سعادت حسن منٹو
میں گجرات کاٹھیاواڑ کا رہنے والا ہوں۔ ذات کا بنیا ہوں۔ پچھلے برس جب تقسیم ہندوستان کا ’ٹنٹا‘ ہوا تو میں بالکل بیکار تھا۔ معاف کیجئے گا میں نے لفظ ٹنٹا استعمال کیا۔ مگر اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ اردو زبان میں باہر کے لفظ آنے ہی چاہیں۔ چاہے وہ گجراتی ہی کیوں نہ ہوں۔
جی ہاں میں بالکل بیکار تھا۔ لیکن کوکین کا تھوڑا ساکاروبار چل رہاتھا۔ جس سے کچھ آمدن کی صورت ہی ہو جاتی تھی۔ جب بٹوارہ ہوا تو اِدھر کے آدمی ادھراور ادھر کے اِدھر ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے لگے۔ تو میں نے سوچا چلو پاکستان چلیں۔ کوکین کا نہ سہی کوئی اور کاروبار شروع کر دوں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل پڑا اور راستے میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے دھندے کرتا پاکستان پہنچ گیا۔
میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ کوئی موٹا کاروبار کروں گا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی میں نے حالات کو اچھی طرح جانچا اور الاٹمنٹوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مسکہ پالش مجھے آتا ہی تھا، چکنی چپڑی باتیں کیں، ایک دو آدمیوں کے ساتھ یارانہ گانٹھا اور ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کرا لیا۔ اس سے کافی منافع ہوا تومیں مختلف شہروں میں پھر کر مکان اور دکانیں الاٹ کرانے کا دھندا کرنے لگا۔
کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کر نا پڑتی ہے۔ مجھے بھی چنانچہ الاٹمنٹوں کے سلسلے میں کافی تگ ودو کرنی پڑی۔ کسی کو مسکہ لگایا، کسی کی مٹھی گرم کی، کسی کو کھانے کی دعوت دی، کسی کو ناچ رنگ کی، غرضیکہ بے شمار بکھیڑے تھے، دن بھر خاک چھانتا، بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپہ چپہ دیکھ کر اچھا مکان تلاش کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔
انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی۔ چنانچہ ایک برس کے اندر اندرمیں نے لاکھوں روپے پیدا کر لیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کے لیے کوٹھی، بینک میں بے انداز مال پانی۔۔۔ معاف کیجئے گا میں کاٹھیاواڑ گجرات کا روز مرہ کا لفظ استعمال کر گیا۔ مگر کوئی داندہ نہیں اردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہیں۔۔۔ جی ہاں اللہ کا دیا سب کچھ تھا رہنے کے لیے بہترین کوٹھی، نوکر چاکر، پیکارڈ موٹر، بینک میں ڈھائی لاکھ روپے، کارخانے اور دوکانیں الگ۔۔۔ یہ سب تھا۔ لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندا کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا، لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھر یوں کہیے کہ بوجھ اتنا آن پڑا تھاکہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟
آدمی ذہین ہوں، دماغ میں کوئی سوال پیدا ہو جائے تو میں اسکا جواب ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں، ٹھنڈے دل سے (حالانکہ دل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا) میں نے غور کرنا شروع کیا کہ اس گڑ بڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟
عورت؟۔۔۔ ہو سکتی ہے۔ میری اپنی تو کوئی تھی نہیں۔ جو تھی وہ کاٹھیاواڑ گجرات ہی میں اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔ اپنا اپنا ٹیسٹ ہے، سچ پوچھئے تو عورت جوان ہونی چاہیے اور یہ ضروری نہیں کے زیادہ پڑی لکھی ہو۔ اپن کو تو ساری جوان عورتیں چلتی ہیں(کاٹھیاواڑ گجرات کا محاورہ ہے جس کا اردو میں نعم البدل موجود نہیں)عورت کا تو سوال ہی اٹھ گیا اور دولت کا تو پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ بندہ زیادہ لالچی نہیں۔ جو کچھ ہے اسی پر قناعت ہے۔۔۔ لیکن پھر یہ دل والی بات کیوں پیدا ہو گئی تھی؟ آدمی ذہین ہوں کوئی مسئلہ سامنے آجائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کارخانے چل رہے تھے۔ دوکانیں بھی چل رہی تھیں۔ روپیہ اپنے آپ پیداہو رہاتھا۔ میں نے الگ تھلگ ہو کر سوچنا شروع کیا اور بہت دیر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔ کاٹھیاواڑ گجرات میں تو بیسیوں نیک کام کیے تھے۔ مثال کے طور پرجب میر ادوست پانڈومر گیا تو میں نے اس کی رانڈ کو اپنے گھر ڈال دیااور دو برس تک اسکو دھندا کرنے سے روکے رکھا۔ ونائک کی لکڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو اسے نئی خرید دی۔ تقریباچالیس روپے اس پر اٹھ گئے تھے۔ جمنابائی کو گرمی ہو گئی۔ سالی کو (معاف کیجئے گا) کچھ پتاہی نہیں تھا۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چھ مہینے برابر اس کا علاج کراتا رہا۔ لیکن پاکستان آ کر میں نے کوئی نیک کام نہیں کیاتھااور دل کی گڑبڑ کی وجہ یہی تھی ورنہ اور سب ٹھیک تھا۔ میں نے سوچا کیاکروں؟
خیرات دینے کا خیال آیا۔۔۔ لیکن ایک روز شہر میں گھوما تو دیکھا کہ قریب قریب ہر شخص بیکاری ہے۔ کوئی بھوکا ہے کوئی ننگا، کس کس کا پیٹ بھروں، کس کا انگ ڈھانکوں؟ سوچا ایک لنگر خانہ کھول دوں۔ لیکن ایک لنگر خانے سے کیا ہوتااور پھر اناج کہاں سے لاتا؟ بلیک مارکیٹ سے خریدنے کا خیال پیدا ہواتو یہ خیال بھی ساتھ ہی پیدا ہو گیا کہ ایک طرف گناہ کر کے دوسری طرف کارِ ثواب کا مطلب کیاہے؟
گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر میں نے لوگوں کے دکھ درد سنے۔ سچ پوچھیے تو ہر شخص دکھی تھا۔ وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں۔ اور وہ بھی جو اونچی اونچی حویلیوں میں رہتے ہیں۔ پیدل چلنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کار کا نیا ماڈل نہیں۔ ہر شخص کی شکایت اپنی اپنی جگہ درست تھی۔ ہر شخص کی حاجت اپنی اپنی جگہ معقول تھی۔
میں نے غالب کی ایک غزل اللہ بخشے شوال پوری کی امینہ بائی چتلے کر سے سنی تھی، ایک شعر یاد رہ گیاہے۔ ’کس کی حاجت رواکرے کوئی۔‘
معاف کیجئے گا یہ اس کا دوسرا مصرعہ ہے اور ہو سکتا ہے پہلاہی ہو۔
جی ہاں۔ میں کس کس کی حاجت روا کرتا جب سو میں سے سو ہی حاجت مند تھے۔ میں نے پھر یہ بھی سوچا کہ خیرات دینا کوئی اچھا کام نہیں۔ ممکن ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن میں نے مہاجرین کے کیمپوں میں جا جا کر جب حالات کا اچھی طرح جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خیرات نے بہت سے مہاجرین کو بالکل ہی نکما بنا دیا ہے۔ دن بھر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، تاش کھیل رہے ہیں، جگا ہو رہی ہے، جگا کا مطلب ہے قمار بازی۔ گالیاں بک رہے ہیں اور فوگٹ یعنی مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھلا پاکستان کو مضبوط بنانے میں کیا مدد دے سکتے تھے۔ چنانچہ میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ بھیک دینا ہر گز نیکی کا کام نہیں۔ لیکن پھر نیکی کے کام کیلئے اور کون سا راستہ ہے؟
کیمپوں میں دھڑا دھڑ آدمی مر رہے تھے۔ کبھی ہیضہ پھوٹتا تھا کبھی پلیگ۔ ہسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ قریب تھا کہ ایک ہسپتال بنوا دوں مگر سوچنے پر ارادہ ترک کر دیا۔ پوری سکیم تیار کر چکا تھا۔ عمارت کیلئے ٹینڈر طلب کرتا۔ داخلے کی فیسوں کا روپیہ جمع ہو جاتا۔ اپنی ہی ایک کمپنی کھڑی کر دیتا اور ٹینڈر اس کے نام نکال دیتا۔ خیال تھا ایک لاکھ روپے عمارت پر صرف کروں گا۔ ظاہر ہے کہ 70 ہزار روپے میں عمارت کھڑی کر دیتااور تیس ہزار روپے بچا لیتا۔ مگر یہ ساری کی ساری سکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ جب میں نے
سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچا لیا گیا تو یہ جو زائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہو گی۔
غور کیا جائے تو یہ سارے کا سارہ لفڑہ ہی فالتو آبادی کا ہے۔ اب لوگ بڑھتے جائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینیں بھی ساتھ ساتھ برھتی جائیں گی۔ اناج زیادہ اگے گا۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچاکہ ہسپتال بنانا ہر گز ہرگز نیک کام نہیں۔ پھر سوچا مسجد بنوا دوں۔ لیکن اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر کا گایا ہواایک شعر یاد آگیا۔ ’نام منجور ہے تو فیج کے اسباب بنا۔‘ وہ منظور کو منجور اور فیض کو فیج کہا کرتی تھی۔ نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا۔ پل بنا، چاہ بناہ، مسجد وتالاب بنا۔ کسی کمبخت کو نام ونمود کی خواہش ہے۔ وہ جو نام اچھالنے کے لیے پل بناتے ہیں، نیکی کا کیا کام کرتے ہیں؟ خاک!
میں نے کہا نہیں۔۔۔ یہ مسجد بنوانے کا خیال بالکل غلط ہے۔ بہت سی الگ الگ مسجدوں کا ہونا بھی قوم کے حق میں ہر گز مفید نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ عوام بٹ جاتے ہیں۔ تھک ہار کر میں حج کی تیاریاں کر رہا تھاکہ اللہ میاں نے مجھے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ شہر میں ایک جلسہ ہوا، جب ختم ہوا تو لوگوں میں بد نظمی پھیل گئی۔ اتنی بھگدڑ مچی کہ تیس آدمی ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی خبر دوسرے روز اخباروں میں چھپی تو معلوم ہوا کہ وہ ہلاک نہیں بلکہ شہید ہوئے تھے۔ میں نے سوچنا شروع کیا۔ سوچنے کے علاوہ کئی مولویوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اچانک حادثوں کا شکار ہوتے ہیں انہیں شہادت کا رتبہ ملتا ہے۔ یعنی وہ رتبہ جس سے بڑا کوئی اور رتبہ بھی نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگ مرنے کے بجائے شہید ہوا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ جو عام موت مرتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کی موت بالکل اکارت جاتی ہے۔ اگر وہ شہید ہو جاتے تو کوئی بات بنتی۔ میں نے اس باریک بات پر اور غور کرنا شروع کیا۔
چاروں طرف جدھر دیکھو خستہ حال انسان تھے۔ چہرے زرد، فکروتردد اور غمِ روزگار کے بوجھ تلے پسے ہوئے، دھنسی ہوئی آنکھیں، بے جان چال، کپڑے تار تار۔ ریل گاڑی کے کنڈم مال کی طرح منہ اٹھائے بے مطلب گھوم رہے ہیں، کیوں جی رہے ہیں کس کے لیے جی رہے ہیں اور کیسے جی رہے ہیں، اسکا کچھ پتا ہی نہیں۔ کوئی وبا پھیلی ہزاروں مر گئے اور کچھ ہیں جو بھوک اور پیاس سے ہی گھل گھل کر مرے۔ سردیوں میں اکڑ گئے، گرمیوں میں سوکھ گئے۔ کسی کی موت پر کسی نے دو آنسو بہا دئیے۔ اکثریت کی موت خشک ہی رہی۔ زندگی سمجھ میں نہ آئی۔۔۔ ٹھیک ہے۔ اس سے لطف نہ اٹھایا یہ بھی ٹھیک ہے۔ وہ کس کا شعر ہے امینہ بائی درد بھری آواز میں گایاکرتی تھی۔ ’مر کے بھی چین نہ پایاتو کدھر جائیں گے۔‘
میرا مطلب ہے اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سسری پر۔ میں نے سوچاکیوں نہ بیچارے یہ قسمت کے مارے بیچارے، درد کے ٹھکرائے ہوئے انسان جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں، اس دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ وہ جو اس دنیا میں ان کی طرف نگاہ اٹھانا پسند نہیں کرتے وہاں ان کو دیکھیں اور رشک کریں۔ اس کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہوں۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے تیار ہوں گے؟ میں نے سوچا کیوں نہیں وہ کون سامسلمان ہے جسکو ذوق شہادت نہیں۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی تو ہندووں اور سکھوں میں بھی یہ رتبہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ لیکن مجھے سخت ناامیدی ہوئی۔ جب میں نے ایک مریل آدمی سے پوچھا کہ کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو؟ تو جواب ملانہیں۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ آدمی جی کر کیا کرے گا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کے دیکھو بڑے میاں زیادہ سے زیادہ کم ڈیڑھ مہینہ اور جیو گے۔ چلنے کی تم میں سکت نہیں، کھانستے کھانستے غوطے میں جاتے ہوتو ایسا لگتا ہے کہ بس دم نکل گیا۔ پھوٹی کوڑی تمہارے پاس نہیں ہے، زندگی بھر تم نے سکھ نہیں دیکھا، مستقبل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاپھر اور جی کر کیا کرو گے۔ فوج میں تم بھرتی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے محاذ پر اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دینے کا خیال بھی عبث ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کوشش کر کے یہیں بازار میں یاڈیرے میں جہاں تم سوتے ہو اپنی شہادت کا بندوبست کر لو۔ اس نے پوچھا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے جواب دیاکہ سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہے فرض کر لیا کے تم اس پر سے پھسل جاو۔ ظاہر ہے کہ تم مر جاو گے اور شہادت کا رتبہ پاو گے۔ پڑی بات اسکی سمجھ میں، کہنے لگامیں کیوں آنکھوں دیکھے چھلکے پر پاوں دھرنے لگا۔۔۔ کیا مجھے اپنی جان عزیز نہیں۔ اللہ اللہ کیا جان تھی۔۔۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ! جھریوں کی گٹھری۔۔۔ مجھے بہت افسوس ہوا اور اس وقت اور بھی زیادہ ہوا جب میں نے سنا کہ وہ کمبخت جو بڑی آسانی سے شہادت کا رتبہ پا سکتا تھا خیراتی ہسپتال میں لوہے کی چار پائی پر کھانستاکھنگارتامر گیا۔
ایک بڑھیا تھی، منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔۔۔ آخری سانس لے رہی تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ غریب کی ساری عمر مفلسی اور رنج و غم میں گزری تھی۔ میں اسے اٹھا کر ریل کی پٹڑی پر لے کر گیا۔ لیکن جونہی اس نے ٹرین کی آواز سنی ہوش میں آگئی اور کوک بھرے کھلونے کی طرح اٹھ کر بھاگ گئی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری۔۔۔ بنیے کا بیٹا اپنی دھن کا پکا ہوتا ہے، نیکی کا جو صاف اور سیدھا راستہ مجھے نظر آیا تھا میں نے اس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ مغلوں کے دور کا ایک بہت بڑا احاطہ خالی پڑا تھا، اس میں ایک سو اِکاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ بہت ہی خستہ حالت تھی۔ میری تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کی چھتیں ڈھے جائیں گی۔ چنانچہ میں نے اس احاطے کو ساڑھے دس ہزار روپے میں خرید لیااورا س میں ہزار مفلوک الحال آدمی بسا دیئے۔ دو مہینے کرایہ وصول کیا، ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے۔ تیسرے مہینے جیسے کہ میرا اندازہ تھا، پہلی ہی بڑی بارش میں سب کمروں کی چھتیں نیچے آرہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے شہید ہو گئے۔ وہ جو میرے دل پر بوجھ بوجھ سا تھا کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ آبادی میں سے سات سو آدمی بھی کم ہو گئے اور انہیں شہادت کا رتبہ بھی مل گیا۔ ادھر کاپلڑا بھاری ہی رہا۔
جب سے میں یہی کام کر رہا ہوں۔ حسب توفیق میں ہر روز دو تین آدمیوں کو جام شہادت پلادیتا ہوں۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو جس کا پورا وجود چھکڑے کے پانچویں پہیے کی طرح بے معنی اور بیکار تھا، جام شہادت پلانے کے لیے مجھے پورے دس دن جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گرانے پڑے۔ لیکن موت کی طرح شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ دسویں روزجاکر وہ پتھریلے فرش پر کیلے کے چھلکے پر سے پھسلا اور شہید ہوا۔
آجکل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوارہا ہوں۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے۔ دو لاکھ کا ہے، اس میں سے پچھترہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرا لیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے تو ساری بلڈنگ اڑاڑا دھم گر پڑے گی۔ کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایا ہے۔ اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری پوری امید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ پرلے درجے کا گنہگار ہے۔ جس کی شہادت اللہ تبارک وتعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔