطے سے پاک چین اقتصادی راہداری کے مرکزی راستے کو گزارے جانے کی وجہ سے بیرونی مداخلت کے عنصر کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا وہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کے سرکاری اقدامات اوروحشت کے اس کھیل کے پیچھے چھپی معاشی بنیادوں کو زیر بحث لایا جانا اور ان کے تدارک کیلئے اقدامات ہی وقت کی ضرورت ہیں۔ ماضی کے تمام تر تجربات کو سامنے رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ محض فوجی آپریشنوں کے ذریعے اس کا یکسر خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ریاستی پالیسی کے تحت جس عفریت کو اس خطے میں جنم دیکر پالا پوسا گیا تھا وہ عفریت اب پورے سماج میں سرائیت کر چکا ہے۔ اس کا خاتمہ سرمائے کی حاکمیت پر مبنی اس بوسیدہ سماج کو عوامی بغاوت کے ذریعے تبدیل کرنے سے ہی ممکن ہے۔