لال خان
عالمی سطح پر بدترین بحرانات اور انتشار کو دیکھ کر ایک ہی سوال ذہن میں ابھرتا ہے: کیا ہم ایک نئے ’تاریک عہد‘ (Dark age) کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ ماضی کے بھوت پھر سے منڈلا رہے ہیں۔ جن میں رجعتی رجحانات بھی ہیں اور انقلابی دھارے بھی۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کے بیچ ایک نئی عالمی جنگ کی قیاس آرائیاں تک ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف وسیع غربت، امارت اور غربت کی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی خلیج، محنت کشوں کی ادھوری ہڑتالیں اور احتجاج، روایتی سیاست کی ٹوٹ پھوٹ، نئی جماعتوں کا ابھار اور مزدور تحریک میں نئی صف بندیاں ہیں۔
عالمی طاقتوں کے درمیان بحیرہ جنوبی چین میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم سطحی قیاس آرائیوں کے برعکس فی الحال نہ تو چین اور نہ ہی امریکا جنگ کی طرف جانا چاہتا ہے۔ کم از کم مستقبل قریب میں تو نہیں۔ چین اپنی تمام تر عسکری تیاریوں کے باوجود امریکہ کیساتھ جنگ کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسی طرح امریکہ بھی چین کیساتھ کسی عسکری ٹکراؤ سے جنم لینے والے وسیع انتشار اور عدم استحکام کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔
ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد چین اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ ٹرمپ نے چین پر وسط مدتی انتخابات میں مداخلت کا الزام لگا دیا ہے۔ تائیوان، جسے چین ایک باغی صوبہ تصور کرتا ہے، کو 1.3اَرب ڈالر کا امریکی اسلحہ بیچنے کی منظوری نے چین کو بہت مشتعل کر دیا ہے۔ تجارتی جنگ میں ٹرمپ نے چین سے امریکہ آنے والی مزید 200اَرب ڈالر کی مصنوعات پر نئے ٹیرف لگا دئیے ہیں۔
چین نے بھی جوابی اقدامات کرتے ہوئے امریکی بحری جنگی جہاز کے ہانگ کانگ کی بندرگاہ کے طے شدہ دورے اور پھر چینی بحریہ کے سربراہ کی اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کو منسوخ کردیا ہے۔
اتوار 30 ستمبر کو بحیرہ جنوبی چین میں امریکی اور چینی جنگی جہاز ٹکراؤ سے بال بال بچ گئے۔ امریکی بحری جہاز ڈیکیٹر (Decatur) بحیرہ جنوبی چین میں دس گھنٹے کے گشت پر نکلا تھا۔ اس دوران وہ قصداً چین کے دعویٰ کردہ علاقے گیون اور جانسن ریف سے 12 ناٹیکل میل قریب پہنچ گیا۔ یہ متنازعہ جزیرے ہیں جن کے مختلف حصوں پر چین، تائیوان، ملائشیا، فلپائن اور ویتنام کی فوجیں قابض ہیں۔امریکی بحری بیڑے کے ترجمان نیٹ کرسٹنسن نے اس واقعہ پر چین کو مورد الزام ٹھہرایا: ’’30 ستمبر کو مقامی وقت کے مطابق 08:30 بجے عوامی جمہوریہ چین کی نیوی کا ڈسٹرائر لوینگ بحیرہ جنوبی چین میں گیون ریف کے گردو نواح میں یو ایس ایس ڈیکیٹر کی طرف غیر پیشہ ورانہ اور غیرمحفوظ انداز میں بڑھا ۔ اس نے متعدد جارحانہ اشارے دئیے اور علاقے سے نکل جانے کی وارننگ بھی دی۔ چینی نیوی کا ڈسٹرائر امریکی ڈیکیٹر سے 45 یارڈ کے فاصلے تک پہنچ گیا تھا جس کے بعد ڈیکیٹر نے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے اقدامات کیے۔‘‘
دوسری طرف چینی وزارت دفاع کے ترجمان وکیان نے کہا کہ چینی نیوی نے شناخت اور وارننگ کے لیے یہ سب کیا تھا:’’امریکہ متعدد بار ان جزائر اور ان سے ملحقہ پانیوں میں جنگی جہاز بھیجتا رہا ہے جس سے چین کی خودمختاری اور تحفظ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ چینی فوج پورے عزم سے اپنی دفاعی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور اپنی خودمختاری، علاقائی امن اور استحکام کو قائم رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔‘‘ چھ مہینے پہلے بھی اسی طرح کے ایک آپریشن میں تین امریکی جنگی جہاز متنازعہ پارسل جزائر کے قریب سے گزرے تھے۔
ٹرمپ کے تحت امریکہ کی ایسی حرکتوں سے 1930ء کی دہائی کی طرح عالمی معیشت کے متحارب تجارتی اور کرنسی بلاکوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اُس دور کی طرح آج کے تجارتی ٹیرف اور دیگر اقدامات بھی فوجی محاذآرائی کی تیاریوں سے منسلک ہیں۔ لیکن سامراجی طاقتوں کے درمیان مختلف خطوں میں جاری پراکسی جنگوں کے باوجود آج ان کے درمیان براہ راست عسکری تصادم کے امکانات بہت کم ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار ہیں جو دونوں طرف کچھ بھی باقی نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن امریکی سامراج‘ چین کے خلاف مسلسل جیو پولیٹیکل اور عسکری دباؤ بڑھا رہا ہے۔ 20 ستمبر کو واشنگٹن نے ایک چینی فوجی یونٹ اور اس کے ڈائریکٹر پر روسی ہتھیاروں کے ایک ایکسپورٹر سے فوجی سازوسامان خریدنے پر پابندیاں عائد کردیں۔ بیجنگ نے ردعمل میں تجارتی مذاکرات اور اپنے نائب وزیراعظم کا واشنگٹن دورہ منسوخ کردیا۔
نیویارک ٹائمز نے پچھلے اتوار کو رپورٹ دی کہ بیجنگ نے ’’اکتوبر کے وسط میں وزیردفاع جیمز میٹس کے ساتھ بیجنگ میں ایک اہم سالانہ سکیورٹی میٹنگ کو منسوخ کردیا ہے۔ وجہ یہ بتائی کہ چینی فوجی حکام ملاقات کے لیے دستیاب نہیں۔ یہ امریکہ اور چین کے درمیان سخت تناؤ کی ایک حالیہ مثال ہے۔‘‘ اس رپورٹ کے آنے کے ایک دن بعد ٹرمپ انتظامیہ نے بیجنگ کو ہی اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایک نامعلوم دفاعی اہلکار نے سی این بی سی نیٹ ورک سے کہا کہ پینٹاگان نے میٹس کو حکم دیا ہے کہ چین کے دورے کو منسوخ کر دے۔
یہ واقعات ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پاگل پن پر مبنی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں جسے اس نے پچھلے سال دسمبر میں اپنی انتظامیہ کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کے طور پر پیش کیا اور بعد میں جسے جیمز میٹس نے مزید وسیع کیا۔ ان دستاویزات میں امریکی سامراج کے چین اور روس کے ساتھ فوجی تصادم کی سرگرم تیاریوں کے خدوخال پیش کیے گئے ہیں تاکہ امریکہ کی عالمی بالادستی کو دوبارہ مضبوط کیا جاسکے۔ جیمز میٹس نے اعلان کیا ہے کہ ’’امریکی نیشنل سکیورٹی کی بنیادی توجہ اب دہشت گردی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں سے مقابلہ بازی ہے۔اگر آپ ہمیں للکاریں گے تو وہ آپ کا طویل ترین اور بد ترین دن ہوگا۔‘‘
لیکن یہ حالات سب سے بڑھ کر واضح کرتے ہیں عالمی سرمایہ داری کا بحران کس قدر گہرا ہے اور انسانیت کو کیسی تباہیوں سے دوچار کر سکتا ہے۔ لیکن ماضی کی سرد جنگ کے برعکس آج چین اور روس بھی امریکہ ہی کی طرح سرمایہ دارانہ ممالک ہیں۔ امریکی اور چینی معیشتیں اپنی ساخت، طریقہ کار اور حکمت عملی کے حوالے سے مختلف ہو سکتی ہیں لیکن آخری تجزئیے میں ہے دونوں طرف سرمایہ داری ہی۔ اگرچہ چین دنیا کی تیز ترین شرح نمو کی حامل اور امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔لیکن ایک نئی سرمایہ دارانہ طاقت اور دنیا کی پیداوار کی ورکشاپ کے طور پر چین کا ابھار خود سرمایہ داری کی زوال پذیری کے دور میں ہوا ہے۔ اس نظام کے دانشور اور ماہرین اس حقیقت کو بھی چھپا دیتے ہیں کہ چینی سرمایہ داری نے جن بنیادوں پر ترقی کی ہے وہ 1949-1978ء کے عرصے میں ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت نے تعمیر کی تھیں۔ مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اسی منصوبہ بند معیشت کے تحت تعمیر ہونے والے وسیع انفراسٹرکچر اور ہنرمند لیکن سستی لیبر کا استحصال کر کے اپنی شرح منافع میں اضافے کے لئے چین میں وسیع سرمایہ کاری کی۔ لیکن چین میں عوام کی بہت بڑی اکثریت آج بھی غریب اور محکوم ہے۔ دوسری طرف جدلیاتی طور پر چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور سستی لیبر والا یہی چین آج مغرب کے سامنے ایک معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں بالکل درست کہا ہے کہ ٹرمپ بحران کی وجہ نہیں بلکہ اس کی ایک علامت ہے۔ چین میں شی جن پنگ کا بے تحاشا جبر بھی دراصل چینی حکمرانوں کی اپنی گھبراہٹ کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم چین اور امریکہ کے حکمران طبقات اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے پر منحصر بھی ہیں۔ یہ تناؤ صرف منافعوں اور منڈی میں حصہ داری کی لڑائی کی وجہ سے ہے جو بحرانوں کے دوران اکثر بڑھ جاتی ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے محنت کش طبقات جبر و استحصال کا شکار ہیں۔ ان میں سے کسی بھی ملک میں انقلابی تبدیلی نسل انسان کے خوشحال اور پرامن مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے۔