لال خان

سال 1919ء کی بہار کے اواخر میں پنجاب کے زرخیز میدانوں کی سرسبز چراگاہیں سورج کی تمازت سے سنہری رنگت اوڑھ رہی تھیں۔ فصل کی کٹائی کا موسم تھا۔ تقریباً ایک صدی پہلے فضا میں اتنی گندگی نہیں ہوتی تھی جتنی آج ہے۔ صدیوں سے یہ موسم ان کسانوں کے لئے خوشیوں کا ایک تہوار ہوا کرتا تھا جو مہینوں محنت کرنے کے بعد اپنی محنت کے پھل کے لئے اس موسم کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ مرد، عورتیں اور بچے اس تہوار کے لئے رنگ برنگے لباس پہنتے تھے۔ لوگ رقص کرتے اورمقامی مشروبات سے لطف اندوز ہو کر محبت و خوشی کے گیت گاتے تھے۔ یہ تہوار جسے ’بیساکھی‘ کہا جاتا ہے فصل پکنے کی خوشی میں زمانہ قدیم سے منایا جا رہاہے۔ سال 1919ء میں بیساکھی کا بڑا تہوار جلیانوالہ باغ میں ہونا تھا۔ لیکن اس سال کی بیساکھی کو برطانوی سامراجیوں نے معصوم انسانوں کے خون میں نہلا دیا۔

اُس دور میں ہندوستان اور بالخصوص پنجاب میں انقلابی سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ بہار کی آمد کے ساتھ ہی تبدیلی کی امیدیں بھی پیدا ہوگئی تھیں۔ سب سے بڑھ کر 1917ء کے انقلابِ روس نے ہندوستان کے نوجوانوں کو بہت متاثر کیا تھا۔ غدر پارٹی، جس کے زیادہ تر کارکنان کا تعلق پنجاب سے تھا، کی برطانوی راج کے خلاف شاندار بغاوت نے نئی نسل پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ پہلی عالمی جنگ سے واپس آنے والے ہندوستانی سپاہی اپنے ساتھ یورپ اور دوسرے خطوں میں برپا ہونے والے انقلابات کی چشم دید خبریں بھی لائے تھے۔ جنگ کے اختتام پر چاول، گندم، نمک اور دوسری بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگی تھیں۔ اسی طرح سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف شدید غم و غصہ بھی موجود تھا۔ یہ تمام تر عوامل لوگوں میں بے چینی کو بڑھا رہے تھے۔برطانوی سامراج کے پالیسی سازوں کو ان حالات کا ادراک تھا اور اسی وجہ سے وہ کسی بھی ممکنہ بغاوت کو کچلنے کے لئے جبر کے اقدامات کر رہے تھے۔ انہیں پنجاب میں غدر کی طرح کی ایک اور بغاوت کا خوف تھا۔ وہ ہندوستان پر انقلابِ روس کے اثرات سے بھی چوکنے تھے۔ اسی وجہ سے مارچ 1919ء میں رولٹ ایکٹ یا ’’Anarchical and Revolutionary Crimes Act‘‘ نافذ کیا گیا۔

پنجاب میں باغی رجحانات جلیانوالہ میں بیساکھی کے جشن سے بہت پہلے ہی واضح نظر آ رہے تھے۔ سوموار 13اَپریل کو صبح سے ہی لوگ باغ کے احاطے میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ دوپہر تک لگ بھگ بیس ہزار لوگ جلیانوالہ باغ میں جمع ہوچکے تھے۔ سامراجی مظالم، باغیوں کی ملک بدری اور مہنگائی کے خلاف پرجوش تقریریں ہوئیں۔ تاہم باغ میں موجود زیادہ تر لوگ عام دیہاتی تھے جو بیساکھی منانے امرتسر آئے ہوئے تھے۔تاہم نوآبادیاتی حکمرانوں کو لگا کہ ’’ایک اور بغاوت پنپ رہی ہے اور انتشار، لوٹ مار اور قتل و غارت کو کچلنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اضافی فوج اور مشین گنیں امرتسر منگوائی گئیں۔ اس دن جنرنل ڈائر ، جسے اس آپریشن کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، نے شہر میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ مارچ کرکے اعلان کیا تھا کہ ہر طرح کے اجتماع کو ’’ضرورت پڑنے پر بزور طاقت سے منتشر کیا جائے گا۔‘‘ جلیانوالہ باغ میں بیساکھی منانے کے لئے دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں سے آنے والے عام دیہاتیوں کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ ان احکامات کا کیا مطلب ہے۔ کیونکہ پولیس اور فوج نے بھی لوگوں کو باغ میں جمع ہونے یا گلیوں میں اجتماع سے باضابطہ طور پر نہیں روکا تھا۔

جنرل ڈائر نے باغ پہنچ کر بکتر بند گاڑیوں کو باہر ہی چھوڑ دیا کیونکہ وہ جلیانوالہ باغ کے تنگ دروازوں سے گزر نہیں سکتی تھیں۔ فوجیوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ اس وقت تک بھی اکثریت کو پتہ نہیں تھا کہ ان پر گولیوں کی بارش ہونے والی ہے۔ منتشر ہونے کے لئے کوئی وارننگ بھی نہیں دی گئی۔ اچانک فائرنگ شروع کر دی گئی اور 1650 گولیاں فائر کی گئیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق بچوں سمیت 379 افراد مارے گئے۔ جبکہ دوسری رپورٹوں کے مطابق ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور دو ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق تو ہلاکتوں کی تعداد 1526 تک جاتی ہے۔

برطانوی افسروں کے ذہنی اختلال کی حالت یہ تھی کہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل کو امرتسر میں تعینات سول سرجن ڈاکٹر سمتھ نے ’اطلاع‘ دی تھی کہ ’’رولٹ ایکٹ کے خلاف مظاہروں کے پیچھے ایک روسی جرمن بالشویک تنظیم کا ہاتھ ہے اور وہ ایک اور ہڑتال کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس میں سرخ پرچم ایک ساتھ ہر جگہ لہرایا جائے گا۔‘‘ اس سے نوآبادیاتی انتظامیہ کے خوف اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔ جنرل ڈائر نے قتل عام کرنے کے بعد اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا، ’’میرے خیال میں لوگوں پر لازمی نفسیاتی اثرات مرتب کرنے کے لئے یہ سب سے کم ممکنہ فائرنگ تھی…یہ صرف لوگوں کو منتشر کرنے کا نہیں بلکہ ان پر نفسیاتی اثرات ڈالنے کا معاملہ تھا…نہ صرف وہاں موجود لوگوں پر بلکہ پورے پنجاب میں… ہمیں گولی چلانی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گھائل کرنا چاہیے کیونکہ برطانوی فوج کی طاقت کو مقامی آبادی کو خوفزدہ کرنا چاہیے نہ کہ یہ ان کے لئے مذاق بن جائے۔‘‘

اس بربریت سے بہت پہلے کارل مارکس نے ہندوستان پر اپنے مضامین میں برطانوی راج کے بارے میں لکھا تھاکہ ’’سرمایہ داری کی تہذیب کی گہری منافقت اور جبلی بربریت ہماری آنکھوں کے سامنے واضح ہے۔ اپنے گھر (یعنی برطانیہ وغیرہ) میں یہ بڑا محترم اور مقدس روپ دھارتی ہے جبکہ اپنی نوآبادیات میں اپنا اصل چہرہ دکھاتی ہے… رومنوں کی ’تقسیم کر کے حکمرانی کرو‘ کی پالیسی کے ذریعے برطانیہ عظمیٰ نے اپنی ہندوستانی سلطنت کو قائم رکھا ہوا ہے۔ مختلف نسلوں، قبائل، ذاتوں اور راج دھانیوں کے درمیان تقسیم ہی برطانوی تسلط کا بنیادی ستون ہے… بیس کروڑ آبادی کو دو لاکھ مقامی افراد کی فوج، جن کی قیادت انگریز کرتے ہیں، تابع رکھتی ہے جبکہ اس مقامی فوج کو صرف چالیس ہزار کی انگریز فوج نظم و ضبط میں رکھتی ہے…لیکن اس مقامی فوج پر کس حد تک بھروسہ کیا جاسکتا ہے اس کا اندازہ فوج میں ہونے والی حالیہ بغاوتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

ستمبر 1857ء میں مارکس نے ’نیویارک ٹربیون‘ کے لئے اپنی رپورٹ میں تجزیہ کیا، ’’باغی سپاہیوں کے اقدامات یقیناًہولناک، بھیانک اور ناقابل بیان ہیں۔ ایسا کچھ صرف سرکشیوں، قوموں اور نسلوں کی جنگ اور سب سے بڑھ کر مذہبی جنگوں میں ہی ہوتا ہے… تاہم یہ اپنی حتمی شکل میں ہندوستان میں انگلستان کے اپنے کرتوتوں کا ناگزیر نتیجہ ہے… تشدد ان کی معاشی پالیسی کا ایک نامیاتی ادارہ تھا۔ انسانی تاریخ میں مکافات نام کی ایک چیز بھی ہوتی ہے اور تاریخی مکافات کا ایک قانون ہے کہ اس کا اوزار‘ خطاکار خود تخلیق کرتا ہے۔ ‘‘

ہندوستان میں 1834ء سے 1838ء تک رہنے والا برطانوی راج کا اعلیٰ افسر لارڈ میکالے ہندوستانی سماج اور ثقافت کو حقارت آمیز انداز سے دیکھتا تھا۔ اس کے نزدیک برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کا شمار تہذیب یافتہ اقوام میں ہوتا تھا جبکہ ہندوستان جیسے نوآبادیاتی خطوں کے لوگ وحشی اور جاہل تھے۔ میکالے ہندوستان سے فارسی کو بطور سرکاری اور تعلیمی زبان ختم کروانے میں پیش پیش تھا۔ وہ 1860ء کے انڈین پینل کوڈ کے اہم تخلیق کاروں میں سے ایک تھا۔ یہ عدالتی قوانین آج بھی بھارت، پاکستان، سنگاپور، سری لنکا، بنگلہ دیش، نائجیریا، زمبابوے اور دیگر سابقہ برطانوی نوآبادیات میں نافذ ہیں۔ میکالے نے برصغیر کے پرانے تعلیمی نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ مغربی نظام استوار کروایا تاکہ ایک ایسا انگریز سامراج کا سہولت کار اور کاسہ لیس مقامی حکمران طبقہ تخلیق کیا جائے جو برطانوی تسلط کے لئے ایک بفر کا کردار ادا کرے۔ اس نے لکھا، ’’میرے خیال میں ہم محدود وسائل کی وجہ سے تمام لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتے۔ فی الحال ہمیں ایک ایسا طبقہ تخلیق کرنا چاہیے جو ہمارے اور ہمارے زیر تسلط ان کروڑوں لوگوں کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کرے۔ ایک ایسا طبقہ جو اپنے رنگ و خون میں تو ہندوستانی ہو لیکن اپنے عادات و اطوار، خیالات اور اخلاقیات میں انگریز ہو۔‘‘ یہاں ’محدود وسائل‘ کی بات بھی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس دوران انگریز یہاں سے بے حد و حساب دولت لوٹ کے برطانیہ لے جا رہے تھے۔

نوآبادیاتی جبر و استحصال کے معذرت خواہان جلیانوالہ باغ کے قتل عام کو برطانوی راج کی اچھی حکمرانی میں ایک استثنائی واقعہ قرار دیتے ہیں۔ اس وحشت کو جنرل ڈائر کا ذاتی اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ 8 جولائی 1920ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں اس بارے بات کرتے ہوئے ونسٹن چرچل نے کہا تھا، ’’میری نظر میں برطانوی سلطنت کی جدید تاریخ میں اس واقعہ کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک غیرمعمولی اور وحشت ناک واقعہ ہے جو اپنی ہولناکی میں یکتا ہے۔‘‘ یہ سامراجیوں کی جانب سے الفاظ کی ہیرپیر کی ایک مثال ہے جس میں ایسے واقعات کو ’حادثہ‘ بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ جلیانوالہ کا قتل عام اس منظم نسل پرستی اور باضابطہ جبر کا نتیجہ تھا جو ہر سامراجی قوت کا خاصہ ہوتا ہے۔

1947ء کے بٹوارے کے بعد دونوں اطراف کے سرکاری مورخین اور حکمران طبقات کے نمائندوں نے اس واقعے کو طبقاتی نقطہ نظر کی بجائے قومی پرستانہ شکل میں پیش کیا ہے۔ پاکستان میں اسے محض ’’ہندوستانیوں‘‘ یا سکھوں کے ساتھ ہونے والے واقعے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کا آج کے پاکستانی پنجاب کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی لئے اس تاریخی واقعے سے بالعموم صرف نظر کیا جاتا ہے۔ درحقیقت محکوم طبقات کے لوگ بغیر کسی مذہبی تفریق کے برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں شریک تھے۔ جلیانوالہ باغ میں مرنے والوں میں ہندو، مسلمان اور سکھ سبھی شامل تھے۔ 13 اپریل کے اجتماع میں امرتسر سے گرفتار ہونے والے دو رہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیاپال کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی 1919ء میں دو قومی نظریے کا کوئی نشان نہیں تھا۔ لیکن 1947ء کی خونی تقسیم میں بیس لاکھ سے زائد معصوموں کا قتل عام برطانوی سامراج کی مذہبی اور نسلی تعصبات کو بھڑکانے کی اسی پالیسی کا شاخسانہ تھا جس کے آلہ کار یہاں کے مقامی حکمران طبقات تھے۔ یہ ایک طرح سے سامراجیوں کا انتقام تھا جن کے راج کو غدر پارٹی سے لے کے بھگت سنگھ کی سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن تک‘ پنجاب میں جڑیں رکھنے والی تحریکوں نے مسلسل چیلنج کیا تھا۔ اسی طرح سے بغاوتوں کی طویل تاریخ رکھنے والے پشتون علاقوں اور بنگال کو بھی تقسیم کیا گیا۔ بھارت میں بھی قوم پرست اور مذہبی بنیاد پرست رجحانات اس واقعے کی تشریح اپنی مخصوص رجعتی تنگ نظری کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ہندو انتہاپسندوں سے لے کے سیکولر کانگریس تک ہر کوئی اسے اپنے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ سکھ فرقے اسے ایک ’خالصہ‘ نظریات کیساتھ جوڑتے ہیں۔

روس میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے اثرات دنیا بھر کی قومی آزادی کی تحریکوں پر مرتب ہوئے تھے۔ یہ عرصہ برصغیر میں طبقاتی جدوجہد کا سنہری دور تھا۔متحدہ ہندوستان میں دہائیوں پر مشتمل تحریک آزادی مختلف مراحل سے گزری۔ ایسے ادوار بھی آئے جب تحریک پر انقلابی رجحانات حاوی تھے۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران ماسکو کے اشاروں پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے فاشزم مخالفت کے نام پر برطانوی راج سے جو مصالحت کی اس سے مقامی حکمران طبقات کے نمائندوں کو تحریک کی قیادت میں آنے کا موقع ملا۔ 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت سے جنم لینے والی ملک گیر تحریک کی شکست کے بعد مذہبی تعصبات زیادہ حاوی ہو گئے۔
جلیانوالہ باغ سمیت ساری جدوجہد آزادی اس خطے کے محکوموں کی جدوجہد سے لبریز ہے۔ جو انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی ان کے نظام کے جبر کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔نوآبادیاتی حکمرانی کا تسلسل نئی شکلوں کیساتھ ہر جگہ ہی جاری رہا ہے۔ مثلاً جنوبی افریقہ میں کچھ سال قبل ماریکانا میں ’کالے حکمرانوں‘ نے کانکنی کے درجنوں محنت کشوں کو جس بے دردی سے قتل کیا وہ سفید حکمرانوں کے دورمیں شارپویل میں ہونے والے قتل عام مختلف نہیں تھا۔ 1937ء میں جاپانی فوج نے چین کے علاقے نانکنگ میں قتل عام کیا جس میں ہزاروں چینی مارے گئے اور اَسی ہزار عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ لیکن 1989ء میں تیانمن اسکوائر پر ہزاروں مظاہرین کا قتل عام جاپانی نہیں بلکہ خود چینی فوج نے کیا۔ اور قتل ہونے والے مزدوروں کا عالمی گیت (انٹرنیشنل) گا رہے تھے اور منڈی کی معیشت کی بحالی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

نوآبادیاتی دور کے بعد حکمرانوں کے رنگ، نسلیں، مذہب اور زبانیں تو تبدیل ہوگئیں لیکن استحصالی نظام تبدیل نہیں ہوا ۔ پاکستان میں آمریتوں کے جبر کی طویل تاریخ رہی ہے ۔ ملتان میں 1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل مل کے سینکڑوں مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ سے لے کے سندھ میں 1983ء کا آپریشن اور پھر پشتونخواہ اور بلوچستان میں پے درپے کاروائیوں کا سلسلہ‘ نوآبادیاتی جبر کا تسلسل ہی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن پھر جمہوری ادوار کے دوران بھی عوام کی تکلیفوں اور مصائب میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ کئی حوالوں سے جبر زیادہ زہریلا، وسیع اور گہرا ہوتا گیا ہے ۔ سرحد پار بھارت میں بھی صورتحال کوئی مختلف نہیں ہے جہاں ’سیکولر‘ ریاست پر ہندو بنیاد پرستی براجمان ہے اور ’ٹاڈا‘ جیسے کالے قوانین کے تحت کشمیر کی ساری وادی کو ایک وسیع وعریض جلیانوالہ باغ میں بدل دیا گیا ہے۔ اپنے بنیادی حقوق مانگنے والے مظاہرین پر سرکاری فورسز کی بے رحمانہ فائرنگ اب ایک معمول بن چکی ہے ۔ آزادی سے بیس سال پہلے ہی بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا تھا اور اس طبقے کی حکمرانی کیخلاف جدوجہد کا آغاز کردیا تھا جو لارڈ میکالے کے الفاظ میں ’’رنگ و خون میں تو ہندوستانی ہیں لیکن عادات و اطوار، خیالات اور اخلاقیات میں انگریز! ‘‘ پچھلی سات دہائیوں سے اسی طبقے کی حکمرانی نے اس سرزمین کو تاراج کر دیا ہے۔ اِن مقامی جنرل ڈائروں نے اپنے سامراجی آقاؤں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جلیانوالہ کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔