ٹیڈ گرانٹ
ترجمہ:حسن جان
بیسوی صدی میں عالمی مزدور تحریک کی پوری تاریخ ہمیں وہ مواد فراہم کرتی ہے کہ محنت کش طبقہ اور اس کی تنظیمیں کیسے نشوونما پاتی ہیں۔ کئی دہائیوں تک مزدور تحریک کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس ناگزیر نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب محنت کش طبقہ سماج کو بدلنے کے لیے تاریخ کے میدان میں اترتاہے تو پہلے مرحلے میں وہ ناگزیر طور پر روایتی عوامی تنظیموں کی طرف جاتا ہے۔ اس مظہر کی وجہ زیادہ پیچیدہ نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کی اکثریت کتابوں سے نہیں سیکھتی بلکہ تجربات اور بالخصوص عظیم واقعات کے تجربات سے سیکھتی ہے۔ اسی وجہ سے محنت کشوں کی ہر نسل کو ایک تکلیف دہ تجربے کے ذریعے ماضی کے اسباق کو دوبارہ سیکھنا پڑتا ہے۔ اگر ایک مضبوط اور باشعور مارکسی رجحان موجود ہو تو محنت کش طبقے کا صحیح نتائج پر پہنچنے کا عمل کافی حد تک مختصر ہوجاتا ہے۔ 1917ء میں بالشویکوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ بالشویکوں کی کامیابی کسی طرح بھی پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔
اکتوبر انقلاب کے اسباق
بالشویکوں نے اگرچہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اپنے آپ کو روسی محنت کش طبقے کی بڑی پارٹی کے طور پر قائم کر لیا تھا(1912-1914ءکے دوران وہ منظم محنت کش طبقے کا تین چوتھائی تھے) اس کے باوجود فروری 1917ء میں انقلاب کے آغاز پر وہ ایک چھوٹی سی اقلیت بن گئے تھے۔ جنگ کی وجہ سے ہونے والے مسائل جیسا کہ جبر، حالت جنگ، حب الوطنی کی ابتدائی لہر نے بالشویکوں کو دوسری پارٹیوں کی نسبت زیادہ متاثر کیا۔ انقلاب کے آغاز میں سیاسی طور پر سب سے ناخواندہ عوام میدان میں اتر آئے۔ عوام بالشویکوں کو نہیں جانتے تھے بلکہ وہ جانے پہچانے ناموں، ’بائیں بازو‘ اور ’سوشلسٹ‘ کہلانے والے پارلیمانی لیڈروں کی طرف چلے گئے۔ انقلاب کے دوران عوام نے بتدریج ان کے مفادات کے لیے حقیقی طور پر لڑنے والی اور ان سے غداری کرنے والی پارٹیوں اور رہنماوں میں فرق جان لیا۔ محنت کش طبقے اور ان کی تنظیموں کی طرف درست رویے کے بغیر بالشویک پارٹی کبھی بھی طاقت پر قبضہ نہیں کر سکتی تھی۔
پرولتاری ہراول دستے کا درست پالیسی اختیار کرنا اپنے تئیں انقلاب کرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔ طاقت پر قبضہ کرنے سے پہلے ضروری تھا کہ عوام کو جیتا جائے۔ یہ کام محنت کش طبقے کی تنظیموں کے باہر کھڑے رہ کر محنت کشوں کو بھاشن دے کر نہیں کیا گیا بلکہ سوویتوں، جو فروری کے بعد سے عوام کی نمائندگی کرتی تھیں، میں سرگرم اور پرجوش مداخلت کے ذریعے کیا گیا۔ تاہم شروع میں ستمبر 1917ء تک بالشویک سوویتوں میں چھوٹی سی اقلیت تھے جبکہ منشویکوں اور سوشل انقلابیوں کو غلبہ حاصل تھا جو عبوری حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ لینن نے بالشویکوں کو ”صبر کے ساتھ وضاحت کرو“ کے نعرے کے تحت سوویتوں میں اکثریت حاصل کرنے کو کہا۔
”تمام اختیارات سوویتوں کو منتقل کیے جائیں“ کا نعرہ ہر کوئی جانتا ہے۔ اس نعرے کا اصل مطلب کیا تھا؟ اس بات کا ادراک رکھتے ہوئے کہ بالشویک، جو حقیقی انقلابی رجحان تھے، ایک چھوٹی سی اقلیت تھے، لینن نے اپنی توجہ محنت کشوں کی اکثریت کی طرف مرکوز کی جو ابھی تک منشویکوں اور سوشل انقلابیوں کے زیرِ اثر تھے اور کہا: ہم بالشویک کہتے ہیں کہ امن، روٹی، زمین اور مظلوم قومیتوں کے مسائل کا واحد حل بورژوازی سے ناطہ توڑنے اور تمام طاقت سوویتوں کو منتقل کرنے میں ہے۔ لیکن ہم اقلیت میں ہیں۔ آپ ابھی تک ہمارے تمام نظریات کو قبول نہیں کرتے۔ وہ آپ کو بہت پیش رفتہ اور بہت مشکل لگتے ہیں۔ بہت اچھا! اپنے لیڈروں، سوشل انقلابیوں اور منشویکوںکو طاقت پر قبضہ کرنے دیں۔ ان کے پاس اکثریت ہے۔ وہ کل ہی طاقت پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ انہیں یہ کام کرنے دیں! ہمیں بورژوا پارٹیوں کی کیا ضرورت ہے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں اور جو جنگ کو طوالت دے رہی ہیں؟ اپنے لیڈروں سے کہیں کہ بورژوازی سے ناطہ توڑ دیں اور طاقت اپنے ہاتھوں میں لیں! اگر وہ یہ کام کر جاتے ہیں تو ہم اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ طاقت حاصل کرنے کی جدوجہد صرف سوویتوں میں اکثریت حاصل کرنے تک محدود ہوجائے گی۔
لینن کے لچکدار طریقہ کار اور سوویتو ں میں بالشویکوں کے صبرآزما کام کی وجہ سے ہی وہ ان محنت کشوں کو جیتنے میں کامیاب ہوگئے جو اس سے پہلے منشویک اور سوشل انقلابی لیڈروں کی حمایت کر رہے تھے۔ لینن کے طریقہ کار کا انارکزم یا جذباتی الٹرالیفٹ ازم سے کوئی تعلق نہیں جو یہ تصور کرتے ہیں کہ موقع پرست مزدور لیڈروں کے خلاف جنگ محض مذمت اور گالی گلوچ کے ذریعے جیتی جاسکتی ہے۔ منشویک اور سوشل انقلابی لیڈروں کے سامنے مطالبات رکھ کر لینن نے قیادت، جو عمل میں بتدریج پورے محنت کش طبقے کے سامنے ننگی ہوگئی تھی اور عام کارکنوں کے درمیان دراڑ ڈال دی۔
سٹالنزم اور بالشویزم
لینن نے انقلاب کے بعد مزدور ریاست کے لیے، سرمایہ داری اور سوشلزم کے درمیان عبوری دور کے لیے، چار بنیادی اصول قائم کیے۔ وہ یہ تھے:
۱۔ آزادانہ اور جمہوری انتخابات‘ جس میں عہدیداروں کو واپس بلانے کا حق بھی ہوگا۔
۲۔ کسی سرکاری عہدیدار کی تنخواہ ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوگی۔
۳۔ کوئی مستقل فوج نہیں ہوگی بلکہ عوام کو مسلح کیا جائے گا۔
۴۔ بتدریج ریاست کو چلانے کے فرائض کو باری باری منتقل کیا جائے گا۔ جب ہر کوئی افسر ہوگا تو کوئی بھی افسر نہیں ہوگا۔
سٹالن نے ان تمام اصولوں کو ختم کردیا۔ ریاست ایک دیوہیکل افسرشاہی بن گئی جو لاکھوں افسروں کی مراعات اور اختیارات کی حفاظت کرتی تھی۔ اکتوبر انقلاب کی فتوحات میں سے صرف ایک یعنی قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت رہ گئی جس سے بے پناہ ترقی ہوئی۔
سٹالن نے افسرشاہی، جس نے اکتوبر انقلاب پر قبضہ کرکے اس سے غداری کی، اور ٹراٹسکائیٹس، جنہوں نے بالشویزم اور لینن ازم کے حقیقی نظریات کے دفاع کے لیے جنگ لڑی، کے درمیان ایک خونی لکیر کھینچی۔ لیکن جب ان کو کمیونسٹ انٹرنیشنل سے نکالا بھی گیاتو ٹراٹسکی اور اس کے پیروکار تب بھی اپنے آپ کو کمیونسٹ کہتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹیوں میں جاکر پالیسی کی تبدیلی، مزدور جمہوریت اور پرولتاری بین الاقوامیت کی جنگ لڑتے تھے۔ تاہم اس وقت تمام دروازے سختی سے ان کے لیے بند تھے۔
لیکن جیساکہ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ افسرشاہی کی مراعات یافتہ پرت انقلاب کی شدید پسماندگی کے حالات میں تنہا رہ جانے کی وجہ سے پیدا ہوئی اور جنہوں نے لینن ازم اور اکتوبر انقلاب سے غداری کی۔ نتیجتاً قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا۔ اپنی بے تحاشا مراعات اور آمدنی سے وہ پھر بھی مطمئن نہیں تھی۔ وہ اپنے آپ کو ذرائع پیداوار کا مالک بنانا چاہتی تھی تاکہ اپنی دولت اور مراعات کو اپنے بچوں کو وراثت میں دے سکے۔ آخر میں وہ سرمایہ داری کی طرف اتنی ہی آسانی سے چلی گئی جتنی آسانی سے کوئی شخص ٹرین کا ڈبہ تبدیل کرتا ہے۔
سوویت یونین کے انہدام اور نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کے پرانے لیڈروں کے زہریلے کردارنے کمیونسٹ تحریک میں ایک بالکل نئی صورت حال کو جنم دیا ہے۔ عام کارکنوں اور بالخصوص نوجوانوں میں شدید شکوک و شبہات ہیں۔ وہ تنقید کر رہے ہیں اور سوالات کر رہے ہیں۔ لیکن قیادت کے پاس کوئی جواب نہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن (CPRF) کی لینن اسٹ مخالف پالیسیاں مخلص کمیونسٹوں میں بے چینی بڑھا رہی ہیں لیکن متبادل کیا ہے؟
فراموش شدہ اسباق
اگر CPRF کی قیادت حقیقی کمیونسٹ ہوتی تو روس اس وقت ایک نئے انقلاب کے دروازے پر ہوتا۔ پورے مشرقی یورپ اور سابقہ سوویت یونین میں سابقہ سٹالنسٹ لیڈروں نے سب سے گندا کردار ادا کیا ہے۔ یہ لوگ اتنے زوال پذیر ہوچکے ہیں کہ یہ پرانی سٹالنسٹ حکومت کی طرف واپسی کی بھی وکالت نہیں کرتے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے۔ وہ محنت کش طبقے سے خوفزدہ ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ سرمایہ داری کے خلاف گئے، حتیٰ کہ پرانی افسرشاہانہ حکومت کو دوبارہ قائم کرنے کی نیت کے ساتھ بھی، تو وہ زیادہ عرصہ اقتدار میں ٹک نہیں سکیں گے۔ CPRF کی قیادت محنت کش طبقے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ تاہم ہمیں ایک تضاد کا سامنا ہے۔ سٹالنزم کی تاریخ اور اس حقیقت کے باوجود کہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت ایسی پالیسیوں کا دفاع کر رہی ہے جن کا لینن کی پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں، CPRF کو عوامی حمایت ملی ہے اور یہ حمایت بڑھ رہی ہے۔ کیوں؟ جواب بالکل واضح ہے: کیونکہ دوسرا عوامی متبادل وجود نہیں رکھتا۔ سرمایہ دارانہ رد انقلاب سے تنگ عوام یلسن [سرمایہ داری کی بحالی کے بعد روس کا پہلا صدر] کے رجعتی ٹولے اور سرمایہ داری سے نفرت اور مخالفت کااظہار کرنے کے لیے راستہ تلاش کر رہی ہے۔ الیکشن میں اپنی مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے وہ کس کو ووٹ دیں گے؟ دراصل CPRF کو ووٹ دینے کا مطلب سرمایہ داری کی مخالفت کرنا ہے۔ اگر ہم نے فرقہ پرور غلطیوں سے بچنا ہے اور بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے محنت کشوں سے رابطہ منقطع نہیں کرنا تو ہمیں ان چیزوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔
ہمیں اس عمل کو اسی طرح دیکھنا ہوگا جیسا کہ وہ معروضی طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں چیزوں کو محنت کش طبقے کی آنکھوں سے دیکھنا ہوگا نہ کہ کسی چھوٹے فرقہ پرور گروہ کی نظر سے۔ محنت کش طبقہ کبھی بھی چھوٹی تنظیموں کی طرف نہیں جاتا حتیٰ کہ ان تنظیموں کے پروگرام ہزار فیصد درست ہی کیوں نہ ہوں، وہ ان گروہوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتا اور ناگزیر طور پر پہلے سے موجود عوامی تنظیموں کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے۔ عوام بار بار CPRF کی طرف جائیں گے (اور کسی حد تک RKRP [رشین کمیونسٹ ورکرز پارٹی] کی طرف) کیونکہ دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگرچہ زیوگانوف [کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ] اور اس کا ٹولہ اقتدار میں نہیں آنا چاہتا (درج بالا وجوہات کی بنا پر) اور وہ کسی اتحاد کا حصہ بننے کو ترجیح دیں گے جسے وہ سرمایہ داری مخالف پالیسیاں نہ اپنانے کا جواز بنائیں گے لیکن جب محنت کش طبقہ ایک خاص وقت میں تحریک میں اترے گا تو وہ انہیں زبردستی اقتدار میں بٹھائے گا۔ اس سے جلد ہی پارٹی کے صفوں میں ایک بحران پیدا ہوگااور دھڑے بندیوں کا سلسلہ شروع ہوگاجس میں نوجوانوں اور مزدوروں کے بہترین حصے حقیقی انقلابی پالیسی کی تلاش میں بائیں جانب جائیں گے۔ اگر اس عمل سے پہلے ہی ایک حقیقی لینن اسٹ رجحان بڑی تعداد میں موجود ہو تو یہ ممکن ہوگا کہ بائیں بازو کو بالشویزم اور لینن ازم کے نظریات سے مسلح کیاجائے اور عوامی کمیونسٹ رجحان قائم کیا جائے اور پھر ایک پارٹی تخلیق کی جائے۔ اس سے نہ صرف روس بلکہ عالمی سطح پر بھی حالات مکمل طور پر تبدیل ہوجائیں گے۔
ہمیں عوامی تنظیموں کے سوال کو رسمی طور پر نہیں بلکہ جدلیاتی انداز میں دیکھنا چاہیے۔ یہ بات لازمی ہے کہ ہم زیوگانوف اور کمیونزم کو ذہن میں رکھ کر CPRF کو ووٹ دینے والے مزدوروں کے درمیان فرق روا رکھیں۔ CPRF کی صفوں میں نہ صرف بیوروکریٹس اور مفاد پرست لوگ بیٹھے ہیں بلکہ مخلص کمیونسٹ بھی ہیں جو حقیقی انقلابی راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا اور ان سے اس انداز میں بات کریں کہ انہیں سمجھ آجائے اور انہیں لینن اسٹ پروگرام پر جیتا جائے۔ یہی بات RKRP کے بارے میں بھی درست ہے جہاں قیادت کی تمام تر سٹالنسٹ پالیسیوں کے باوجود نوجوانوں اور مزدوروں کی بڑی تعداد نے حقیقی کمیونسٹ پالیسیوں کی خاطر پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔
سوویتیں، یونینز اور پارٹی
محنت کش طبقہ چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو خاطر میں نہیں لاتا، اس بات کو عملاً روس میں دیکھا جاسکتا ہے جب ہم ٹریڈ یونین کے شعبے کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پرانی حکومت کے خاتمے کے بعد چھوٹی چھوٹی نام نہاد ’آزاد‘ ٹریڈ یونینز بننا شروع ہوئیں۔ بائیں بازو کے بہت سے مزدوروں اور نوجوانوں نے پرانی سٹالنسٹ ’یونینز‘ کو مسترد کرتے ہوئے ان میں شمولیت اختیار کی۔ سٹالنسٹ حکومت میں یہ کسی بھی طرح یونینز نہیں تھیں بلکہ افسرشاہانہ آمرانہ ریاست کا اوزار تھیں۔ ان کا مقصد مزدوروں کی نمائندگی کرنا نہیں بلکہ ان کی جاسوسی اور ان کو لگام دینا تھا۔ یہ لینن کی ٹریڈ یونین کی پالیسیوں کے بالکل برخلاف تھا جس میں اس نے زور دیا تھا کہ ٹریڈ یونین کو ریاست سے بلکہ مزدور ریاست کی مداخلت سے بھی آزاد ہونا چاہیے۔
آج ایک دہائی کے تجربات کے بعد روس میں ان نام نہاد ’آزاد ‘ ٹریڈ یونینز کی حاصلات کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ FNPR [فیڈریشن آف انڈیپنڈنٹ ٹریڈ یونینز آف رشیا، جو بنیادی طور سوویت دور کی ٹریڈ یونیز سے برآمد ہونے والی روایتی یونین فیڈریشن ہے] کی جگہ لینے کے عظیم منصوبوں کا کیا بنا؟ سب کھوکھلی باتیں ثابت ہوئیں۔ ایک دو کو چھوڑ کر، ٹریڈ یونین کے یہ تمام گروہ بدعنوان اور رجعتی بورژوا تنظیموں میں تبدیل ہوگئے ہیں جن کا محنت کش طبقے میں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ یقیناً CPRF کی طرح FNPR کی قیادت بھی حقیقی پرولتاری
پالیسی نہیں رکھتی۔ لیکن لاکھوں مزدور آج بھی اس میں موجود ہیں، شماکوف اور اس کے ٹولے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سب کے باوجود مزدور ایک کل روسی ٹریڈ یونین تنظیم کی ضرورت کو خوب سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک کے بعد دوسرے علاقوں میں مقامی سطح پر مزدوروں نے پرانی افسرشاہی کو نکال باہر کرکے یونینوں کا انتظام خود سنبھال لیا ہے اور FNPR کو حقیقی مزدور یونین میں تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں واقعات کی نوعیت کس طرح کی ہوگی۔ یہ لینن کی اس بات کو بالکل درست ثابت کرتی ہے کہ کمیونسٹوں کو حتیٰ کہ سب سے رجعتی یونینوں میں بھی کام کرنا چاہیے تاکہ مزدوروں کو جیت سکیں۔
اپنی آخری تحریروں میں ایک ”ٹریڈ یونین، سامراجی زوال کے عہد میں“ میں ٹراٹسکی نے واضح کیا تھا کہ ٹریڈ یونین کی افسرشاہی میں ریاست کے ساتھ مل جانے کا ایک نامیاتی رجحان موجود ہے۔ روس سمیت بہت سے ملکوں میں ہمیں یہ رجحان نظر آتا ہے۔ شماکوف اور FNPR کے دوسرے لیڈروں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ بورژوازی اور ریاست کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچ کر اپنی مراعات کو محفوظ بناسکتے ہیں اور [طبقاتی] جنگ لڑنے کی ضرورت سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ یہ ایک احمقانہ سوچ ہے۔ اصلاح پسند جو اپنے آپ کو سب سے بڑے حقیقت پسند سمجھتے ہیں، بد ترین یوٹوپیائی بن جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر سرمایہ داری کے عمومی بحران اور روس میں پیداواری قوتوں کے مکمل انہدام کے پیش نظر کسی طرح کا [طبقاتی] سمجھوتہ ناممکن ہے۔ بڑی لڑائیاں ناگزیر ہیں جس سے روس میں طاقت کا سوال مرکزی حیثیت اختیار کرے گا۔ ٹریڈ یونینز اندر سے ہل جائیں گی۔ عوام کے دباو کے تحت [روایتی] قیادت کو جدوجہد پر اترنا ہوگا یا پھر زیادہ لڑاکا قیادت انہیں پچھاڑ کر آگے نکل جائے گی۔ محنت کش، جدوجہد کے دوران اپنی تنظیموں کو تبدیل کریں گے۔ یہ عمل کچھ علاقوں میں شروع ہوچکاہے اور جاری رہے گا۔