لال خان
بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں نریندرا مودی کی قیادت میں ہندوبنیادپرست جماعت بی جے پی نے بڑی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اتحاد ’این ڈی اے‘ نے ایک ایسے ملک کے انتخابات جیتے ہیں جہاں دنیا کی سب سے زیادہ غربت کا ارتکاز موجود ہے۔ انڈیا کے کارپوریٹ مالکان نے بی جے پی کی انتخابی مہم کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے تھے۔ انفو ٹیک کمپنیوں پر کروڑوں ڈالر نچھاور کیے گئے جنہوں نے سوشل میڈیا پر بی جے پی کی اجارہ داری قائم کی۔ مودی کے حمایتی الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کے مالکان دن رات بی جے پی کے حق میں مہم چلاتے تھے۔ ذات پات، فرقے، نسل اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ خریدے گئے۔ انتخابی ٹھیکیداروں نے بیروزگاروں میں سے آوارہ اور بدمعاش قسم کے ٹولوں کے ذریعے دھنوانوں کی پارٹی بی جے پی کے لئے ووٹ اکٹھے کرکے خوب مال بنایا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی اب بھارتی حکمران طبقات کی روایتی پارٹی بن چکی ہے جس طرح تقسیم ہند کے بعد کی پہلی چند دہائیوں میں کانگریس ہوتی تھی۔ جب نتائج آنا شروع ہوئے تو سٹاک ایکسچینج کے جواری پھولے نہیں سما رہے تھے اور انڈیکس نئی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں سرمایہ داروں کے لئے ہوشربا مراعات، منافعوں اور لوٹ مار کی حفاظت اور لیبر قوانین کے خاتمے کے وعدے شامل کیے تھے۔ انفراسٹرکچر میں وسیع سرمایہ کاری بشمول سو نئے ایئرپورٹ اور پچاس میٹروسسٹمز کی تعمیر کے وعدے بھی کیے گئے۔ مودی نے اعلان کیا ہے کہ 2030ءتک بھارت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت سے ترقی کرکے تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔
لیکن اپنے پچھلے پانچ سالہ اقتدار میں مودی سرکار اپنا کوئی بھی انتخابی وعدہ پورا نہیں کرسکی۔ اس نے سالانہ دو کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج بھارت میں بیروزگاری پچھلی تین دہائیوں کی سب سے بلند سطح پر ہے۔
سرمایہ داروں اور ان کے زرخرید دانشوروں اور صحافیوں کی جانب سے مودی کو جدت لانے والے ’ٹیکنوکریٹ‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں یہ بات نظرانداز کی جاتی ہے کہ مودی کی بے سر و پا سکیموں اور مسلسل پھیلتی ہوئی جھونپڑپٹیوں نے ملک کی شکل کتنی ہولناک اور غلیظ بنا دی ہے۔ مودی نے ہندوتوا کے مقدس دریائے گنگا کو صاف کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن پانچ سال کی مدت میں گندے پانی اور بے تحاشہ صنعتی فضلے کی وجہ سے یہ مزید گندا اور بدبو دار ہوگیا ہے۔ بھارت کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں ماحولیاتی تباہ کاری خوفناک حد تک تیزی سے پھیل رہی ہے۔
آج کے پاکستان کی طرح بھارت میں بھی کرپشن ایک ثانوی معاملہ ہے کیونکہ اس کے بغیر عام لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہوجائیں گی۔ لیکن یہاںکی طرح وہاں بھی کرپشن مخالفت کی سیاست کرنے والا مودی اور بی جے پی خود بدعنوانیوں کے سکینڈلوں میں غرق ہیں۔ دہلی میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے پے در پے واقعات کے بعد اب یہ شہر ”بلادکار کا عالمی دارالحکومت“ کہلانے لگا ہے۔ اس بار بی جے پی نے وعدہ کیا ہے کہ کیرالہ کے ایک مشہور مندر میں خواتین کے داخلے پر پابندی لگا دیں گے۔
ہندو بالادستی پر یقین رکھنے والے اسی مودی نے گجرات میں 2002ءمیں اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران مسلمانوں کے خلاف فسادات کروائے تھے۔ مودی بنیاد ی طور پہ ایک وحشی آدمی ہے۔ لیکن نہ صرف ہندو بنیاد پرست بلکہ میڈیا، سماجیات اور اخلاقیات کے ان داتا بھی مودی کو بھگوان بنانے کی مہم میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ یہ بذات خود بھارت کی حاوی دانش کی ثقافتی اور فکری زوال پذیری کی غمازی ہے۔
پچھلے پانچ سال کے دوران مودی سرکار نے بھارتی ریاست کے سیکولرازم کا پردہ مکمل طور پہ چاک کر دیا ہے اور حالیہ الیکشن کے نتائج کے بعد تو ہندو بنیاد پرستی اور زیادہ گہرائی سے ریاست اور سماج کے ڈھانچوں میں سرایت کرے گی۔ مودی نے اپنی جیت کے بعد کی تقریر میں سیکولرازم کا خوب مذاق اڑایاہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اس الیکشن نے بھارت کی سرکاری تاریخ اور قومی نظرئیے پر ایک کاری ضرب بھی لگائی ہے۔ بھوپال سے بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن جیتنے والی پرگیا سنگھ ٹھاکر نے 1948ءمیں مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والے نتھورام گوڈسے کو ایک محب وطن قرار دیا ہے۔ گوڈسے شروع سے ہی ہندوتوا کے نظریات میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اور ماضی میں بی جے پی کے متعدد لیڈروں نے اس کی تعریف کی ہے۔ پرگیا ٹھاکر کی باتوں کو یونین منسٹر اننت کمار اور پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ نلین کمار کتیل نے بھی سراہا ہے۔ بعد میں مودی کی وضاحتیں محض منافقت پر مبنی تھیں۔
چند ایک کو چھوڑ کے ہندوتوا کے تمام نظریہ دان گاندھی کے قتل کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اس کے قاتل گوڈسے کی پرستش تک کی جاتی ہے۔ بی جے پی کے ایک امیدوار کی جانب سے اس طرح کا بیان اور گاندھی کی یوں سرعام تذلیل بھارتی سماج کے بدلے ہوئے حالات کی غمازی کرتی ہے۔ بالخصوص اگر یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ گاندھی بھارتی ریاست کا چہرہ ہے اور کرنسی نوٹ پر اس کی تصویر بھی لگی ہوئی ہے۔
آبادی کی وسیع اکثریت نے اپنے ووٹوں سے ایسے لوگوں کو اقتدار میں پہنچایا ہے جو گاندھی کے قاتل کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ کیفیت ہی ایک جدید صنعتی، سیکولر، جمہوری اور خودمختار ریاست بنانے میں بھارتی حکمران طبقات کی تاریخی ناکامی اور ان کی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کی عکاسی کر دیتی ہے۔ نہرو کا ”قسمت کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ“ (Tryst with destiny) ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ ”ہندوستان“ کو شکست ہوچکی ہے اور ”بھارت“ اس کی جگہ لے چکا ہے۔ لیکن ملک کے دیوہیکل اور طاقتور پرولتاریہ نے ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں سنایا ۔
لبرل سیکولر رجحانات کی جانب سے بھارت میں فاشزم کے آ جانے کے حوالے سے بڑا شور و غوغا ہے۔ گارڈین میں کپیل کومیریڈی نے ایک حالیہ مضمون میںلکھا ہے، ”سب سے زیادہ برا یہ ہے کہ ہندوستان کو ایک ہندو قوم میں تبدیل کرنے کے لئے جمہوری اداروں کو استعمال کیا گیا ہے… پانچ سال بعد ہم مودی کے بنائے ہوئے ’نئے بھارت‘ کو دیکھ رہے ہیںجو اپنے موجد کا عکاس ہے: ثقافتی طور پر بانجھ، شعوری طور پر کھوکھلا، جذباتی طور پر کچلا ہوا، گھمنڈی، اندوہناک، مستقل طور پر دکھی اور شدید بدخواہ۔ یہ جھوٹ اور دکھاوے سے بھرپور نمود و نمائش کی سرزمین ہے جہاں خود رحمی کے احساسات سے لبریز اکثریت کے پاس…اپنی مایوسی اور بھڑاس نکالنے کے لئے مذہبی اقلیتوں پر جبر کے سوا کوئی اور تھراپی نہیں ہے۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت میں مسلمانوں کو صرف اس بات پر قتل کر دیا جاتا ہے کہ اس نے گائے کا گوشت کیوں کھایا‘ پرہجوم ٹرین میں کسی ہندو کے لئے اپنی سیٹ کیوں خالی نہیں کی یا کسی ہندو لڑکی کے ساتھ ڈیٹ پر کیوں گیا… فرقہ وارانہ تعصبات ہمیشہ سے بھارت میں موجود رہے ہیں۔ لیکن مودی کے دور میں انہوں نے قتل عام کی شکل اختیار کرلی ہے۔ قتل ہونے والے مسلمان کسی اچانک گرما گرمی کے نتیجے میں قتل نہیں ہوتے بلکہ یہ ہندو بالادستی قائم کرنے کی منظم واردات کا نتیجہ ہے۔ مودی کی پرستش بہت سے ہندوﺅں کی اپنے ماضی کی طرف مراجعت کا نتیجہ ہے۔ یہ دراصل تاریخی المیوں‘ بالخصوص مسلمان قوم پرستی کے مطالبات کی خاطر ہندوستان کی تقسیم کے خلاف ایک رد عمل ہے۔“
اگرچہ ہندوتوا کے نو فسطائی رجحانات ایک سنجیدہ خطرہ ہیں لیکن مودی سرکار جرمنی کے ہٹلر اور اٹلی کے مسولینی کی طرز پر بھارت میں ایک فاشسٹ حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس وحشت کے خلاف سب سے بڑی قوت ہندوستان کے دیوہیکل محنت کش طبقے کا وجود ہے جو اب تک کسی طبقاتی جنگ میں فیصلہ کن شکست سے دوچار نہیں ہوا ہے۔ اس کی طبقاتی قوت کا نتیجہ ہی ہے کہ مودی اب تک لیبر قوانین اور ان مراعات کو ختم نہیں کرسکا جو محنت کشوں نے ماضی میں اپنی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں۔ اسی طرح مودی ہندوستان کے واحد مسلم اکثریتی صوبے جموں و کشمیر کو حاصل مخصوص آئینی حیثیت کو بھی ختم نہیں کر سکا ہے۔ وہ ایودھیا میں بابری مسجد، جسے 1992ءمیں ہندو بنیادپرستوں نے منہدم کیا تھا، کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کے تقاضے عوامی اجتماعات میں کیے گئے وعدوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ بی جے پی کی جیت کے بعد مودی کے اپنی داخلی پالیسی (”بھارت سب سے کے لئے“) اور خارجہ پالیسی (”خطے میں امن اور خوشحالی“) کے متعلق بیانات نے اس کی قبل از انتخابات انتہاپسندانہ نعرہ بازی کو دھندلا دیا ہے۔
لیکن یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے کہ بی جے پی کی حکومت موقع پرستانہ انداز میں اپنے فوری مفادات کے تقاضوں کے مطابق اپنی نعرہ بازی تبدیل کرتی رہے گی۔ شاید نریندرا مودی‘ ہٹلر سے زیادہ ہوشیار اور چالاک ہو لیکن بہت سے معاملات میں وہ اسی کی نقل کرتا ہے۔ وکٹر الریچ نے ہٹلر کی حالیہ سوانح حیات میں لکھا تھا، ”اس کی اوٹ پٹانگ باتیں اور خیالات خودرو نہیں تھے بلکہ محتاط انداز میں پہلے تیار کیے جاتے تھے تاکہ میڈیا اور عوام کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کی جائے۔“
مودی کی بظاہر بے تکی اور شدت پسندانہ باتیں بھی کسی فوری جذباتیت کی وجہ سے نہیں ہےں‘ جیساکہ عام تاثر پایا جاتا ہے۔ اس کے لباس، باڈی لینگویج اور حرکات و سکنات کی پہلے تیاری اور ریہرسل کی جاتی ہے۔ آمرانہ رویے اور جبر اس کی حکومت کا خاصہ ہیں۔ مودی سرکار میں پارٹی کے غنڈے اور سرکاری مشینری ہر مخالف آواز کو کچلتے جاتے ہیں۔ اس حکومت کی سب سے زہریلی واردات سرکاری اداروں پر ہندو بنیادپرستی کے دانشوروں اور کارکنوں کا قبضہ قائم کروانا ہے۔
ساری پارٹیاں الیکشن کمیشن کی آزادی اور دیانتداری کے گن گاتی ہیں اور سب کی سب ہندوستانی قوم پرستی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں۔ حالانکہ ایسے سماجی اور معاشی حالات ہی موجود نہیں ہیں جن پر کوئی صحتمند سرمایہ دارانہ جمہوریت اور قوم پرستی پنپ سکیں۔ ’ہندوستانی قوم‘ کی بجائے ’ہندو قوم پرستی‘ کا ابھار اس حقیقت کا ثبوت ہے۔ اور اس جمہوریت کا حال یہ ہے کہ ان انتخابات سے لوک سبھا میں منتخب ہونے والے 50 فیصد نمائندے ’کریمنل ریکارڈ‘ کے حامل ہیں۔
ان انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن واضح طور پر بی جے پی کے دست راست کی طرح کام کرتا رہا اور مودی کو انتہاپسندانہ بیانات سے بھی نہ روک سکا۔ حب الوطنی کی نعرے بازی کی آڑ میں بھارتی ڈیپ سٹیٹ اور فوج اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے مالیاتی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ برصغیر کے تمام دوسرے ممالک کی طرح بھارتی جرنیل بھی اسلحے اور دیگر ٹھیکوں میں کمیشن خوری اور کک بیکس کے دھندوں سے خوب مال بناتے ہیں۔ اب وہ سویلین حکومتوں کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کا تعین بھی کرتے ہیں۔ بھارتی عدلیہ اپنی امیروں کی طرف جانبداری، بدعنوانی اور کاسہ لیسی کی وجہ سے عوام کے سامنے ننگی ہوچکی ہے۔ تمام دوسرے ریاستی ادارے بھی اسی طرح کی بدعنوانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
غربت اور محرومی دھرتی پر ناچ رہے ہےں۔ پچھلے پانچ سالوں میں غریب کسانوں، خواتین، مذہبی اقلیتوں، نچلی ذات کے ہندوﺅں اور سماج کی دیگر محکوم پرتوں کی زندگیاں بی جے پی کی جابر حاکمیت میں مزید اجیرن ہوئی ہیں۔ لیکن مودی کی اتنی بڑی جیت نے سب کو حیران بھی کر دیا ہے۔ بے تحاشہ تجزئیے کیے جا رہے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کے ماہرین اور تجزیہ نگار سطحی وجوہات جیسے اپوزیشن کی تقسیم، مودی کی پاکستان مخالف نعرے بازی، پلوامہ واقعے کے بعد ہندوقوم پرستی کے ابھار اور سرجیکل سٹرائیک وغیر ہ کی باتیں ہی کر رہے ہیں۔حالانکہ ان فوری واقعات کے پیچھے بھی تاریخی عوامل کا ایک پورا تسلسل ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
2014ءکے الیکشن میں مودی کی جانب سے ’وکاس‘ (ترقی) کے نعرے کو زیادہ پرجوش طریقے سے استعمال کیا گیا تھا کیونکہ وہ اس وقت تک مرکز میں برسراقتدار نہیں آیا تھا۔ لیکن اب کی بار اس نے ہندو قوم پرستی اور مسلمان و پاکستان دشمنی پر زیادہ زور دیا۔ اس نے عوام میں خوف کے عنصر کو خوب استعمال کیا ۔جنگی صورتحال میں ’قومی عدم تحفظ‘کے احساس کو ابھار کے مودی کو ہندووں کے مسیحا کے طور پہ پیش کیا گیا۔ اس لئے مودی کی جیت کسی امید یا رجائیت کی بجائے خوف اور عدم تحفظ کے ملے جلے احساسات کا نتیجہ ہے۔ یہ حربے سماج کی شعوری طور پر پسماندہ پرتوں بالخصوص مضطرب پیٹی بورژوازی (درمیانے طبقے) پر زیادہ کارگر ثابت ہوئے ہیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
معروضی حوالے سے بات کی جائے تو کافی عرصے سے بلند شرح نمو کے باوجود عوام کی حالت میں سدھار نہ آنے اور سیاسی افق پر سرمایہ داری کا کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں ایک سیاسی بے حسی نے جنم لیا ہے۔ جمود کے ایسے ادوار کو اگر انقلابی تحریکیں نہ چیریں تو رجعت کے لئے راستے کھلتے ہےں۔
اپوزیشن کی تقسیم اور سب سے بڑھ کر بائیں بازو کی جانب سے مزاحمت ، طبقاتی جدوجہد اور انقلاب کا پروگرام نہ دینے کی وجہ سے مودی کا کام اور بھی آسان ہوگیا۔ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں نے حقیقی مسائل پر بات کرنے یا متبادل دینے کی بجائے جنگی بیان بازی وغیرہ میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ یوں ایک طرح سے وہ بی جے پی کے میدان میں کھیل رہی تھیں۔
لیون ٹراٹسکی نے 1909ءمیں لکھا تھا، ”جب تاریخی ارتقا کا دھارا ابھر رہا ہوتا ہے تو عوامی سوچ زیادہ دور اندیش، بے باک اور تیز فہم ہوجاتی ہے۔ یہ حقائق کو دور سے ہی پرکھ لیتی ہے اور انہیں عمومی صورتحال سے منسلک کرتی ہے… اور جب سیاسی دھارے کا رخ پستی کی طرف ہوتاہے تو عوامی سوچ جہالت اور پسماندگی کی کھائی میں جاگرتی ہے۔ سیاسی سمجھ بوجھ کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہوجاتی ہے۔ حماقت بڑھتی جاتی ہے اور دانت نکال کے عقل مندانہ تجزیوں پر ہنستی ہے اور انہیں ذلیل کرتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حماقت کا راج قائم ہو چکا ہے… “
تقسیم کے بعد کے ہندوستان کی تاریخ بھی محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد اور ہڑتالوں سے بھری پڑی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیاں دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹیاں ہوتی تھیں۔ لیکن قیادت کے نظریاتی دیوالیہ پن اور مصالحتوں نے ان کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے درمیان کوئی حقیقی نظریاتی فرق موجود نہیں ہے۔ دونوں مرحلہ واریت پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی سوشلزم سے پہلے سرمایہ داری کو لانا ضروری ہے!
ان پالیسیوں پر چل کر کمیونسٹ پارٹیوں نے خود کو اصلاحات اور انتخابی سیاست میں غرق کرلیا ہے۔ لینن اس پالیسی کو ”پارلیمانیت کی حماقت“ کہتا تھا۔
انتخابات میں چند سیٹوں کیساتھ بدترین شکست کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سیکرٹری سیتارام یاچوری نے پریس کانفرنس میں کہا، ”عوام نے فیصلہ کن انداز میں اس منقسم الیکشن میں بی جے پی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور اب ہمیں پیچھے دیکھ کر اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے… کمیونسٹ پارٹی کو ا س ا لیکشن میں سنجیدہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم اس کی وجوہات کو تلاش کرکے آئندہ کے لئے سبق سیکھیں گے… آنے والے وقت میں ہمارے سامنے بڑے چیلنج ہیں جیسے اپنی سیکولر و جمہوری ریپبلک، آئینی اداروں، عوامی حقوق اور زندگیوں تحفظ…“
کارل مارکس اکثر ہیگل کو نقل کرتا تھا کہ ”جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے وہ اسے دہرانے کے مرتکب ہوتے ہیں۔“ سیتارام اب بھی اسی نظام اور ریاست کو بچانے کی بات کر رہا ہے جس نے نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کی 19 ریاستوں میں جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ سیکولر جمہوری ریپبلک جس نظام پہ قائم ہے اسی کے بحران کی وجہ سے اندر سے گل سڑ رہی ہے۔ حکمران طبقات نے ممکنہ طبقاتی بغاوت، جو کمیونسٹ پارٹیوں نے اپنے تناظر اور منشور سے خارج کر دی ہے، کو زائل کرنے کے لئے ہی ہندوتوا کی فسطائیت کا راستہ اپنایا ہے۔
مودی سرکار کے خلاف پچھلے تین سالوں سے ستمبر میں ہونے والی عام ہڑتالوں اور پھر کسانوں کی پے درپے تحریکوں نے بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ طبقاتی جدوجہد نہ صرف زندہ ہے بلکہ بھڑک بھی رہی ہے۔ اس بار مودی زیادہ بڑے ’مینڈیٹ‘ کے ساتھ معاشی حملے کرے گا جس کے خلاف محنت کش طبقے کا ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ اگر کمیونسٹ قیادتیں اس حقیقت کو نہیں سمجھتیں اور اپنا قبلہ نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم سے بدل کے طبقاتی جدوجہد کی طرف نہیں آتیں تو تاریخ کے کوڑے دان میں جائیں گی۔ ان کے بغیر بھی تحریکیں تو ابھریں گی اور نئی قیادتیں بھی سامنے آئیں گی۔
انتخابات کے نتائج کسی مخصوص وقت میں سماج کی کیفیت کا پتا دے رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی ٹھہری ہوئی تصویر ہوتی ہے۔ آنے والے دنوں میں حالات و واقعات تیزی سے بدل کے مودی کی جیت سے زیادہ حیران کن صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔