لال خان

مولانا ظفر علی خان ایک بائیں بازو کا جریدہ ”زمیندار“ کے نام سے نکالتے تھے۔ اس کے ادارئیے کئی صفحات پر پھیلے ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے ایک قریبی دوست نے لمبا اداریہ لکھنے کی وجہ دریافت کی تو مولانا نے مسکرا کر جواب دیا کہ ”بھائی! میرے پاس مختصر اداریہ لکھنے کا وقت نہیں ہوتا۔“ مولانا ظفر علی خان کی یہ گہری بات بہت حد تک درست ہے۔ کچھ موضوعات میں طوالت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر سائنسی نوعیت کی تحریروں پر یہ بات صادق آتی ہے۔ دوسرا اہم سوال جو یار لوگ عام طور پر اٹھاتے رہتے ہیں وہ پیچیدہ اور مشکل اصطلاحات کے استعمال پر ہے۔ آسان اور عام فہم زبان میں لکھنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے تاکہ عام لو گ بھی تحریر کو سمجھ سکیں۔ یہ مطالبہ بالکل درست ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات آسان لکھنا زیادہ مشکل اور مشکل لکھنا آسان ہوجاتا ہے۔ ہر مظہر اتنا سادہ نہیں ہوتاکہ اسے سیدھا سیدھا بیان کیا جاسکے۔ مثلاً طبیعات، کیمسٹری، باٹنی، معاشیات وغیرہ جیسے سائنسی علوم میں متعلقہ اصطلاحات کا استعمال کئے بغیر نہ تو بات بیان کی جاسکتی ہے اور نہ ہی مفہوم واضح ہوتا ہے۔ اصطلاحات کے بغیر ایک حد تک ہی تشریح کی جاسکتی ہے۔ متعلقہ علم سے بنیادی آگاہی رکھنے والا قاری عمومی طور پر ایسی اصطلاحات سے پیشگی واقف ہوتا ہے، یا کم از کم مصنف مزید پیچیدگی اور طوالت سے بچنے کے لئے یہ بات فرض کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

کچھ علوم اور نظریات کا مقصد اور تعلق ہی سماج کی پسماندہ پرتوں سے ہوتا ہے۔ ان طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بنیادی تعلیم سے عاری اور اکثر و بیشتر سفید ان پڑھ ہوتے ہیں۔ تاہم اس عمل کی جدلیات بھی بڑی دلچسپ ہیں۔ جہاں ایک ان پڑھ انسان بہت عقل مند اور باشعور ہوسکتا ہے وہاں بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے مشکل مشکل ڈگریاں لینے والے جاہلوں کی کمی بھی دنیا میں نہیں ہے۔ بہرحال، محنت کش طبقات کے لئے تحریر کی گئی معاشیات، سماجیات، فلسفہ اور خصوصاً سائنسی مارکسزم کو سمجھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا بعض اوقات محنت کشوں کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ صورتحال پڑھنے والے کے ساتھ ساتھ لکھاری کا بھی امتحان لیتی ہے کہ وہ ایک پسماندہ معاشرے میں رہنے والے معاشی و سماجی طور پر کچلے ہوئے انسانوں تک مشکل نظریات کو آسان طریقے سے کیسے پہنچائے؟ یہ پسماندگی، غربت اور ذلت جس نظام کی پیداوار ہیں وہ تاریخی طور پر متروک ہونے کی وجہ سے مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ جس نظام میں اصلاحات یا بہتری کی گنجائش ختم ہوجائے اس سماج میں ناخواندگی اور شعور پستی کی کیفیات میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس متضاد اور کٹھن کیفیت سے نمٹنا ہی بنیادی طور پر ترقی پسند لکھاریوں کے لئے ہمیشہ چیلنج رہا ہے۔

برطانوی معیشت دان فریڈرک شوماکر نے ایک بار کہا تھا کہ ”ذہین جاہل وہ ہوتا ہے جو آسان بات کو طویل اور پیچیدہ بنا دے۔“ ہر لکھاری کا اپنا اندازِ تحریر اور مزاج ہوتا ہے۔ ایک مصنف اگر بہت شفاف اور واضح لکھتا ہے تو دوسرے کا طرز تحریر پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات کم پڑھے لکھے انسان بھی بہت ہی پرزور، بامعنی اور ٹھوس دلائل سے اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔ ایسے لکھاری پیسے یا شہرت کے لئے ”تحریر برائے تحریر“ نہیں کرتے بلکہ ان کے سامنے ابہام سے پاک نظریہ، ٹھوس موقف اور واضح مقصد ہوتا ہے۔ یہ عوامل انداز ِتحریر کو ہی بدل دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ انسان لکھنے میں مہارت حاصل کرنے لگتا ہے۔ ایک فرانسیسی مصنف کے بقول ”انداز ِتحریر ہی انسان کی اصل شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔“ لکھنے کا انداز اور موقف بیان کرنے کا طریقہ انسان کے شعوری ارتقا، فکر، نظرئیے اور عزم کا عکاس ہوتا ہے۔ شعور کا تعین مادی حالات کرتے ہیں اور بعد ازاں شعور ان مادی حالات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلسل جاری رہنے والا جدلیاتی عمل ہے۔ اندازِ تحریر کو سنوارنے کے لئے سوچ کو مسلسل متحرک کرنا پڑتا ہے۔

آئین سٹائن کے مطابق ”چیزوں کو جس حد تک ممکن ہوسکے آسان بنانا چاہئے، لیکن حد سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش بھی نہیں کی جانی چاہئے۔“ بات بیان کرنے کے انداز اور طرز کی اصل موضوع سے مطابقت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ تحریر سے قبل دیکھنا پڑتا ہے کہ متعلقہ سائنس کس حد تک پیچیدہ ہے اور اس میں کتنی سادگی موجود ہے۔ موضوع کی اپنی پیچیدگی کے علاوہ بیرونی زبانوں کے الفاظ بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً اگر مارکس کی ”سرمایہ“ یا البرٹ آئن سٹائن کی مشہور کتاب ”ریلیٹیو یٹی“ (Relativity) کا اردو میں ”مکمل“ ترجمہ کرنے کے چکر میں انگریزی یا جرمن زبان کی ہر اصطلاح کی جگہ اردو الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ ایک مبہم، پیچیدہ اور نہ سمجھ آنے والی تحریر کی شکل میں برآمد ہوگا۔ سائنسی اصطلاحات بہت باریک بین قسم کے مفروضوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اگر ان مروجہ اصطلاحات کو ان سے ملتے جلتے معنی رکھنے والے دوسری زبانوں کے الفاظ سے تبدیل کردیا جائے تو مفروضے کی تشریح اور اساس ہی غائب ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ ایسی اصطلاحات کی تشریح حاشیوں میں کر کے اصل اصطلاح کو ہی دہرایا جائے۔ اسی طرح وہ قاری کے شعور میں سرائیت کرسکتی ہیں۔

اگر موضوع محنت کشوں کی زندگیوں سے مطابقت رکھتا ہو تو وہ زیادہ سہل انداز میں بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ناخواندگی اور جہالت دو الگ چیزیں ہیں۔ ایک ان پڑھ انسان بھی بہت سی باتوں کوباآسانی سمجھ اور پرکھ سکتا ہے۔ لیکن اگر موضوع قاری کے روز مرہ تجربات سے میل نہیں کھاتا اور زیادہ وسیع ہے (مثلاً ریاضی، کمپیوٹر سائنس اور دوسرے زیادہ ایڈوانس سائنسی وفلسفیانہ موضوعات) تو صرف تشریح کردینے سے ادراک کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جسے معاشروں میں محنت کش طبقے کے شعور میں اضافے اور عوامی تحریکوں کو منظم کرنے میں پڑھے لکھے نوجوان اور اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔ لیکن یہ فریضہ’استاد اور شاگرد‘ کے مروجہ رشتوں کے تحت ادا نہیں کیا جاسکتا۔ محنت کشوں کو سکھاتے ہوئے انسان ان کی زندگیوں، ثقافت اور تجربات سے وہ کچھ سیکھتا ہے جو بڑی سے بڑی یونیورسٹی نہیں سکھا سکتی۔ محنت کشوں تک پہنچنے، ان کا اعتماد حاصل کرنے اور ان کی صفوں کا حصہ بننے کے لئے درمیانے طبقے کی فرسودہ نفسیات اور تعصبات کو پاش پاش کرنا پڑتا ہے۔

انسانی سماج میں آبادی کے وسیع حصے کی سوچ عام طور پر روز مرہ زندگی کے فوری تجربات اور مشاہدات کے دائرے میں مقید ہوتی ہے۔ سوچنے کے اس انداز کو عام طور پر ”کامن سینس“ کہا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کی آگاہی صرف سطح کے اوپر جاری سماجی اور معاشی مظاہر تک ہی محدود رہے۔ رائج الوقت معاشی و سماجی نظام کیا ہے؟ کن بنیادوں پر چلتا ہے؟ انسان کن تاریخی مدارج سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے؟ کیا ذاتی ملکیت اور منافع کے علاوہ کسی اور بنیاد پر بھی سماج کی از سر نو تنظیم ممکن ہے؟ کیانام نہاد ”انسانی فطرت“  تبدیل ہوسکتی ہے؟ یہ اور ان جیسے بہت سے دوسرے سوالات کا جواب صرف روز مرہ زندگی کے تجربات پر مبنی ”کامن سینس“ کے ذریعے نہیں دیا جاسکتا۔ کامن سینس کے مطابق زمین چپٹی اور انسان فطرتاً لالچی ہے۔ سرمایہ داری کو حتمی و آخری نظام ماننے والے ایسے لکھاری ماضی کی داستانوں میں غرق رہتے ہیں۔ ان کے پاس مستقبل کا کوئی سائنسی تناظر اور انقلاب کے ذریعے نجات کی کوئی نوید نہیں ہوتی۔ یہ حضرات معاشرے کو ماضی کی جہالت اور تعصبات کے اندھیروں میں دھکیلنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسی تحریریں پڑھ کے دم گھٹنے لگتا ہے اور شیکسپئر کے شہرہ آفاق ڈرامے ”ہیملٹ“ کا یہ مکالمہ ذہن میں آتا ہے:

پولونیس (بادشاہ سے): (اس تحریر میں) آپ نے کیا پڑھا میرے شہنشاہ؟

ہیملٹ: الفاظ، الفاظ، الفاظ۔۔۔

پیچیدہ سماجی اور معاشی عوامل کو سمجھنے کے لئے ایک بلند تر معیار کی سائنس اور فلسفے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مارکسزم انسان کو سماج کی بظاہر بے حرکت سطح کے نیچے جاری تحرک اور تضادات کا ادراک عطا کرتا ہے۔ لہٰذا عوام کی سوچ اور تجربات کے بہاؤ کو ایک وسیع انقلابی نظرئیے کے دھارے سے جوڑنا ہی ایک ترقی پسند جریدے، انقلابی صحافت اور تصانیف کا فریضہ ہے۔

عمومی طور پر محنت کش عوام کا شعور معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کے پیچھے چلتا ہے۔ سماجی شعور کے رائج الوقت سیاست، اقدار، اخلاقیات اور معاشی رشتوں سے آگے بڑھ جانے کا نام ہی انقلاب ہے۔ لیکن ایسا روز روز نہیں ہوتا۔ انقلابات تاریخ کے غیر معمولی واقعات ہوتے ہیں۔ ذلتوں سے بھرے حال سے انقلاب اور نجات کی منزل تک کے درمیانی فاصلے کو مختصر کرنے کے عمل میں شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار، فنکار اور مصنفین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ترقی پسند ادب اور صحافت کو عوام کی روز مرہ زندگی سے منسلک کرکے ہی نسل انسان کی نجات، خوشحالی اور فلاح کا سپنا سچ کیا جاسکتا ہے۔