لال خان
جنوب ایشیا میں افغانستان سے برما تک میں بظاہر جمہوری حکومتیں ہیں لیکن سرمائے کی حکمرانی کا یہ پرفریب لبادہ بھی اب تار تار ہوتا نظر آتا ہے۔ ان میں بیشتر نام نہاد جمہوری حکومتیں اب کھل کر آمرانہ روش پر اتر آئی ہیں۔ لیکن یہ بے سبب نہیں ہے۔ نہ ہی کسی موضوعی خواہش اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ بلکہ ان سماجوں کی تاخیرزدہ سرمایہ داری کے بحران کی شدت نے جس سماجی عدم استحکام اور انتشار کو شدید تر کر دیا ہے اس میں ریاستیں مسلسل دباؤ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بوکھلاہٹ میں اپنی سفاکی کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ جمہوریت کے مصنوعی ڈھانچوں میں سامراجی طاقتوں اور مقامی ریاستوں کے طاقتور حصوں کی مداخلت اور دھونس بڑھتی جاتی ہے۔
سری لنکا کو اس خطے میں زیادہ جمہوری ملک سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سماج اور سیاست میں بائیں بازو کا خاصا اثر و رسوخ رہا ہے جس کے تحت 1945ء سے قائم حکومتیں کسی حد تک سماجی ترقی پر توجہ دیا کرتی تھیں۔ سری لنکا میں سرمایہ داری کے خاتمے کی سوشلسٹ تحریکوں کی بھی تاریخ رہی ہے لیکن ان کے زائل ہونے کے بعد تامل ہندو اقلیت اور سنھالی بدھ مت اکثریت کے درمیان نسلی اور مذہبی تضادات نے پھٹ ملک کو ایک طویل خانہ جنگی میں ڈبوئے رکھا۔ 2009ء میں علیحدگی پسند ’تامل ٹائیگرز‘ کو کچل دیا گیا اور خانہ جنگی ایک پرتشدد انداز سے اپنے اختتام کو پہنچی۔ اگرچہ اس کے بعد بھی تامل اقلیت کے عام لوگ ریاستی جبر اور عتاب کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ تاہم بظاہر استحکام کے لوٹ آنے کے بعد پچھلے عرصے میں سری لنکا کا سیاسی بحران ایسی نہج کو پہنچ گیا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا گیا ہے۔
تقریباً تین سال سے جاری آئینی بحران اس وقت شدت اختیار کر گیا ہے جب تین دن قبل سری لنکا کے صدر ’ماتھری پالا سری سینا‘ نے پارلیمنٹ کو معطل اور وزیر اعظم ’رانل وکرما سنگھے‘ کو برطرف کردیا اور اس کی جگہ سابقہ صدر ماہندہ راجہ پکشا کو وزیر اعظم تعینات کردیا۔ لیکن وکرما سنگھے نے فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا او ر اس کو غیر قانونی قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے جس میں وہ اپنی اکثریت ثابت کرے گا۔ اس نے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ چھوڑنے سے بھی انکار کر دیا اور بیرونی سفارتکاروں خصوصاً برطانیہ اور امریکہ کے سفیروں نے اس سے ملاقات کی۔ جبکہ راجہ پکشا نے تنبیہ کی کہ اگر اتوار 28 اکتوبر تک اس نے سرکاری رہائش گاہ خالی نہ کی تو ’’عوام اس کو زبردستی نکال باہر کریں گے۔‘‘ یہ صورتحال خونریز بھی ہو سکتی ہے۔
صدر سری سینا کو پارلیمنٹ کے کل 225 ممبران کی اکثریت درکار ہے۔ لیکن راجہ پکشا کو ساتھ ملا کر بھی اس کو صرف 98 ارکان کی حمایت ملتی ہے۔ صدر سری سینا پہلے راجہ پکشا کی پارٹی میں تھا اور اس کی حکومت کا وزیر تھا لیکن 2015ء میں ان کی پھوٹ کے بعد وہ وکرما سنگھے کا اتحادی بن گیااور اس اتحاد نے معمولی اکثریت سے انتخابات جیت لیا تھا۔ لیکن راجہ پکشا پر جنگی جرائم ثابت کرنے اور دوسری اصلاحات میں یہ حکومت ناکام رہی۔ دوسری جانب بڑھتی ہوئی سماجی بدحالی اور معاشی بحران (جو سیاسی بحران کیساتھ گھمبیر ہو گیا ہے اور سری لنکا کا قرضہ خطے میں سب سے زیادہ ہے) نے حالات کو مزید دگرگوں کر دیا ہے۔
آئینی طور پر وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہے۔ صرف پارلیمانی اکثریت ایسا کرسکتی ہے۔ لیکن اس بحران کی بڑی وجہ بیرونی طاقتوں بالخصوص بھارت اور چین کی سری لنکا میں مداخلت اور مفادات کی جنگ ہے۔ ماضی میں بھارتی اثر و رسوخ والے سری لنکا میں پچھلی تقریباً ایک دہائی سے چین نے بڑی سرائیت کی ہے۔ چین کے سفیر نے راجہ پکشا اور وکرما سنگھے سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ راجہ پکشا کی حکومت کے دوران چین نے سری لنکا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس میں خصوصی اہمیت کی حامل سری لنکا کی ہمبن توتا (Humbantota) بندر گاہ تھی جس میں چین نے سرمایہ کاری کی تھی اور چینی کمپنیوں نے راجہ پکشا کو مبینہ طور پر بھاری کمیشن دیا تھا۔ لیکن یہ بندر گاہ چل نہیں سکی اور چین سے کچھ قرض کی معافی کے عوض اسے 99 سال کی لیز پر چین کو دے دیا گیا۔ اس واقعے سے کچھ ہفتے پہلے راجہ پکشا نے بھارت کا دورہ بھی کیا تھا اور نریندرا مودی سے تفصیلی مذاکرات ہوئے تھے۔ چین کے سری لنکا پر بڑھتے ہوئے اثرورسوخ، جسے ’ڈیٹ ٹریپ‘ قرار دیا جا رہا ہے، سے بھارتی حکمران خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
لیکن سری لنکا میں محنت کش طبقے کی جدوجہد اور بائیں بازو کی سیاست کا ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ یہاں 1931ء میں بائیں بازو کی سیاست تیزی سے ابھری۔ اس وقت سری لنکا ایک برطانوی کالونی تھا۔ 1980ء تک اس کا نام سیلون تھا۔ یہاں نسبتاً کم صنعتی مزدوروں والے شہری علاقوں اور وسیع تعداد میں مزدوروں والے دیہی علاقوں (جن کا بڑا حصہ چائے کے باغات میں کام کرتا تھا) کا اہم کردار رہا ہے۔ اس تحریک میں دو بڑی پارٹیاں ابھر کر سامنے آئی تھیں۔ ان میں ٹراٹسکائیٹ رجحان والی لنکا سما سماجا پارٹی (LSSP) اور کمیونسٹ پارٹی آف سری لنکا مقبول پارٹیاں رہی ہیں۔ ہندوستان کی بڑی کمیونسٹ پارٹیوں کے برعکس لنکا سما سماجا پارٹی روس نواز یا چین نواز نہیں تھی بلکہ اس نے ایک خود مختار مارکسی پوزیشن پر 1936ء میں کام شروع کیا تھا۔ ’آزادی ‘ کے بعد کے انتخابات میں وہ صرف ایک سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے 1945ء کی حکومت نہیں بنا سکی۔ لیکن بائیں بازو کے دباؤ کی وجہ سے ملک کا نام سوشلسٹ ریپبلک رکھا گیا۔ بہت سی اصلاحات بالخصوص صحت اور تعلیم کے شعبے میں ہوئیں اور بائیں بازو کی جدوجہد کی وجہ سے آج بھی سری لنکا میں شرح خواندگی 92 فیصد ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ جب پارلیمانی جدوجہد میں ناکامی ہوئی ( جو ناگزیر تھا) تو پھر طبقاتی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا گیا۔ ہڑتالوں کے طریقے اپنائے گئے۔ سری لنکا میں 1980ء کی ہڑتال تاریخی اہمیت کی حامل تھی جس میں پورا ملک جام ہوچکا تھا۔ طاقت کا توازن ’LSSP‘ کے حق میں تھا۔ اس موقع پر نسبتاً پرامن طور سے سوشلسٹ انقلاب ممکن تھا۔ لیکن قیادت کی بھیانک غلطیوں اور جرائم سے یہ انقلاب ضائع ہوگیا۔ جس سے مزدورتحریک پسپا ہوئی اور اور بائیں بازو کی ٹھوٹ پھوٹ سے اتنی بڑی طاقت منتشر ہوگئی۔ بندرا نائیکے کی پاپولسٹ حکومتوں نے بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی کوشش کی لیکن اس کی گنجائش نظام میں نہیں تھی۔ جیسا کہ ہوتا ہے کہ بائیں بازو کی ناکامی سے دائیں بازو اور رجعت کی راہ ہموار ہوئی۔ لسانی اور مذہبی تعصبا ت ایک خونریز اور طویل خانہ جنگی میں پھٹ پڑے۔ یہ تقریباً دو دہائیاں جاری رہی ۔ بائیں بازو کے رہنماؤں اور کارکنان کی بڑی تعداد بھی اپنی سیاسی تربیت اور ساکھ کو استعمال کرتے ہوئے دائیں بازو کی سیاست میں جگہ بنانے لگی۔ اس وقت مروجہ پارٹیوں میں سابقہ بائیں بازو کے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ لیکن اس مکروہ مصالحت نے سری لنکا کے پورے سماج کو انتشار اور گراوٹ میں دھکیل دیا ہے۔ بھارتی، امریکی اور چینی سامراجوں کا تصادم ملک کو تاراج کررہا ہیں۔ عوام سے سہولیات اور بچی کھچی مراعات چھینی جا رہی ہیں۔ مزدوروں کو کچلا جا رہا ہے اور غربت بڑھ رہی ہے۔ معاشرے میں موجود ترقی پسندانہ رحجانات کو بھی اب رجعت پامال کر رہی ہے۔اِس پورے خطے کی طرح سری لنکا کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے پاس بھی بہتری کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن سری لنکا کے عوام کی نجات کے لئے درکار انقلاب کا مقدر بھی برصغیر کے باقی ممالک کے محنت کشوں سے منسلک ہے۔
آج بظاہر پورے خطے میں رجعت حاوی ہے لیکن یہ اندر سے کھوکھلی ہے۔ اس جبر سے ناگزیر طور پر نئی عوامی بغاوتیں جنم لیں گی۔ جن کے راستے اور نظریاتی سمت کے تعین میں سری لنکا کے بائیں بازو کے تاریخی تجربات کلیدی کردار ادا کریں گے۔