راہول

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (Brexit) کے معاملے نے شدید سیاسی بحران پیدا کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے خاصی مشکلا ت میں گھرچکی ہے۔ 2016ء کے ریفرنڈم، جس میں برطانوی عوام کی اکثریت (تقریباً 52 فیصد) نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا تھا، کو ڈھائی سال مکمل ہوچکے لیکن اس کے باوجود بھی برطانوی حکومت یورپی یونین سے علیحدگی کے بارے میں کوئی معاہدہ کرنے میں ناکام رہی۔ اب جبکہ علیحدگی کا وقت (اگلے سال 29 مارچ رات 11 بجے) بالکل نزدیک آپہنچا ہے تو تھریسا مے انتظامیہ نے عجلت میں یورپی یونین سے علیحدگی اور آئندہ کے تعلقات کے بارے میں ایک خاکہ تیار کیا ہے جسے یورپی یونین کے دیگر ستائیس ممالک نے پچیس نومبر کو برسلز (بیلجیئم) میں ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں تسلیم کرتے ہوئے منظوری دے دی ہے۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے اس معاہدے کے تحت عبوری عرصے یعنی 2020ء کے آخر تک برطانیہ یورپی یونین کی داخلی منڈی اور کسٹم یونین کا حصہ رہے گا۔ عبوری مدت کے بعد یورپی یونین اور برطانیہ کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جائے گی جو حتمی معاہدے کی نگرانی کرے گی اور باہمی رضامندی سے اسی معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مزید فیصلے کیے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ اس معاہدے کی رو سے یورپی یونین کے رکن ممالک اور برطانیہ کے شہریوں کے حقوق کو تحفظ دیا جائے گا، مالیاتی مسائل کو حل کیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی درمیان سرحد سے متعلق معاملات کو حتمی شکل دینا بھی اس معاہدہ کا حصہ ہے۔

اگر قانونی پیچیدگیوں سے قطع نظر اس معاہدے پر تبصرہ کیا جائے تو یہ ایک طرح کا ’سافٹ بریگزٹ‘ ہے جسے برائے نام بریگزٹ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ معاہدے کے تحت معاملات کو ٹالا ہی گیا ہے اور کوشش یہی کی گئی ہے کہ فی الوقت معاملات جس طرح چل رہے ہیں اسی طرح چلتے رہنے دئیے جائیں۔ برطانیہ کے بڑے سرمایہ داروں اور بینکاروں کے مفادات اسی قسم کے ’بریگزٹ‘ سے وابستہ ہیں جس کی نمائندگی تھریسا مے کر رہی ہے۔

یورپی یونین کی جانب سے ڈیل کو منظوری دی جاچکی ہے لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے تھریسامے کو اب برطانوی پارلیمان سے منظوری درکار ہے جس میں اسے شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس سے قبل اپنی کابینہ سے بھی تھریسا مے نے اِس معاہدے کی منظوری بڑی مشکل سے لی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ زبردستی لی تھی۔ کابینہ کے دو ارکان نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا اس معاہدے کے تحت برطانیہ یورپی یونین کے کنٹرول میں ہی رہے گا اور یہ صحیح معنوں میں بریگزٹ نہیں بلکہ دھوکہ ہوگا۔ اب پارلیمنٹ میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ تھریسا مے کی دائیں بازو کی ٹوری پارٹی کے بہت سے زیادہ قدامت پسند اراکین بھی اس معاہدے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اس معاہدے پر ووٹنگ 11 دسمبر کو متوقع ہے جس میں اس کی توثیق کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس ساری صورتحال میں اگر وزیر اعظم اپنی شدید بحران کا شکار پارٹی میں موجود پھوٹ پر قابو پا بھی لیتی ہے تب بھی پارلیمنٹ سے منظوری بہت مشکل نظر آتی ہے۔ لیبر پارٹی کے علاوہ ڈی یو پی، ایس این پی اور لبرل ڈیموکریٹس کی جانب سے بھی پارلیمان میں معاہدے کے خلاف ووٹ آنے کی توقع ہے۔ لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کاربن نے اِس معاہدے کو ایک بیہودہ مذاق اور بکواس قرار دیا ہے جس سے ’’کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔‘‘

فی الوقت شدید تناؤمیں جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے کئی روز سے تھریسا مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کی باتیں بھی زور پکڑ رہی ہیں لیکن تھریسامے کے مطابق اگر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا تو برطانیہ کے یورپی یونین سے ’’نکلنے‘‘ کے عمل میں تاخیر ہو سکتی ہے یا پھر برطانیہ کو کسی معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وزیراعظم تھریسا مے نے ایسی کوئی ضمانت دینے سے بھی انکار کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل کی عدم منظوری کی صورت میں مستعفی ہو سکتی ہے۔ بقول تھریسا مے وہ اِس وقت اپنے بارے میں نہیں سوچ رہی بلکہ ’’ملک کے مستقبل‘‘ کے بارے میں فکر مند ہے۔ لیکن تھریسا مے کو فارغ کیے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ اِس صورت میں ٹوری پارٹی کی پوری حکومت ہی دھڑام ہو سکتی ہے کیونکہ اتحادی جماعتوں کے دور ہو جانے کے بعد اس کے پاس مطلوبہ اکثریت باقی نہیں رہے گی۔ یوں واحد راستہ نئے انتخابات کا بچے گا جن میں جیرمی کاربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کے برسراقتدار آنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔

بریگزٹ اپنے آغاز ہی سے یورپی اور برطانوی سرمایہ داروں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں تھی اور وہ اس ریفرنڈم کے غیر متوقع نتائج آنے کے بعد سے اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ کی کوششوں میں سرگرم تھے۔ برطانوی سرمایہ داروں کے لئے یورپ ایک بنیادی منڈی کی حیثیت رکھتاہے اور یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانوی سرمایہ داروں کے لئے یورپی منڈی بہت محدود ہو جائے گی کیونکہ ان کے برآمدات پر محصولات عائد ہونے لگیں گی۔ یہ رکاوٹیں برطانوی کاروباروں کو شدید نقصان پہنچائیں گی اور بڑے معاشی بحران کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ ایسے میں تھریسا مے دراصل برطانوی سرمایہ داروں کی ان تکالیف کو کم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے جس سے بریگزٹ کے حامی قدامت پرست رجحانات خوش نہیں ہیں۔ اگر تھریسا مے کو عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا جاتا ہے تو ٹوری پارٹی کے پاس وزارت عظمیٰ کے لئے کوئی متفقہ امیدوار موجود نہیں جس سے نہ صرف ٹوری پارٹی بلکہ برطانوی سیاست کا بحران شدت اختیار کرے گا۔ جیرمی کاربن پہلے ہی اشارہ دے چکا ہے کہ اگر یہ مجوزہ معاہدہ پارلیمان سے رد ہوتا ہے تو لیبر پارٹی قبل از وقت انتخابات کی کال دے گی۔ اس ادھورے معاہدے کی کیفیت میں اگر لیبر پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو شاید انہیں بریگزٹ پر دوبارہ ریفرنڈم کروانا پڑے گا۔ لیکن اگر کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو پاتا تو برطانیہ کو یورپی یونین سے بنا کسی معاہدے کے علیحدگی اختیار کرنی پڑ سکتی ہے جو ایک کریش لینڈنگ سے مماثل ہو گی جسے ’ہارڈ بریگزٹ‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس صورت میں خود برطانوی یونین کے اندر پھوٹ گہری ہو سکتی ہے جو برطانیہ کے ٹوٹنے پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ شمالی آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں اکثریتی آبادی یورپی یونین میں رہنے کی حامی ہے۔ بریگزٹ کی صورت میں جمہوریہ آئر لینڈ (جو ایک الگ ملک ہے) اور شمالی آئر لینڈ (جو برطانیہ کا حصہ ہے) کے درمیان سرحدوں کی نوعیت کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ فوری طور پر اس مسئلے کا حل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے شمالی آئر لینڈ یورپ کی کسٹم یونین میں شامل رہے گا اور جمہوریہ آئرلینڈ کیساتھ اس کی سرحد اِسی طرح مبہم رہے گی۔ لیکن یورپ سے علیحدگی کے حامیوں کا اصرار ہے کہ یہ انتظام محدود عرصے کے لئے ہونا چاہیے جبکہ یورپی یونین غیر معینہ عرصے پر اصرار کر رہی ہے۔ ایسے میں سکاٹ لینڈ کے لوگوں کااصرار ہے کہ شمالی آئرلینڈ کے ساتھ جو ترجیح برتی جارہی ہے وہ سکاٹ لینڈ سے نا انصافی ہے۔ یہ صورت حال برطانیہ کے اتحاد کے لئے کافی خطرناک ہے۔ یاد رہے کہ 2014ء کے سکاٹش ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ‘ برطانیہ سے علیحدگی سے بال بال بچا تھا اور 44 فیصد لوگوں نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اب جبکہ سکاٹ لینڈ کی اکثریت یورپی یونین میں رہنا چاہتی ہے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کی نئی تحریک کو جنم دے سکتی ہے۔ اسی قسم کی صورتحال شمالی آئر لینڈ میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

عالمی مالیاتی بحران کے آغاز کے بعد ایک دہائی گزرنے کے باوجود پوری دنیا میں سیاسی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے جو مختلف شکلیں اختیار کر رہی ہے۔ ایسے میں برطانیہ میںیہ صورتحال زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ شدت اختیار کرتا یہ سیاسی بحران اور معاشی گراوٹ آنے والے دنوں میں بھی کئی دھماکہ خیز واقعات کو جنم دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ روایتی پارٹیاں زوال پذیری کا شکا ر ہیں اور عوام میں اپنی ساکھ کھوتی جا رہی ہیں۔ ٹوری پارٹی پر عملی طور پر غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والی یوکے آئی پی نے قبضہ کر لیا ہے اور حالیہ عرصے میں اس کی داخلی تقسیم اور بحران شدید تر ہو گیا ہے۔

ایسے میں جیرمی کاربن کی قیادت میں لیبر پارٹی ماضی میں غیر اہم بنادئیے گئے بائیں بازو کی حمایت میں پارٹی میں شامل ہونے یا لوٹنے والے لاکھوں اراکین کی شمولیت سے تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ لیکن پارلیمانی لیبر پارٹی میں کوربن کے دائیں بازو کے دشمن ابھی تک موجود ہیں اور گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ سال قبل تک جیرمی کوربن کو تضحیک آمیز القابات سے نوازنے والے اب برطانیہ کے مستقبل کے متوقع وزیر اعظم کی چاپلوسی بھی کرتے پھر رہے ہیں۔ لیکن ان سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ٹونی بلیئر کی اِن باقیات کے ساتھ ایک سپلٹ ناگزیر ہے جس کے لئے کوربن کو جرات کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کی کمپئین انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست اور رجعتی پارٹیوں کی جانب سے چلائی گئی تھی۔ لیکن عوام کی اکثریت کی جانب سے علیحدگی کے حق میں دئیے جانے والے ووٹ کو کئی زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر عمر کے لحاظ سے ووٹ ڈالنے والوں کی تقسیم کی جائے تو دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں۔ مثلاً نوجوانوں کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔ عمر کے ساتھ یورپی یونین سے علیحدگی کے ووٹ کی شرح بڑھتی چلی گئی۔ 18۔ 44 سال کے افراد کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے جبکہ 45۔ 65 سال اور اس سے اوپر کے افراد کی اکثریت نے علیحدگی کے لئے ووٹ دیا۔ یہاں یورپی یونین سے پہلے کے پرانے اور ’اچھے‘ دنوں میں لوٹ جانے کی خواہش صاف نظر آتی ہے۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد کئی دہائیوں تک چلنے والا سرمایہ دارانہ معیشت کے عروج کا دور جن مخصوص عوامل کا نتیجہ تھا وہ نہ تو دوبارہ پیدا ہو سکتے ہیں نہ ہی سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کے اس عہد میں یورپی یونین کے اندر یا باہر ’اچھے دنوں‘ کی طرف لوٹا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں نے واضح طور پر قوم پرستی اور تارکین وطن کی مخالفت کی زہریلی بنیادوں پر چلائی جانے والی علیحدگی کی مہم کو مسترد کیا تھا۔ بحیثیت مجموعی علیحدگی کو ملنے والا ووٹ سماج میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ’سٹیٹس کو‘ سے بیزاری، بالادست اداروں پر عدم اطمینان اور بے چینی کا اظہار تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ بائیں بازو کی طرف سے کسی ٹھوس، واضح اور انقلابی متبادل کی عدم فراہمی کا نتیجہ تھا۔

یہ درست ہے کہ یورپی یونین سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حکمرانوں کے ’اتحاد‘ کا ادارہ ہے اور اس میں رہنے یا اسے چھوڑنے کا سوال بھی آخری تجزئیے میں حکمران طبقات کے دو دھڑوں کا آپسی تضاد ہے۔ لیکن قوم پرستی اور لسانیت کو ہوا دینے اور قومی سرحدوں کو گہرا کرنے والا ہر اقدام رجعتی ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ محنت کش تجربات سے سیکھتے ہیں اور نتائج اخذ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ان کا شعور اور تحریک بھی کبھی سیدھی لکیر پر سفر نہیں کرتے۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی معاشی زوال پذیری، آسٹیریٹی، محنت کشوں اور نوجوانوں کے معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ اور بیروزگاری جیسے مسائل کا حل نہیں ہے۔ اُلٹا اس سے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف برطانیہ سمیت پورے یورپ میں جدوجہد کو تیز کرتے ہوئے متحدہ یورپ کی سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ مستقبل قریب میں نظام کی بنیادوں کو ہلا دینے والے واقعات برطانوی سماج کی کوکھ میں پک کے تیار ہو رہے ہیں۔