منشی پریم چند

یوں تو میری سمجھ میں دنیا کی ایک ہزار ایک باتیں نہیں آتیں، جیسے لوگ علی الصباح اٹھتے ہی بالوں پر چھرا کون چلاتے ہیں؟ کیا اب مردوں میں بھی اتنی نزاکت آگئی ہے۔ بالوں کا بوجھ ان سے نہیں سنبھلتا۔ ایک ساتھ ہی سبھی پڑھے لکھے لوگوں کی آنکھیں کیوں کمزور ہو گئی ہیں؟ دماغ کی کمزوری ہی اس کا سبب ہے یا اور کچھ؟ لوگ خطابوں کے لئے اتنے حیران ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس وقت مجھے ان باتوں سے مطلب نہیں۔ میرے دل میں ایک نیا سوال اٹھ رہا ہے اور اس کا جواب مجھے کوئی نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ مہذب کون ہے اور نا مہذب کون؟ تہذیب کی علامتیں کیا ہیں؟ سرسری نظر سے دیکھئے تو اس سے زیادہ آسان اور کوئی سوال ہی نہ ہو گا۔ بچہ بچہ اس کا جواب دے سکتا ہے، لیکن ذرا غور سے دیکھئے تو سوال اتنا آسان نہیں معلوم ہوتا۔ اگر کوٹ پتلون پہننا، ٹائی ہیٹ، کالر لگانا، میز پر بیٹھ کر کھانا کھانا، دن میں تیرہ بار قہوہ پینا اور سگارپیتے ہوئے چلنا تہذیب ہے تو ان گوروں کو بھی مہذب کہنا پڑے گا جو سڑکوں پر شام کو کہیں کہیں ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ شراب کے نشے سے آنکھیں سرخ، پیر لڑکھڑاتے ہوئے۔ راستہ چلنے والوں کی خواہ مخواہ چھیڑنے کی دھن۔ کیا ان گوروں کو مہذب کہا جا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ تو یہ ثابت ہوا کہ تہذیب کوئی اور چیز ہے۔ اس کا جسم سے اتنا تعلق نہیں ہے، جتنا دل سے۔

(2)
میرے اِنے گِنے دوستوں میں ایک رائے رتن کشور بھی ہیں۔ آپ بہت ہی نیک دل، بہت ہی سخی بہت زیادہ تعلیم یافتہ اور ایک بہت بڑے عہدے دار ہیں۔ بہت اچھی تنخواہ پانے پر بھی ان کی آمدنی خرچ کے لئے کافی نہیں ہوتی۔ ایک چوتھائی تنخواہ تو بنگلے ہی کی نذر ہو جاتی ہے۔ اس لیے آپ اکثر متفکررہتے ہیں۔ رشوت تو نہیں لیتے، کم از کم میں نہیں جانتا۔ حالاں کہ کہنے والے کہتے ہیں۔ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ وہ سفر خرچ بڑھانے کے لئے دور ے پر زیادہ رہتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے لئے ہر سال بجٹ کے کسی دوسری مد سے روپے نکالنے پڑتے ہیں۔ ان کے افسر کہتے ہیں کہ اتنا دورہ کیوں کرتے ہو تو جواب دیتے ہیں کہ اس ضلع کا کام ہی ایسا ہے کہ جب تک خوب دورے نہ کئے جاویں، رعایا ٹھیک ہی نہیں رہ سکتی۔ لیکن لطف تو یہ ہے کہ رائے صاحب اتنے دورے واقعی نہیں کرتے جتنے وہ اپنے روزنامچہ میں درج کرتے ہیں۔ ان کے پڑاو شہر سے پچاس میل پر ہوتے ہیں۔ خیمے وہاں گڑے رہتے ہیں۔ عملے وہاں پڑے رہتے ہیں اور رائے صاحب گھر پر دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے رہتے ہیں مگر کس کی مجال ہے کہ رائے صاحب کی نیک نیتی پر شک کر سکے۔ ان کے مہذب ہونے میں کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا۔
ایک روز میں ان سے ملنے گیا۔ اس وقت وہ اپنے گھسیارہ دمڑی کو ڈانٹ رہے تھے۔ دمڑی رات دن کا نوکر تھا لیکن روٹی کھانے گھر جایا کرتا تھا۔ اس کا گھر تھوڑی دور پر گاوں میں تھا۔ کل رات کو کسی سبب سے یہاں نہ آ سکا تھا اسی لئے ڈانٹ پڑرہی تھی۔
رائے صاحب۔ ”جب ہم رات دن کے لیے تم کو رکھے ہوئے ہیں تو تم گھر پر کیوں رہے؟ کل کے پیسے کٹ جائیں گے۔“
دمڑی۔ ”حضور ایک مہمان آگئے تھے، اسی سے نہ آسکا۔“
رائے صاحب۔ ”تو کل کے پیسے اسی مہمان سے لے لو۔“
دمڑی۔ ”سرکار اب کبھی ایسی کھتا (خطا) نہ ہو گی۔“
رائے صاحب۔ ”بک بک مت کرو۔“
دمڑی۔ ”ہجور۔۔۔“
رائے صاحب۔ ”دوروپے جرمانہ۔“
دمڑی روتا ہوا چلا گیا۔ روزہ بخشوانے آیا تھا۔ نماز گلے پڑگئی۔ دو روپے جرمانہ ٹھونک دیا گیا۔ خطا یہی تھی کہ بے چارہ قصور معاف کرانا چاہتا تھا۔
یہ ایک رات غیر حاضر ہونے کی سزا تھی۔ بے چارہ دن بھر کا کام کر چکا تھا۔ رات کو یہاں سویا نہ تھا۔ اس کی یہ سزا اور گھر بیٹھے بھتے اڑانے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کوئی سزا نہیں دیتا؟ سزاتو ہے اور ایسی ہے کہ عمر بھر یاد رہے۔ مگر پکڑنا تو مشکل ہے۔ دمڑی بھی اگر ہوشیار ہوتا تو ذرا رات رہے آکر کوٹھری میں سو جاتا۔ پھر کسے خبر ہوتی کہ وہ رات میں کہاں رہا؟ مگر غریب اتنا چالاک نہ تھا۔

(3 )
دمڑی کے پاس کل چھ بسوہ زمین تھی، مگر اتنے ہی آدمیوں کا خرچ بھی تھا۔ اس کے دو لڑکے، دو لڑکیاں اور بیوی سب کھیتی میں لگے رہتے تھے۔ پھر بھی پیٹ بھر کھانے کو روٹیاں میسر نہیں ہوتی تھیں۔ اتنی زمین کیا سونا اگل دیتی؟ اگر سب کے سب گھر سے نکل کر مزدوری کرنے لگتے تو آرام سے رہ سکتے تھے لیکن موروثی کسان مزدور کہلانے کی بے عزتی گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ اس بدنامی سے بچنے کیلئے دوبیل باندھ رکھے تھے۔ اس کی تنخواہ کا کثیر حصہّ بیلوں کے چارہ دانہ ہی میں صرف ہو جاتا تھا۔ یہ ساری تکلیفیں منظور تھیں۔ مگر کھیتی چھوڑ کر مزدور بن جانا منظور نہ تھا۔ کسان کی جو عزت ہے وہ کہیں مزدور کی ہو سکتی ہے۔ خواہ وہ ایک رپیہ روز ہی کیوں نہ کمائے؟ کسانی کے ساتھ مزدوری کرنا اتنی ذلت کی بات نہیں۔ دروازے پر بندھے ہوئے بیل اس کی عزت قائم رکھتے ہیں، مگر بیلوں کو بیچ کر پھر کہاں منہ دکھانے کی جگہ رہ سکتی ہے؟
ایک روز رائے صاحب اسے ٹھنڈ سے کانپتا دیکھ کر بولے۔ ”کپڑے کیوں نہیں بنواتا؟ کانپ کیوں رہاہے؟“
دمڑی۔ ”سرکار پیٹ کی روٹی بھی تو پوری نہیں پڑتی۔ کپڑے کہاں سے بنواوں؟“
رائے صاحب۔ ”بیلوں کو بیچ کیوں نہیں ڈالتا۔؟ سینکڑوں بار سمجھا چکا، لیکن نہ جانے کیوں اتنی موٹی سی بات تیری سمجھ میں نہیں آتی?“
دمڑی۔ ”سرکار برادری میں کہیں منہ د کھانے کے لائق نہ رہوں گا۔ لڑکی کی سگائی نہ ہونے پاوے گی۔ ٹاٹ باہر کر دیا جاوں گا۔“
رائے صاحب۔ ”ان ہی حماقتوں کی وجہ سے تو تم لوگوں کی یہ درگت ہو رہی ہے۔ ایسے آدمیوں پر رحم کرنا بھی گناہ ہے۔ (میری طرف مڑ کر)کیوں منشی جی اس پاگل پن کا بھی کوئی علاج ہے؟ جاڑوں میں مر رہے ہیں، مگر دروازے پر بیل ضرور باندھیں گے۔“
میں نے کہا۔ ”جناب !یہ تو اپنی اپنی سمجھ ہے۔“
رائے صاحب۔ ”اس سمجھ کو دور سے سلام کیجیے۔ میرے یہاں کئی پشتوں سے جنم اشٹمی کا جشن منایا جاتا تھا۔ کئی ہزارروپیوں پر پانی پھیر جاتا تھا۔ گانا ہوتا تھا۔ دعوتیں ہوتی تھیں۔ رشتہ داروں کو نوید وغیرہ بھیجا جاتا تھا۔ غربا کو کپڑے وغیرہ بانٹے جاتے تھے۔ والد صاحب کے بعد اول ہی سال میں نے یہ جلسہ بند کر دیا تھا۔ فائدہ کیا؟ مفت چار پانچ ہزار کی چپٹ پڑتی تھی۔ کل قصبہ میں واویلا مچا، آوازے کسے گئے، کسی نے ناستک بھی کہا ہے، کسی نے عیسائی بنایا۔ لیکن یہاں ان باتوں کی کیا پرواہ۔ آخر چند روز میں سارا کہرام مٹ گیا۔ اجی بڑی دلی لگی تھی۔ قصبہ میں کسی کے یہاں شادی ہو تو لکڑی مجھ سے لے۔ پشت ہاپشت سے یہ رسم چلی آتی تھی۔ والد صاحب تو اوروں سے درخت خرید خرید کر یہ رسم نبھاتے تھے۔ تھی حماقت یا نہیں؟ میں نے فوراًلکڑی دینا بند کردیا۔ اس پر بھی لوگ بہت روئے دھوئے۔ مگر دوسروں کا رونا دھوناسنوں یا اپنا نفع نقصان دیکھوں؟ اس لکڑی ہی سے کم از کم پانچ سو سالانہ کی بچت ہو گئی۔ اب کوئی بھول کر بھی مجھے ان چیزوں کے لئے دق کرنے نہیں آتا۔“
میرے دل میں پھر سوال پیدا ہوا، دونوں میں کون مہذب ہے؟ خاندانی وقار پر جان دینے والا جاہل دمڑی یا روپیہ پر خاندانی وقار کو قربان کرنے والا رائے رتن کشور؟

(4)
رائے صاحب کے اجلاس میں ایک بڑے معرکے کا مقدمہ پیش تھا۔ شہر کا ایک رئیس قتل کے الزام میں ماخوذتھا۔ اس کی ضمانت کے لئے رائے صاحب کی خوشامدیں ہونے لگیں، عزت کی بات تھی۔ رئیس کا حکم تھا کہ چاہے ریاست فروخت ہو جاوے مگر اس مقدمے سے بے داغ نکل آوں۔ ڈالیاں لگائی جانے لگیں۔ سفارشیں پہنچائی گئیں۔ مگر رائے صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا۔ رئیس کے آدمیوں کو اعلانیہ رشوت کا تذکرہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔ آخر جب کوئی بس نہ چلا تو رئیس کی بیوی نے رائے صاحب کی بیوی سے مل کر سودا کرنے کی ٹھان لی۔
رات کے دس بجے تھے۔ دونوں خواتین میں گفتگو ہونے لگی۔ بیس ہزار کی بات چیت تھی۔ رائے صاحب کی بیوی تو اتنی خوش ہوئیں کہ اسی وقت رائے صاحب کے پاس دوڑی ہوئی آئیں اور کہنے لگیں۔ ”لے لو، لے لو، تم نہ لوگے تو میں لے لوں گی۔“
رائے صاحب نے کہا۔ ”اتنی بے صبر نہ ہو۔ وہ تمہیں اپنے دل میں کیا سمجھیں گی؟ کچھ اپنی عزت کا خیال بھی ہے یا نہیں؟ مانا کہ رقم بڑی ہے اور اس میں یکبار گی تمہارے آئے دن کی فرمائشوں سے چھٹکارا پا جاوں گا۔ لیکن ایک سویلین کی عزت بھی تو کوئی معمولی چیز نہیں۔ تمہیں پہلے بگڑ کر کہنا چاہئے تھا کہ مجھ سے ایسی بے ہودہ باتیں کہتی ہو تو یہاں سے چلی جاو۔ میں اپنے کانوں سے نہیں سننا چاہتی۔“
بیوی”یہ تو میں نے پہلے ہی کیا۔ بگڑ کر خوب کھری کھوٹی سنائی، کیا اتنا بھی نہیں جانتی؟ بیچاری میرے پیروں پر سر رکھ کر رونے لگی۔“
رائے صاحب۔ ”یہ کہا تھا کہ رائے صاحب سے کہوں گی تو مجھے کچا ہی چبا جائیں گے۔“
یہ کہہ کر رائے صاحب نے جوشِ محبت سے بیوی کو گلے لگالیا۔
بیوی۔ ”اجی، میں ایسی نہ جانے کتنی باتیں کہہ چکی ہوں، مگر وہ کسی طرح ٹالے نہیں ٹلتی۔۔ رورو کر جان دے رہی ہے۔“
رائے صاحب۔ ”اس سے وعدہ تو نہیں کر لیا؟“
بیوی۔ ”وعدہ !میں تو روپے لے کر صندوق میں رکھ کر آئی ہوں، نوٹ تھے۔“
رائے صاحب۔ ”کتنی بڑی احمق ہو، نہ معلوم ایشور تمہیں سمجھ بھی دے گا یا نہیں۔“
بیوی۔ ”اب کیا دے گا، دینا ہوتی تو دے نہ دی ہوتی۔“
رائے صاحب۔ ”ہاں معلوم توا یسا ہی ہوتا ہے۔ مجھ سے کہا تک نہیں اور روپے لے کر صندوق میں داخل کردیئے۔ اگر کسی طرح بات کھل جائے تو کہیں کا نہ رہوں گا۔“
بیوی۔ ”تو بھئی سوچ لو۔ اگر کچھ گڑبڑ ہو تو میں جا کر روپے واپس کردوں۔“
رائے صاحب۔ ”پھر وہی حماقت!ارے اب تو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔ ایشور پر بھروسہ کر کے ضمانت لینی پڑے گی۔ جانتی ہو، یہ سانپ کے منہ میں انگلی ڈالنی ہے۔ یہ بھی جانتی ہو کہ مجھے ایسی باتوں سے کتنی نفرت ہے۔ پھر بھی بے صبر ہو جاتی ہو۔ اب کی بار تمہاری حماقت سے میرا برت ٹوٹ رہا ہے۔ میں نے دل میں ٹھان لی تھی کہ اب اس معاملے پر ہاتھ نہ ڈالوں گا، مگر تمہاری حماقت کے آ گے میری کچھ چلنے
پاوے۔“
بیوی۔ ”تو میں جاکر لوٹائے دیتی ہوں۔“
رائے صاحب۔ ”اور میں جاکر زہر کھائے لیتا ہوں۔“
ادھر تو میاں بیوی میں یہ ناٹک ہو رہا تھا۔ ادھر دمڑی اسی وقت اپنے گاوں کے مکھیاکے کھیت میں جوار کاٹ رہا تھا۔ آج وہ رات بھر کی چھٹی لے کر گھر گیا تھا۔ دیکھا کہ بیلوں کے لئے چارہ کا ایک تنکا بھی نہیں ہے۔ ابھی تنخواہ ملنے میں کئی دن کی دیر تھی۔ مول لے نہ سکتا تھا۔ گھر والوں نے دن کو کچھ گھاس چھیل کر کھلائی تو تھی۔ مگر اونٹ کے منہ میں زیرہ، اتنی گھاس سے کیا ہوسکتا ہے۔ دونوں بیل بھوکے کھڑے تھے۔ دمڑی کو دیکھتے ہی دونوں پونچھیں کھڑی کر کے ہنکارنے لگے۔ جب پاس گیا تو دونوں اس کی ہتھیلیاں چاٹنے لگے۔ بے چارہ دمڑی من مسوس کر رہ گیا۔ سوچا کہ اس وقت تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ سویرے کسی سے ادھار لے کر چارہ لاوں گا۔
لیکن جب گیارہ بجے رات کو اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ دونوں بیل ابھی تک ناند پر کھڑے ہیں۔ چاند رات تھی دمڑی کو معلوم ہوا کہ دونوں اس کی طرف التجا آمیز نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کو بھوک سے دکھی دیکھ کر اس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ کسان کو اپنے بیل اپنے لڑکے کی طرح پیارے ہوتے ہیں انہیں جانور نہیں بلکہ اپنا دوست اور مدد گار سمجھتا ہے۔ بیلوں کو بھوکا کھڑا دیکھ کر اس کی نیند اچٹ گئی آخر وہ کچھ سوچتا ہوا اٹھا۔ بنسیا نکالی اور چارے کی فکر میں چلا۔ گاوں کے باہر باجرا اور جوار کے کھیت کھڑے تھے۔ دمڑی کے ہاتھ کانپنے لگے۔ لیکن بیلوں کی یاد نے اسے کام پر آمادہ کر دیا۔ چاہتا تو کئی بوچھ کاٹ سکتا تھا، لیکن وہ چوری کرتے ہوئے بھی چورنہ تھا۔ اس نے اتنا ہی چارہ کاٹا جتنا بیلوں کے لئے رات بھر کے لئے کافی ہو۔ سوچا کہ اگر کسی نے دیکھ بھی لیا تو اس سے کہہ دوں گا کہ بیل بھوکے تھے، اس لئے کاٹ لیا۔ اسے یقین تھا کہ تھوڑے سے چارے کے لئے کوئی مجھے پکڑ نہیں سکتا۔ میں کچھ بیچنے کے لئے تو نہیں کاٹ رہا ہوں۔ پھر ایسا بے درد کون ہے جو مجھے پکڑ لے؟ بہت کرے گا اپنے دام لے لے گا۔ اس نے بہت سوچا۔ چارہ کا قلیل ہونا ہی اسے چوری کے الزام سے بچانے کے لئے کافی تھا۔ چارہ اتنا کاٹتا جتنا اس سے اٹھ سکتا۔ اسے کسی نقصان سے کیا مطلب؟ گاوں کے لوگ دمڑی کو چارہ لئے دیکھ کر پکڑتے مگر کوئی
اس پر چوری کا الزام نہ لگاتا۔ لیکن اتفاق سے حلقہ کے تھانے کا سپاہی ادھر آنکلا۔ وہ قریب کے ایک بنیے کے یہاں جو ہونے کی خبر پا کر کچھ اینٹھنے کی فکر میں آیا تھا۔ دمڑی کو چارہ سر پراٹھاتے دیکھا تو اسے شک ہوا اتنی رات گئے کون چارہ کاٹتا ہے۔ ہو نہ ہو کوئی چوری سے کاٹ رہا ہے۔ ڈانٹ کر بولا۔ ”کون چارہ لئے جا رہا ہے، کھڑارہ!“
دمڑی نے چونک کر پیچھے دیکھا تو پولیس کا سپاہی۔ ہاتھ پیر پھول گئے۔ کانپتا ہوا بولا۔
”سرکار تھوڑا سا کاٹا ہے، دیکھ لیجئے۔“
”تھوڑا کاٹا ہو یا بہت۔ ہے تو چوری۔ کھیت کس کا ہے۔“
دمڑی۔ ”بلدیو مہتو کا۔“
سپاہی نے سمجھا تھا، شکار پھنس گیا۔ اس سے کچھ اینٹھ لوں گا۔ مگروہاں کیا رکھا تھا۔ پکڑ کر گاوں میں لایا اور جب وہاں بھی کچھ ہاتھ آتا نہ دکھائی دیا تو تھانہ لے گیا۔ تھانہ دار نے چالان کردیا۔ مقدمہ رائے صاحب ہی کے اجلاس میں پیش ہوا۔
رائے صاحب نے دمڑی کو ماخوذدیکھا تو ہمدردی کے بجائے سختی سے کام لیا۔ بولے۔ ”یہ میری بدنامی کی بات ہے تیرا کیا بگڑا؟ سال چھ مہینے کی سزا ہوجائے گی۔ شرمندہ تو مجھے ہونا پڑ رہا ہے۔ لوگ ہی تو کہتے ہوں گے کہ رائے صاحب کے آدمی ایسے بدمعاش اور چور ہیں۔ تو میرا نوکر نہ ہوتا تو ہلکی سزا دیتا، لیکن تو میرا نوکر ہے اس لئے سخت سے سخت سزا دوں گا۔ میں یہ نہیں سن سکتا کہ رائے صاحب نے اپنے ملازم کے ساتھ رعایت کی۔“
یہ کہہ کر رائے صاحب نے دمڑی کو چھ ماہ کی قیدِ سخت کا حکم سنایا۔
اسی روز انہوں نے اس قتل کے مقدمہ میں ضمانت لے لی۔ میں نے دونوں داستانیں سنیں اور میرے دل میں یہ خیال اور بھی پختہ ہو گیا کہ تہذیب صرف ہنر کے ساتھ عیب کرنے کا نام ہے۔ آپ برے سے برا کام کریں، لیکن اگر آپ اس پر پردہ ڈال سکے توآپ مہذب ہیں، شریف ہیں۔ جنٹلمین ہیں۔ اگر آپ میں یہ وصف نہیں تو آپ غیر مہذب ہیں، دہقانی ہیں، بدمعاش ہیں۔ یہی تہذیب کا راز ہے۔