لال خان
1947ء کے خونی بٹوارے کے وقت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جارحانہ تناؤ کا تسلسل یہاں کے محکوم عوام کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔ حکومتیں اپنی داخلی سیاست کو ’’دوسرے طریقوں‘‘ سے جاری رکھنے کے لیے اس تناؤ کو خطرناک تصادموں کی کیفیت تک لے جاتی ہیں۔ انڈین ایئرفورس کی جانب سے بالاکوٹ پاکستان میں حالیہ بمباری اور پاکستان ایئرفورس کی جانب سے دو بھارتی جنگی جہاز مارگرانے کے واقعے کے بعد برصغیر کے دو ایٹمی ممالک کے درمیان کھلی جنگ کا خطرہ بڑھتا دکھائی دیا ہے۔ تناؤ میں اس اضافے سے دونوں اطراف کے جنونی میڈیا نے پاگل پن کی حد تک ایٹمی جنگ اور مکمل تباہی کی باتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔ تاہم اس خبط میں بھی ربط و ضبط ہے۔
سدھارتھ بھاٹیہ نے بھارتی میڈیا کے کردار کے بارے میں دی وائر (The Wire) میں لکھا ہے کہ ’’جب ان دِنوں کی تاریخ لکھی جائے گی تو نفرت کا ماحول پیدا کرنے میں میڈیا کے قابل مذمت کردار کو خاص مقام حاصل ہوگا۔ ریٹنگ میں سبقت کے لیے ہر طرف اور ہر وقت قوم پرستی، حب الوطنی، پاکستان دشمنی اور ’غداری‘ کے زہرآلود الفاظ اُگلے جارہے ہیں۔ مشکل حالات میں جب چینلوں کے پاس کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ ہو تو ہر واردات جائز ٹھہرتی ہے۔ چینلوں نے سامعین کو ذہنی بیمار بنا ڈالا ہے ۔ لیکن کاروبار تو اسی طرح ہی ہوتا ہے…‘‘ پاکستان میں اس واردات کا طریقہ کچھ مختلف تھا لیکن مقصد نہیں۔
ایم آئی ٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسروِپن نارنگ کے مطابق ’’کوئی بھی جنگ کا خواہاں نہیں ہے۔ لوگوں نے ’کیوبن میزائل کرائیسز‘ جیسے حالات دیکھے ہیں اور انہیں پتا ہے کہ چند غلط اقدامات حالات کو بے قابو کر سکتے ہیں۔‘‘ جنگ اور امن مذاکرات کے اس ناٹک میں مودی سرکار کی تمام تر توجہ آنے والے الیکشن میں بی جے پی کی کمزور پوزیشن پر مرکوز ہے۔ اسی لیے وہ ہندوپرستی کو ابھار رہے ہیں تاکہ پاکستان اور مسلمان مخالف نفرتوں کو ہوا دے کر عوامی حمایت پیدا کرتے ہوئے انتخابی جیت حاصل کی جا سکے۔ سامراجیوں اور بھارتی بورژوازی کے دباؤ کے باوجود مودی جنگی صورتحال کے اس ماحول کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ گرفتار بھارتی پائلٹ کی رہائی کے اعلان کے چند ہی لمحے بعد اس نے کہا، ’’ایک پائلٹ پراجیکٹ مکمل ہوچکا ہے اور اب ہم نے اسے حقیقت بنانا ہے۔‘‘ جہاں اس بات پر اس کے حمایتیوں نے واہ واہ کی وہیں تجزیہ نگاروں نے اس جملے کو گھمنڈی اور بھونڈا قرار دیا۔ ووٹروں کو جلب کرنے کے لیے مودی کو شدت سے عسکری برتری کی نعرے بازی کی ضرورت ہے۔ اکثر تجزیہ نگاروں کو تشویش ہے کہ اس سے خطہ جنگ کے گھن چکر میں پھنس سکتا ہے۔ جبکہ مودی کو یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ وہ ایک مکمل جنگ کی طرف جائے بغیر پاکستان دشمنی کی نعرے بازی کو جاری رکھ سکتا ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقات کا ردِ عمل کسی حد تک محتاط اور ’معتدل‘ تھا۔ عمران خان کی امن کی خواہش اور ایٹمی تباہی سے بچنے کی باتوں کا زیادہ تعلق پاکستان کی کمزور معیشت اور ریاست کو درپیش عدم استحکام سے ہے۔ وہ جنگ سے بچنا چاہتا ہے کہ کہیں غیر معمولی حالات میں اس کی نومولود حکومت ختم نہ ہوجائے اور داخلی بحران و عدم استحکام پھٹ نہ پڑے۔
سالہا سال سے پاکستان اور بھارت کے جاسوسی اداروں کے سربراہان یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پرانتشار علاقوں میں تخریبی کاروائیوں کی معاونت نہیں کرتے ہیں۔ بھارتی ڈیپ اسٹیٹ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے بلوچستان میں مداخلت کرنا چاہتی ہے جہاں ریاست کو علیحدگی پسند مسلح جدوجہد کا سامنا ہے۔ جبکہ پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ کی کشمیر میں مداخلت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے پاکستان میں موجود جہادی گروہوں نے بھارت میں متعدد کاروائیاں کی ہیں لیکن ریاست نے خاطر خواہ لگام نہیں دی۔ اس تنازعے میں پراکسیوں کا استعمال اب ایک معمول بن چکا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ دونوں اطراف کے حکمران‘ کشمیریوں کی بہتری کی بات کرتے ہیں جبکہ کشمیری ہی ہیں جو ایل او سی کے آرپار اس جنگی جنون میں برباد ہوتے ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں عوام گزشتہ کچھ سالوں سے ایک بار پھر بھارتی ریاست کے جبر و تسلط کے خلاف سرکشی کی کیفیت میں ہیں۔ اس تحریک کو پاکستانی پالیسی ساز اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہائیوں کی محرومیوں کے تسلسل میں بی جے پی کی وحشیانہ حکومت نے ایک ایسی بغاوت کو جنم دیا ہے جس نے بھارتی ریاست کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ 2016ء سے تقویت پکڑتی اس تحریک کی بنیادی وجہ وسیع بیروزگاری اور محرومی ہے۔ لیکن ایل او سی کے اِس پارکشمیر کی صورتحال کا اندازہ سرکاری ادارہ برائے شماریات کی 2 مارچ 2019ء کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس کے مطابق یہاں بیروزگاری کی شرح 2017-18ء میں دس فیصد رہی ہے جو کہ باقی ماندہ پاکستان سے دوگنا ہے۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ دونوں ممالک ہتھیاروں کی خریداری میں سر فہرست ہیں جبکہ صحت، تعلیم اور سماجی شعبوں پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے مطابق 2018ء میں انڈیا نے اپنی 14 لاکھ سرگرم فوج کے لیے 4 ٹریلین روپے (58 بلین ڈالر) مختص کیے جو جی ڈی پی کا 2.1 فیصد بنتا ہے ۔ اسی طرح پچھلے سال پاکستان نے 1.26 ٹریلین روپے (11 ارب ڈالر) خرچ کیے جو جی ڈی پی کا 3.6 فیصدبنتا ہے ۔ دونوں ایٹمی ممالک کے پاس انسانیت کا خاتمہ کر دینے والے ان ہتھیاروں کی ترسیل کے لیے دور مار میزائل بھی موجود ہیں۔ اچین ونیک نے اپنی کتاب ’’بم کے بعد‘‘ میں اندازہ لگایا ہے کہ دونوں ممالک کے ایٹمی پروگرام پر خرچ ہونے والی رقوم اگر سماجی بہبود پر لگائی جائیں تو اس سے زچگی کے دوران عورتوں کی اموات، شیرخوار بچوں کی اموات اور ناخواندگی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
برصغیر کے حکمرانوں نے اپنی حاکمیت کے لیے کشمیر کے اس مسئلے کو ہمیشہ استعمال کیا ہے جسے برطانوی سامراج نے اس خطے کو غیرمستحکم رکھنے کے لیے کھڑا کیا تھا۔ جنگیں بھی کشمیر کے مسئلے کو حل نہ کرسکیں۔ مذاکرات ناکام ہوتے رہے ۔ انفرادی دہشت گردی کے اقدامات بھی قابض افواج کو مزید ظلم و جبر کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ جیسے گماشتہ ادارے بھی پچھلے ستر سالوں میں کشمیریوں کو کوئی نجات نہیں دلا سکے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹرس کے حالیہ اعتراف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ مسئلے کے حل کی کوشش سے ہی بری الذمہ ہو گیاہے۔ 18 جنوری کو اس نے کہا، ’’میں نے دونوں ممالک کو مذاکرات کی بار بار پیش کش کی جو کسی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائی ۔‘‘ یہ کشمیر کے نوجوانوں کی بغاوت ہی تھی جس نے قابض قوتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ایک بار پھر اس مسئلے کو عالمی سطح پر ابھارا۔ اس بغاوت نے نہ صرف ریاستی جبر کو للکارا بلکہ بھارتی طلبہ، محنت کشوں، بائیں بازو کے سیاسی کارکنان اور دانشوروں کی حمایت بھی حاصل کی۔
زیادہ تر عالمی طاقتیں ہندوستان کی بڑی منڈی اور اس سے وابستہ منافعوں کی وجہ سے اس سے زیادہ اچھے تعلقات استوار رکھنے کی خواہاں ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے ’بہترین دوست‘ چین نے بھی جزوی طور پر بھارت کے مؤقف کو تسلیم کیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ نے 27 فروری کو بھارتی ایئرفورس کی سرحد پار بمباری کی طرف اشارہ کیے بغیر کہا کہ ’’یہ بات خاص طور پر اہم ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی نرسریوں کو ختم کیا جانا چاہئے۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیونے کہا، ’’26 فروری کو بھارت کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے بعد میں نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سواراج سے بات کی تاکہ خطے میں امن اور سلامتی قائم رکھنے کی ہماری قریبی سکیورٹی پارٹنرشپ کو مزید مضبوط کیا جاسکے۔‘‘
بھارت کی مشہور ایکٹیوسٹ اور مصنفہ ارون دھتی رائے نے حالیہ واقعات کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اس وقت ملک پاکستان کے خلاف یا ممکنہ طور پر کشمیری عوام کے خلاف جنگ کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے… مودی سرکار ملک کو جنگی صورتحال کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ لوگ موجودہ حکومت کی جانب سے ان پر ڈھائے گئے مظالم کو بھول جائیں۔ مودی سرکار نے ہر سال دو کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بیروزگاری آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ اس وقت ایک فیصد امیر ترین بھارتیوں کے پاس 71 فیصد آبادی کی مجموعی جمع پونجی کے برابر دولت ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں دنیا کی سب سے بڑی غربت کا ارتکاز پایا جاتا ہے۔ عوامی غم و غصے اور شعور کو بھٹکانے کے لیے جنگوں اور جنگی حالات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس طرح کی ابھاری گئی جذباتی صورت حال محنت کشوں پر مزید معاشی حملے کیے جاتے ہیں۔مثلاً دو ہفتوں کے اس جنگی جنون کے ماحول کی آڑ میں تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے۔ افراط زر کی شرح 8.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو پانچ سال کی بلند ترین شرح ہے۔ یوں اس جنگی صورتحال کا خمیازہ پھر دونوں ممالک کے غریب عوام ہی بھگتیں گے۔
ہندوبنیادپرستی کے پاگل پن کو ابھارنے کے باوجود بھی مودی الیکشن ہار سکتا ہے۔ لیکن جنوبی ایشیا کے تقریباً دو ارب باسیوں کے سروں پر جنگ اور اس کی تباہ کاری کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ ان دشمنیوں اور منافرتوں کے بغیر دونوں اطراف کے حکمرانوں کی حاکمیت خطرے میں پڑ جائے گی اور دیوہیکل عسکری اخراجات کی کوئی ضرورت نہ رہے گی۔ اس لیے ان دشمنیوں کو جاری رکھنا اس نظام اور اس کے رکھوالوں کی ضرورت ہے۔ سامراجی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس پاکستان اور بھارت کی افواج کو اپنے اسلحے بیچ کر بے تحاشا منافع کما رہے ہیں۔ تاہم خطے کے عوام کے خون پسینے کو چوسنے کے لیے سامراجیوں کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی ایک حقیقی جنگ کی صورت میں خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس بات سے وہ بخوبی واقف ہیں کہ جنگ کو شروع کرنا ایک بات ہے لیکن اسے روکنا یا قابو میں رکھنا ایک بالکل مختلف بات ہوتی ہے۔
لیکن جنگ کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کی بربادیوں سے انقلابِ روس برآمد ہوا تھا۔ دوسری عالمی جنگ نے بھی ایشیا، یورپ اور کرہ ارض کے دیگر خطوں میں انقلابی سرکشیاں کو جنم دیا تھا۔ 1949ء کا انقلابِ چین انسانی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک تھا۔ فروری 1946ء میں برصغیر میں اٹھنے والی انقلابی بغاوت، جس کی قیادت رائل انڈین نیوی کے جہازی مزدور کر رہے تھے، متحدہ ہندوستان کی تاریخ کا دھارا موڑ سکتی تھی۔ 1965ء کی جنگ کے بعد پاکستان میں 1968-69ء کا انقلاب برپا ہوا تھا۔ 1971ء کی جنگ جیتنے کے باوجود بھارتی عوام کی بغاوت نے اندرا گاندھی کی حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ حکمران طبقات کے سنجیدہ ماہرین اس طرح کے ممکنات سے خوفزدہ ہیں۔ اس لیے وہ جنگ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر نظام کا بحران حکمرانوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ جنگی صورتحال کی طرف جائیں تاکہ سماجی تضادات کو دبایا جا سکے اور طبقاتی جدوجہد کو پٹری سے اتاراجا سکے ۔ حکمران طبقات کی گومگو کی یہ حالت دراصل ان کے بوسیدہ اور سڑے ہوئے نظام کی غمازی کرتی ہے۔ اس لیے اِس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے دور رس امن اور ’دوستی‘ محض سراب اور دھوکہ ہے۔
لینن نے 14 مئی 1917ء کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھاتھا، ’’جنگیں ان سیاسی نظاموں سے ناقابلِ علیحدگی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں۔ کوئی ریاست یا ریاست کے اندر کوئی طبقہ جنگ سے پہلے طویل عرصے تک جن پالیسیوں پر گامزن ہوتا ہے ، جنگ کے دوران بھی انہی پالیسیوں کی پیروی کرتاہے۔ صرف ان پر عمل پیرا ہونے کی شکل بدل جاتی ہے… جنگ کوئی کھیل نہیں ہے۔ یہ ہولناک ہوتی ہے۔ لاکھوں انسانوں کی جانیں لیتی ہے۔ بین الاقوامی مزدور انقلابات ہی اسے شکست دے سکتے ہیں!‘‘