قمرالزماں خاں
انیسویں صدی کا آٹھواں عشرہ مزدورتحریک کیلئے تاریخی اورناقابل فراموش واقعات مرتب کرگیا۔ لمبے اوقات کارکے خلاف چلنے والی بہت طویل جدوجہد ایک ایسے سنگ میل پر پہنچ گئی جس نے نہ صرف مزدوروں کے بڑے مطالبے’8 گھنٹے کے اوقاتِ کار‘ کومنوانے کی راہ ہموار کردی بلکہ مزدورتحریک کیلئے بہت سے اہم نتائج بھی وضع کیے۔ سب سے اہم سبق اجتماعیت اور مل کے جدوجہد کرنے کانکلا۔ پیرس کمیون کے بعد یہاں پر ایک لکیر اورگہری ہوگئی جوکہ واضح کرتی تھی کہ محنت کش طبقہ بلاتفریقِ رنگ و نسل، مذہب، ملک اور زبان یکساں مفادات کا حامل ہے اور اسی طرح ان کے مدمقابل سرمایہ داربراعظموں کے فاصلوں اورنام نہاد دشمنی اور جنگ وجدل کی تاریخ رکھنے کے باوجود بھی مزدوروں کے خلاف یکجا ہیں اورطبقاتی جڑت رکھتے ہیں۔ مزدورجب طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کے میدان میں نکلتا ہے تو نہتا اور بے سروسامان ہونے کے باوجود ہر قسم کے وسائل، ریاستی طاقت، میڈیا پر گرفت اور بربریت کی جبلت رکھنے والے اپنے دشمن طبقے کو بالآخر شکست فاش دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سرمایہ داری نظام’ شرح منافع‘ پر استوار ہے جو صرف منافع پر انحصار نہیں رکھ سکتا۔ شرح منافع کو مسلسل بڑھانے کی غرض سے سرمایہ داری اسی تواتر سے ”زیادہ کام اور کم اجرت“ کے ایجنڈے پر کام کرتی ہے۔ منڈی میں مسابقت کی بنا پر پیداوار کو کم قیمت پرفراہم کرناسرمایہ دارکی مجبوری ہوتی ہے لہٰذا زیادہ قیمت کی بنا پر ’زیادہ منافع‘ کمانا عمومی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ زیادہ منافع اوراس میں مسلسل اضافہ صرف اسی طور ممکن ہوتا ہے کہ ’محنت کا اجر‘ کم کیا جائے۔ براہ راست اجرتوںمیں کمی ایک طریقہ ہے مگر اس سے زیادہ اہم اور فیصلہ کن طریقہ اوقات کار اور کام کی شدت میں اضافہ ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے سرمایہ دار کم اجرت میں زیادہ کام کرانے کا حربہ استعمال میں لاتا ہے۔ سرمایہ داری کا آغاز زرعی غلامی کے خاتمے سے ہوا تھا مگریہ کہنے کی بات تھی۔ دراصل زرعی غلامی کے بعد اجرتی غلامی کا آغاز ہوا۔ جاگیر داری کے خاتمے اور سرمایہ داری کے اجرا سے بہت سی چیزیں بدلیں مگر بنیادی طور پر محنت کے استحصال کی شکل تبدیل ہوئی۔ محنت کش طبقے کی زندگی پہلے سے بھی زیادہ اجیرن ہوتی گئی۔ اپنے آغاز میں سرمایہ داری نے محنت کا شدید استحصال زیادہ اوقات کارکی شکل میں کرنا شروع کیا۔ مزدور سے عمومی طور پر 16 سے 18 گھنٹے یا کہیں کہیں 12 گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ یہ سب ”طے شدہ اجرت“ کے بدلے میں کرایا جاتا تھا۔ منافعوں کی حرص اور شرح منافع کو مسلسل آگے بڑھانے کے اس عمل میں مشینوں پر کام کرنے والا مزدورعملی طور پر خود بھی ایک مشین کی شکل اختیارکرگیا تھا جس کی ذاتی اور خاندانی زندگی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ مزدوریا کام کرتا یا پھر نڈھال ہوکر چھ گھنٹے سوکراگلی صبح پھر ’محنت لٹوانے ‘کیلئے مشینوں کے ساتھ مشین بن جاتا۔
صنعتی انقلاب دنیا کو بدل رہا تھا۔ نت نئی مشینوں کی ایجادات، پہلی مشینوں کی جگہ تیز رفتار مشینوں کی ترقی، پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ، ضروریات سے بہت زیادہ پیداواری استعداد نے سرمایہ داری کو ”قومی مملکت“ کی حد بندیوں کو توڑکرنئی منڈیوں تک رسائی پراکسادیا تھا۔ صنعتی قوتوں کے سامراجی عزائم کے پیچھے سرمایہ داری کے شرح منافع کا فلسفہ پوری شدت سے کارفرما نظر آتاہے۔ مگر بدلتی دنیا کی چکاچوند ایجادات کے ذریعے معرض وجود آنے والی نت نئی اشیا کو تخلیق کرنے والا مزدورنہ صرف اپنی تخلیق کردہ پیداوار کو مالی طور پر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا بلکہ کسی طور خریدلینے کے بعدبھی اسکے پاس استعمال میں لانے کا وقت نہیں ہوتا تھا۔ ٹریڈ یونین کے قیام سے ہی لمبے اوقات کار کے خاتمے اور تب ’آٹھ گھنٹے کے اوقاتِ کار‘ کے مطالبے کا آغاز ہواجو رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیارکرگیا۔ تب اس مطالبے میں چوبیس گھنٹوں کی تقسیم کو اس طرح پیش کیا گیا تھا کہ آٹھ گھنٹے کام اور حصول معاش کی سرگرمی کےلئے، آٹھ گھنٹے جسمانی ضرورت یعنی آرام کیلئے اور دن کا تیسرا حصہ معاشرتی یا خاندانی ضروریات کیلئے۔ مگر تحریک اور مطالبے کے خاکے میں اصل رنگ اس وقت بھراگیا جب انقلابی رہنماﺅں کارل مارکس اورفریڈرک اینگلزنے اجرت اور منافعے کو زیر بحث لاتے ہوئے سرمایہ داری کے تحت دولت کی پیدائش پر تفصیلی مضامین لکھے۔ اجرت اور پیداوار کی قدر کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوا کہ سرمایہ دار پیداواری عمل کے بالکل ابتدائی حصے میں اپنے تمام تر اخراجات اور مزدورکی اجرت کے مساوی قدر نکال لیتا ہے جبکہ باقی کے گھنٹوں میں مزدور جو بلامعاوضہ محنت کرتا ہے اس سے قدرِ زائد حاصل ہوتی ہے جو سرمایہ دار کے منافعے کا ماخذ بنتی ہے۔ اس لحاظ سے مزدوروں کی غالب اکثریت جو 12 سے 18 گھنٹے کام کرتی تھی کا مطالبہ تھا کہ کام کا دورانیہ آٹھ گھنٹے فی دن کیا جائے۔ اگرچہ ٹریڈ یونین نے’ نظام کے اندر رہتے ہوئے بارگینگ‘ کے اصولوں کے مطابق اس کو وضع کیا تھا مگر یہ بھی سرمایہ داروں کو کسی طور منظور نہیں تھا اور وہ اس کو تسلیم کرنے سے صاف انکاری تھے۔ مزدورتحریک جو اپنے پیچھے ’پیرس کمیون‘جیسے سنگ میل عبور کرآئی تھی کے پاس طبقاتی جدوجہد کے علاوہ کوئی راہ نہیں تھی۔ چنانچہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچی اوقات کار میں کمی کی تحریک نے امریکہ میں سر اٹھایا جہاں صنعتکاری کیساتھ ٹریڈ یونین پوری توانائی سے ارتقا پذیر تھی۔ اکتوبر 1884ء میں شکاگو میں’فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈز اینڈ لیبر یونینز‘ کے زیر اہتمام امریکی محنت کشوں نے ایک نیشنل مزدور کنونشن میں اعلان کیا کہ یکم مئی 1886ء سے 8 گھنٹے کے کام کے اوقات کار قانونی تصور ہوں گے۔ اگر حکومت نے اس مطالبے کو تسلیم نہ کیا تو مزدور تنظیمیں امریکہ بھر میں غیر معینہ مدت کیلئے ہڑتال پر چلی جائیں گی۔ اس مطالبے پر حکومت نے کان نہ دھرا چنانچہ مزدور تنظیموں نے ملک گیر ہڑتال کی تیاریاں شروع کردیں۔ بالا آخر یکم مئی 1886ء کو ٹریڈ یونینز میں منظم پانچ لاکھ مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ شکاگو میں 40 ہزار مزدوروں نے ہڑتال میں حصہ لیا۔ مظاہروں میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ امریکہ کے تمام بڑے شہروں اور صنعتی علاقوں میں محنت کشوں نے ریلیاں اور جلوس نکالے۔ محنت کش مکمل طور پر پر امن تھے لیکن 3 مئی کو پولیس نے دو محنت کشوں کو گولیاں مار کے شہید کر دیا جس پر غم و غصہ بڑھنے لگا۔ 4 مئی کو شکاگو میں ’ہے مارکیٹ‘ کے مقام پر بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس روز پورے امریکہ میں کم وبیش 6 لاکھ محنت کشوں نے ریلیوں میں شرکت کی اور 8 گھنٹے کے اوقات کار کا مطالبہ کیا۔ شکاگو میں اجتماع کے دوران پولیس نے جلسہ ختم کرنے کا حکم جاری کیا جس پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم شروع ہو گیا۔ پولیس نے آخر کار محنت کشوں پر گولی چلا دی اور قتل و غارت کا یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس اہلکار گولیاں ختم ہونے پر بندوقوں میں دوبارہ گولیاں بھرتے اور محنت کشوں پر داغنے لگتے۔ درجنوں محنت کش اس ریاستی دہشت گردی میں شہید ہو گئے۔ محنت کشوں نے پر امن رہنے کی علامت کے طور پر سفید پرچم تھام رکھے تھے جو ان کے لہو میں بھیگ کر سرخ ہو گئے اور مزدور تحریک اور انقلاب کا پرچم اس دن کے بعد سرخ ٹھہرا۔ آج تک یہ سرخ پرچم مزدوروں کی عظمت، جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کا نشان ہے۔ ریاستی قتل عام کے بعد مزدوررہنماﺅں کو ہی مزدوروں کے قتل کا ملزم بنا کران پر مقدمے چلائے گئے اورمتعدد کو پھانسی کی سزادی گئی۔ سرمایہ دار ایسا ہی انصا ف کرسکتے ہیں۔ جب مسئلہ ان کے طبقاتی مفادات اور شرح منافع کی بقا کا ہو تو انکے نقاب اترکر اصل ڈریکولائی چہرے نکل آتے ہیں۔ انکی تہذیب اور اعلیٰ اقدار تبھی تک دکھاوے کے طور پر رہ سکتے ہےں جب تک ان کا لوٹ مارکا نظام محفوظ ہو۔ جیسے ہی سرمایہ داری کے مکروہ اقدامات کے خلا ف آواز بلند ہوتی ہے ان کی جعلی اخلاقیات دم توڑ دیتی ہے۔
کام کے دن کی طوالت کو گھٹانے کی محنت کش طبقے کی پرامن جدوجہد کو ریاستی جبر کے نتیجے میں خون میں توڈبودیا گیا مگر اسکا خاتمہ ناممکن تھا۔ جدوجہد جاری رہی۔ پیرس میں اس جدوجہد کے اعتراف میں پہلی مرتبہ فریڈرک اینگلز کی سربراہی میں دوسری انٹرنیشنل کے 1889ء کے اجلاس میں یہ قرار داد منظور ہوئی کہ یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طورپر دنیا بھر میں منایا جائے گا۔ 1889ء کے بعد سے یکم مئی کا دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اور اس روز محنت کش اپنی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔
آج سرمایہ داری نظام پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں بالکل ویسے ہی ناکامیوں، خلفشار اورزوال پذیری کا شکارہے‘ جس طرح ڈیڑھ سو سال پہلے محنت کش طبقے کے رہنماﺅں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے نشاندہی کی تھی۔ سماج میں بسنے والے اکثریتی محنت کش طبقے کی محنت کو لوٹ کر ایک چھوٹی سی اقلیت کو مالامال کرنے والے نظام کا بالآخر اس سے مختلف انجام کیا ہوسکتا تھا؟ مگر اپنے مکمل اختتام سے قبل یہ نظام ماضی سے زیادہ وحشی اور خونخوار ہوچکا ہے۔ محنت کش طبقے سے وہ حقوق چھینے جارہے ہیں جو اس نے پچھلے دو سو سالوں کی جدوجہد سے حاصل کئے تھے۔ پاکستان جیسے ممالک میں تو نجی شعبے نے اعلانیہ 12 گھنٹے کی دیہاڑی کوعملی طور پر رائج کیا ہوا ہے۔ انتہائی قلیل کم از کم اجرت بھی نہیں ملتی۔ مزدورتحریک اور محنت کش طبقے پر سامراجی اداروں کی ایما پر ریاستوں کے حملوں کی بنیادی وجہ مزدورتحریک کی نظریاتی کمزوریاں، جدوجہد سے انحراف اور قیادت کی مصالحتی روش ہے۔ مزدورکے پاس جدوجہد کرنے یا مٹ جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ یوم مئی کا بنیادی سبق جہد مسلسل ہے۔ اس سبق کوفراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہی محنت کشوں کی میراث ہے اوریہیں سے سرمائے پر محنت کی فتح کے راستے نکلیں گے۔