راہول
گزشتہ سترہ سالوں سے افغانستان سمیت پورے خطے میں بربادی اور عدم استحکام پھیلانے کے بعد امریکی سامراج اور طالبان کے درمیان ’امن مذاکرات‘ اور ’جنگ بندی‘ کی خبریں آج بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ دوحہ (قطر) میں چھ روز تک جاری رہنے والے امریکہ طالبان مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر تو نہیں پہنچ سکے البتہ انہیں آج تک کی سب سے ’خاطرخواہ پیشرفت‘ کہا جارہا ہے۔ اِس کے ایک ہفتے بعد ماسکو میں طالبان اور حامد کرزئی کی قیادت میں نام نہاد ’افغان اپوزیشن‘ کے درمیان مذاکرات کا دور چلا۔ اِس میٹنگ کو منعقد کروا کے جہاں روس نے واضح پیغام دیا کہ وہ آج بھی افغانستان میں اہم کھلاڑی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہیں طالبان نے بھی واضح کیا کہ وہ اب ’شدت پسندی‘ سے ’اعتدال پسندی‘ کی طرف آ چکے ہیں اور ماضی کی سخت گیر پالیسیوں کو ترک کر چکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ اب ’پریکٹیکل‘ ہو چکے ہیں۔ ماسکو اجلاس کے تقریباً دو ہفتے بعد اب 18 فروری کو اسلام آباد میں امریکہ طالبان مذاکرات کا ایک نیا دور ہونے جا رہا ہے۔ یوں تنازعے میں ملوث تمام علاقائی و عالمی کھلاڑی اپنے اپنے داؤ پیچ لگا رہے ہیں۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ’زلمے خلیل زاد ‘ نے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے نیو یارک ٹائمز کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ان کے پاس ایک مجوزہ معاہدہ موجود ہے جس کے تحت طالبان کو عہد کرنا ہو گا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو شدت پسندی کے گڑھ کے طور پر استعمال ہونے سے روکیں گے جبکہ بدلے میں افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کو یقینی بنایا جائے گا۔‘‘ زلمے کے مطابق طالبان نے القاعدہ جیسے شدت پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ دینے کا عہد کیا ہے اور وہ (طالبان) افغانستان کو بین الاقوامی شدت پسندوں کے لیے پلیٹ فارم بننے سے روکنے کے لیے ہر ضروری اقدام کرنے کے لئے راضی ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان ’سہیل شاہین‘ نے ان مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے بی بی سی سے بات چیت میں کہا ہے کہ ’’امریکہ کے افغانستان سے انخلا اور افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے پر بات ہوئی ہے اور اس پر اصولی طورپر دونوں جانب سے اتفاق بھی ہوچکا ہے۔‘‘ ان کے مطابق اس ضمن میں دو ورکنگ گروپس بھی بنائے گئے ہیں جو آنے والے دنوں میں اس پر بات کرینگے اور پیش رفت کا جائزہ لینگے۔ طالبان کے سابقہ اہلکار اور اعلیٰ امن کونسل کے ممبر ’عبدالحکیم مجاہد‘ ان مذاکرات کو دونوں فریقین کے درمیان اچھا عمل سمجھتے ہیں مگر ان کے مطابق مزید بات چیت ابھی ہونی باقی ہے۔
قطر میں ہوئے ان حالیہ مذاکرات میں دو اور اہم معاملات کو بھی زیر بحث لایا گیا جس میں ’جنگ بندی‘ اور اشرف غنی کی حکومت کیساتھ طالبان کی بات چیت شامل تھی۔ اشرف غنی کے اقتدار میں آنے سے لیکر اب تک طالبان‘ افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلی گردانتے ہوئے ان کے ساتھ کسی صورت میں بات چیت سے انکاری رہے ہیں جبکہ جنگ بندی کے حوالے سے بھی وہ افغان حکومت کے ساتھ کسی قسم کی رعایت برتنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ دونوں وہ اہم معاملات ہیں جن پر مذاکرات کے آغاز سے لیکر ہی طالبان کسی طور پر بھی اتفاق کرنے کو راضی نہیں تھے اور حالیہ میٹنگ میں بھی عین ممکن ہے کہ یہی وہ نکتے رہے ہوں جن پر دونوں فریقین کا اتفاق نہ ہونے پر ہی ان مذاکرات کو فروری تک معطل کردیا گیا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’’پاکستان ہی وہ قوت ہے جو افغان طالبان اورامریکا کوایک میز پرلے آئی ہے۔‘‘ موصوف کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا قطر کا دورہ ’مفید‘ ثابت ہوا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان نے افغان امن مذاکرات میں مدد کا وعدہ کیا تھا جسے وہ پورا کرچکے ہیں اور اب وہ افغانستان کے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے بیشتر ’یو ٹرن‘ لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے لیکن اس عمل میں اہم تبدیلی کچھ ماہ قبل زلمے خلیل کے صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر برائے افغان امور بننے کے بعد آئی۔ یہ درست ہے کہ افغان طالبان، جن پر پاکستانی ریاست کے گہرے اثر و رسوخ کا عام تاثر پایا جاتا ہے، کیساتھ امریکہ کی ڈیل کروانے کی کوشش میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ ایسی کسی سودے بازی میں ظاہر ہے پاکستانی ریاست کے پالیسی ساز اپنے اسٹریٹجک اور مالیاتی مفادات کے مطابق چالبازی کریں گے۔ علاوہ ازیں ان مذاکرات میں ’تعاون‘ پاکستانی معیشت کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کا تقاضا بھی ہے۔ اسی لئے حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مالیاتی ’پیکیج‘ بھی ملے ہیں اور اب آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی کی امیدیں بھی ظاہر کی جا رہی ہیں۔ یوں ہر فریق کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔ امریکی افغانستان کی دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں جبکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے۔ طالبان بھی افغانستان کے سرکاری معاملات میں باضابطہ اور باقاعدہ حصہ داری چاہتے ہیں اور اِس حوالے سے اپنے ماضی کے سخت گیر موقف کو خاصا نرم کر چکے ہیں۔ لیکن مذاکرات کا یہ ’کامیاب‘ آغاز کسی طور بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ یہ کامیاب ہوں اور مذکورہ فریقین کے لئے قابل قبول نتائج پر منتج ہو سکیں۔ کیونکہ افغانستان کا مسئلہ خاصا الجھا ہواہے جس میں ہندوستان اور چین سمیت کئی دوسری داخلی و خارجی طاقتیں بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں یہ مذاکرات طالبان کے کچھ گروہوں سے ہی کیے جا رہے ہیں۔ جو طاقتور اور حاوی ہونے کے باوجود سارے ’’طالبان‘‘ کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ اس کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوحہ میں جب یہ مذاکرات جاری تھے تو اسی دوران کابل کے جنوب مغرب میں ایک فوجی بیس پر ’’طالبان‘‘ ہی کی جانب سے حملہ کیا گیا جس میں ایک سو سے زائد افغان فوجی ہلاک ہوگئے۔ اس سے قبل ایک کار بم دھماکے میں آٹھ فوجی ہلاک اور دس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ماضی میں بھی ایسے ’’مذاکرات‘‘ کے دوران یہ خونریزیاں جاری رہی ہیں جو طالبان کے ایک اکائی نہ ہونے کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔ منشیات اور دوسرے کالے دھندوں سے وابستہ مختلف جنگجو گروہ مختلف علاقائی اور عالمی طاقتوں کی پراکسیوں کے طور پہ متضاد نوعیت کی حکمت عملی اپناتے ہیں۔
شام سے فوجی انخلا کے فیصلے سمیت طالبان سے یہ مذاکرات دراصل امریکی سامراج کا اعتراف شکست ہے۔ اس نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے آغاز سے لیکر اب تک سامراجی جارحیت نے پہلے سے برباد افغانستان کومزید برباد اور تاراج ہی کیا ہے۔ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہی ہوئی ہے۔ اِس خونی کھیل کے کھلاڑی بڑھتے ہی گئے ہیں۔ براؤن یونیورسٹی کے ویٹسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی تازہ رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد سے ان جنگوں پر اس وقت تک امریکہ نے تقریباً 5.9 ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ چار لاکھ اسی ہزار لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2009 ء کے بعد سے ہر سال چھ سے نو ہزار کے درمیان عام شہری اس جنگ کے نتیجے میں مارے گئے ہیں جبکہ افغان صدر اشرف غنی کے مطابق تقریباً 45000 افغان فوجی صرف 2014 ء سے اب تک مارے جاچکے ہیں۔ اس قتل و غارت کی ہولناکی کا یہ عالم ہے کہ کابل میں سرائے شمالی کے بازار میں سب سے منافع بخش کاروبار آج کفن دفن کے سامان کی دکانوں کا ہے!
اتنی بربادی اور تباہی پھیلانے کے بعد یہ ’’مذاکرات‘‘ کروڑوں متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ بی بی سی کے دفاع اور سفارتی امور کے نامہ نگار جوناتھن مارکس کے مطابق ’’حالیہ مذاکرات میں طالبان ایک قدرے مستحکم پوزیشن سے بات کر رہے ہیں۔‘‘ ایسے میں عین ممکن ہے کہ طالبان اس قدر کمزور امریکی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ شرائط منوانے میں کامیاب ہوجائیں جن سے ماضی میں امریکی سامراج انکاری رہا ہے۔ لیکن ایک بار پھر یہ کسی امن اور استحکام کی ضمانت نہیں ہو گی۔
درحقیقت امریکہ کی افغان پالیسی آج مکمل طور پرناکام ہوچکی ہے اور چین و ہندوستان سمیت دیگر قوتیں اس کھیل کا حصہ بن چکی ہیں۔ اگرچہ چینی سامراج عسکری طور پر مداخلت کرنے سے کترا رہا ہے لیکن انہوں نے کاپر، تیل، گیس اور دوسرے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ طالبان کے کئی بااثر گروہ آج چین کے قابو میں ہیں۔ اسی طرح ہندوستان بھی یہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں حصہ لے رہا ہے اوراس کی مداخلت یہاں مزید تنازعوں کو ہوا دے رہی ہے۔ اپنے کاروباری مفادات کے علاوہ بھارتی ریاست یہاں پاکستانی ریاست کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ اسی طرح یورپی مداخلت کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بھی شدید پراکسی جنگ چل رہی ہے۔ افغانستان کے اس منظرنامے میں اتنے اسٹیک ہولڈرز کی موجودگی میں نہ تو جنگ اور نہ مذاکراتی عمل کے ذریعے یہاں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
پچھلے سترہ سالوں میں اس گورکھ دھندے میں مالیاتی اور جیو اسٹریٹجک مفادات کے لیے سامراجی طاقتوں کی سرمایہ کاری جتنی بڑھی ہے اتنے ہی طالبان کے نئے گروہ بنے ہیں۔ ان کی کوئی یکجا شکل نہیں ہے۔ امریکی انخلا کے بعد یہاں پیدا ہونے والے خلا کو پرُ کرنے کے لئے مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہوگا۔ امریکہ کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود بھی افغان حکومت انتہائی کھوکھلی، کمزور اور کرپٹ ہے اور افغانستان کا خاطر خواہ حصہ طالبان گروہوں کے زیر انتظام ہے۔ لیکن یہ شدت پسند گروہ بھی آج اس کیفیت میں نہیں رہے کہ مکمل اقتدارحاصل کر سکیں۔ القاعدہ بھی اب محض ماضی کی پرچھائی بن چکی ہے۔ نام نہاد ’’داعش‘‘ بعض علاقوں میں پنپ رہی ہے لیکن کابل حکومت کی بجائے طالبان اس سے نبرد آزما ہیں اور انہیں یقین ہے کہ امریکہ کے پیچھے ہٹ جانے کی صورت میں وہ ایک ماہ میں افغانستان سے داعش کا مکمل صفایا کرسکتے ہیں۔ افغان طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی اردوکو دیئے ایک انٹرویو میں الزام لگایا ہے کہ داعش کو افغان حکومت اور امریکہ کی مدد اور حمایت حاصل ہے۔ ان کے بقول افغانستان میں داعش کبھی بھی کوئی بڑی قوت نہیں رہی ہے اور وہ حال ہی میں افغانستان کے شمال سے ان کا خاتمہ کررہے تھے لیکن امریکہ اور افغان حکومت ان کو دوسری جگہوں پر لے گئے اور ان کو ایک مرتبہ پھر سے زندہ کردیا۔ یوں امریکی سامراج نے ڈالر جہاد سے لیکر آج تک کتنے ہی ایسے گروہوں کو جنم دیا ہے جو آج مناسب قیمت نہ ملنے پر اپنے مالکوں ہی سے برسرپیکار ہیں۔
ٹرمپ نے چاہے گزشتہ ماہ داعش پر اپنی ’’فتح‘‘ کا اعلان کردیا ہومگر نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ’ڈینیل کوسٹ‘ نے آگاہ کیا ہے کہ نہ تو داعش اور نہ ہی طالبان کو شکست ہوسکی ہے۔ ان کے مطابق داعش نے محض اپنے ’’خلیفہ‘‘ کھوئے ہیں لیکن آج بھی عراق اور شام میں ان کے ہزاروں جنگجو موجود ہیں جبکہ ان کی آٹھ شاخیں اور درجنوں نیٹورک ہونے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ہزاروں حمایتی پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح طالبان کے معاملے میں یہ صورتحال مزید تشویش ناک ہے۔ طالبان آج 44 فیصد افغانستان کنٹرول کرتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق 2014ء میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے طالبان کی طاقت اور کمک میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک افغان جنرل کے مطابق اس وقت 77 ہزار طالبان جنگجو افغان حکومت کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ ایک ایسی نازک صورتحال میں جہاں یہ شدت پسند گروہ کرائے پر کسی بھی قوت کے مفادات کے لئے آسانی سے دستیاب ہوں‘ افغانستان میں کسی امن کی توقع کم ہی ہے۔
لیکن افغانستان کے غریب اور تباہ حال عوام مزید کتنی بربادی برداشت کریں گے؟ یہ سامراجی قوتیں اور ان کے پراکسی گروہ افغانستان کو نوچ رہے ہیں۔ اس ہوس، لوٹ مار اور جبر کے نظام میں کالے دھن پر پلنے والے مذہبی دہشت گرد گروہوں کی وحشت اور علاقائی و عالمی سامراجی طاقتوں کی خونی چپقلش میں افغانستان کے غریب عوام ہی کچلے جا رہے ہیں۔ ہر جنگ اور ہر مذاکرات سے مزید تباہی جنم لیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستیں جبلی طور پر توسیع پسند ہوتی ہیں۔ ان کے اتحاد مالیاتی مفادات کی خاطر بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن افغانستان کے لوگوں کا مقدر یہ بربادیاں اور آفتیں نہیں ہیں۔ اُنہیں اپنی تقدیریں اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے اِس جبر و استحصال کے خلاف اٹھنا ہوگا۔ بنیاد پرستوں، سامراجیوں اور جابر ریاستوں کے ظلم کے خلاف طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی اِس خطے کے باسی اپنی قومی، طبقاتی اور معاشی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ 1978ء کے ثور انقلاب نے یہ ثابت کیا تھاکہ ان خطوں کو پسماندگی کی دلدل سے نکال کے جدید‘ ترقی یافتہ معاشروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ آج ایک بار پھر ان انقلابی روایات کو دہراتے ہوئے اُس سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد تیز کرنا ہوگی جو جنوب ایشیا کی رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم کر کے یہاں کے لوگوں کا مقدر بدل دے۔