لال خان

28 مئی کو پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کا جشن منایا جاتا ہے۔ اسی قسم کے دن سرحد کے اُس پار ہندوستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی منائے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے ایوانوں سے لے کر میڈیا چینلوں تک، سیاست دانوں سے لے کر دانشوروں تک سب غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گھرے محنت کش عوام کے ذہنوں میں حب الوطنی اور مذہبی جنون کا بارود بھر کے ان کو یہ باورکروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک ایٹمی طاقت کے شہری ہیں جس پر ان کو نازاں ہونا چاہیے۔ حب الوطنی کے جذبے ابھار کر کچلے ہوئے استحصال زدہ طبقات کی بربادی، بھوک، مفلسی اورمحرومی کو وہ قربانیاں قرار دیا جاتا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کی تیاری و ترویج کے لئے دینا ان کا قومی اور مذہبی فریضہ ہے۔ ہر طرف قومی ترانے گائے جاتے ہیں، حب الوطنی کی دھنیں بجائی جاتی ہیں۔ دوسرے ملکوں، قومو ں، مذہبوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے انہی کی طرح غریب اور لاچار انسانوں سے نفرت اور حقارت کو ہوا دی جاتی ہے۔

پہلے کئی نسلوں تک یہاں کے بے کس عوام کو یہ سبق دیا گیا کہ ان کے دفاع کے لئے ایٹم بم ناگزیر ہے۔ آج انہی لوگوں کو یہ درس دیا جارہا ہے کہ اس ایٹم بم کا دفاع ضروری ہے۔ نہ صرف یہاں بلکہ دنیا بھر میں ایٹمی پروگراموں سے وابستہ تمام معلومات عوام سے پوشیدہ اور خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ دنیا میں ایسے ہزاروں مہلک ہتھیاروں کی تیاری پر ہونے والے لا محدود اخراجات کو بے نقاب کرنا تو گویا جرم بنا دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال ہر ایٹمی طاقت میں پائی جاتی ہے۔ امریکہ سے لے کر بھارت اور اسرائیل تک‘ تمام ملکوں میں ایٹمی پروگرام کو اسی طرح مقدس گائے کا درجہ دیا جاتا ہے۔

اس وقت دنیا میں 9 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ممالک امریکہ،روس، چین،فرانس، برطانیہ، اسرائیل، ہندوستان، پاکستان اور کوریا ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لئے کام کرنے والے ایک گروپ (ICAN) کے مطابق یہ ممالک تقریباً 300 ملین ڈالر روزانہ اپنی نیوکلیئر فورسز پر خرچ کر رہے ہیں۔ 2010ء میں ان ممالک نے ایٹمی پروگراموں پر 91 ارب ڈالر جبکہ 2011ء میں 105 ارب ڈالر صرف کیے جو تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر فی گھنٹہ بنتے ہیں۔ یہ اتنی رقم ہے کہ ان ممالک سمیت دوسرے کئی ممالک میں بھی کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکال سکتی ہے۔ لیکن بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جنگی سازوسامان پر اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں اور غربت کے خاتمے پرخرچ ہونے والی رقوم سکڑرہی ہیں۔

ہندوستان میں اس وقت 86 کروڑ انسان 25 روپے یومیہ کی آمدن پرزندہ ہیں۔ برصغیر جنوب ایشیا کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 22 فیصد ہے جبکہ اس خطے میں دنیا کی تقریباً نصف غربت پلتی ہے۔ مختلف محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان اب تک 90 سے 110 ایٹمی ہتھیار تیار کر چکا ہے جبکہ بھارت کے پاس 80 سے 100 ایٹم بم موجود ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے ایٹمی پروگراموں کی بڑھوتری کا جائزہ لیا جائے تو 2021ء تک پاکستان کے پاس 200 جبکہ ہندوستان کے پاس 150 ایٹم بم ہوں گے۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں اور فوجی اشرافیہ کے درمیان ایک اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ غریب عوام کے خون اور پسینے سے نچوڑی جانے والی دولت تباہ کاری کے آلات کی تیاری پر پانی کی طرح بہائی جارہی ہے۔

1940ء کے پہلے نصف حصے میں امریکہ نے 2 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک ایٹم بم تیار کیا تھا۔ ڈالر کی موجودہ قیمت کے مطابق یہ لاگت تقریباً 30 ارب ڈالر (تقریباً چار ہزار پانچ سو ارب روپے) بنتی ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کے پہلے ایٹم بم کے لئے یورینیم کی افزودگی پر امریکہ میں بجلی کی کل پیداوار کا 10 فیصد صرف ہوا تھا۔ اس منصوبے کو ’مین ہیٹن پراجیکٹ‘کہا جاتا ہے جس کی لاگت سے ان ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر ہونے والے اخراجات کا عمومی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان جیسے پسماندہ ممالک کے لئے یہ اتنی رقم ہے کہ اس سے ان ممالک کا بیرونی قرضہ کئی بار اتر سکتا ہے۔ ایٹم بم جدید میزائل ٹیکنالوجی کے بغیر بے کار ہے لہٰذا دور مار بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری پر بھی کھربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگیں سرمایہ دارانہ بحران کی شدت اور منڈیوں پر کنٹرول کے لئے سامراجی طاقتوں کے باہمی تنازعات کی پیداوار تھیں۔ ان جنگوں میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نسبتاً امن کے دور میں بھی 18 کروڑ افراد مختلف قومی تنازعات اور خانہ جنگیوں میں مارے جا چکے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ہیرو شیما اور ناگا ساگی پر برسائے جانے والے ایٹم بموں سے لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے۔ اس وحشت کا مقصد سوویت یونین کو وارننگ دینا تھا کہ وہ مشرقی محاذ پر پیش قدمی نہ کرے تاکہ جاپان میں سرمایہ داری کو بچایا جا سکے۔ 1945ء میں جاپان پر گرائے جانے والے ایٹم بم آج کے ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں پٹاخے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آج اگر ایک ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اتنا گرد و غبار فضا میں ابھرے گا کہ سورج کی روشنی کئی سالوں تک زمین پر نہیں پہنچ پائے گی۔ اس مظہر کو نیوکلیئر ونٹر کہا جاتا ہے۔ اگر ایٹمی حملوں میں نسل انسانی بچ بھی گئی تو نیوکلیئر ونٹر میں اس کا خاتمہ یقینی ہے۔ ایسے آلات کی تیاری کے ذریعے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دولت کے انبار تو لگائے جاسکتے ہیں مگر نسل انسانی کو یہ مہلک ہتھیار کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن اِس نظام کے پالیسی سازوں  کو انسانی سماج، تہذیب حتیٰ کہ خود نسل انسان کی بقا سے کوئی غرض بھی تو نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کے ساتھ کرہ ارض کے ایک ایک انچ پر قبضے کے لئے باہمی چپقلش نے انہیں پاگل کر دیا ہے۔

پاکستان کی 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ اور غربت سے دوچار ہے۔ نصف بچوں کی نشونما نامکمل ہے۔ مودی کے نام نہاد ”شائننگ انڈیا“ میں حالات شاید اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ ہتھیار روایتی ہوں یا غیر روایتی‘ عوام کو بھوک اور محرومی سے نجات نہیں دلا سکتے۔ نہ ہی ان کو علاج، تعلیم، روزگار، بجلی، پانی اور دوسری بنیادی ضروریات فراہم کر سکتے ہیں۔ ہتھیاروں کی صنعت سے اسلحہ ساز سامراجی کمپنیاں ہوشربا منافعے حاصل کرتی ہیں اور حکمرانوں کی تجوریاں بھی بھرتی ہیں۔ اگر لاہور میں ایٹم بم گرے گا تو امرتسر اور دہلی بھی تباہ ہوں گے۔ اگر بمبئی پر گرایا جائے گا تو کراچی اور حیدرآباد بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ دونوں ملکوں میں تابکاری کے اثرات سے کئی نسلوں تک اپاہج بچے پیدا ہوں گے۔ اگر ان ایٹم بموں نے چلنا نہیں ہے تو ان کو بنانے کا مقصد کیا ہے؟ لیکن سرمایہ داری میں آزادی‘ منڈی اور بیوپار کی ہوتی ہے… انسان کی نہیں!