لال خان

4 اور 5 جولائی 1977ء کی درمیانی رات اس بدنصیب ملک کی تاریخ کا سب سے بھیانک موڑ تھا۔ امریکی سامراج کی ایما پر شروع کئے گئے ”آپریشن فیئر پلے“ کے تحت جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر شب خون مارا اور پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ ایک عہد کا آغاز تھا جس میں کلاشنکوف کلچر، مذہبی منافرت، فرقہ واریت، منافقت، منشیات اور کالے دھن کا زہر سماج کی رگوں میں اتار دیا گیا۔ ظلم و جبر کی ایک یلغار تھی جس کے ذریعے مزدور تحریک، ٹریڈ یونین اور طلبہ تنظیموں کو کچلا گیا۔ بائیں بازو کے ہر رجحان کو ہر ممکن حد تک ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ سر عام کوڑے مارنا اور ملٹری عدالت میں جعلی کیس چلا کر تختہ دار پر لٹکانا معمول رہا۔ پاکستان جیسے پسماندہ اور آفت زدہ ممالک میں بھی ایسی درندگی کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔

ثقافت اور سیاست کو مسخ کر دیا گیا۔ آرٹ اور سینما کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ شہروں کی رونق بجھ سی گئی۔ نجی زندگی میں مذہبی رجعت کو اس وحشت سے ٹھونسا گیا کہ سماج کا دم گھٹنے لگا۔ خواتین (خاص کر محنت کش طبقے کی) اس وحشی آمریت کے نشانے پر رہیں۔ نہ صرف ”چادر اور چار دیواری“ کی آڑ میں انہیں نفسیاتی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا بلکہ سیاسی اور معاشی زندگی میں ان کی شراکت مسدود کر کے جنسی استحصال میں بیش بہا اضافہ کیا گیا۔ کالونی ٹیکسٹائل مل (ملتان) میں قتل عام اور 1983ء میں سندھ میں ’MRD‘ تحریک پر بدترین ریاستی جبر جیسے واقعات تسلسل اختیار کر گئے۔ محنت کش طبقے کی یکجہتی کو توڑنے کے لئے کراچی جیسے صنعتی شہروں میں لسانی یا فرقہ ورانہ تعصبات کے بیج بوئے گئے۔

28 اپریل 1978ء کو افغانستان میں جاگیر داری، سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف برپا ہونے والے ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے امریکہ اور عرب حکمرانوں کی معاونت سے مذہبی جنون کی فیکٹریاں اسی عہد میں لگائی گئیں۔ اسلامی بنیاد پرستی اور ”جہاد“ ریاستی پالیسی کے بنیادی ستون بن گئے۔ ڈالر جہاد کے لئے کرائے کے قاتل بڑے پیمانے پر مقامی طور پر بھی تیار کئے گئے اور ’درآمد‘ بھی ہوئے۔ ترقی پسند طلبہ سیاست کو اسلامی بنیاد پرست اور فاشسٹ تنظیموں کے ذریعے کچلنے کا عمل شروع کیا گیا۔ بڑے تعلیمی اداروں میں خاص طور پر ایسی تنظیموں کو ریاستی پرستی میں مسلط کیا گیا جس سے طلبہ کا سیاسی شعور اور ان اداروں کی ثقافت اور روایات مسخ ہو کر رہ گئیں۔ طلبہ سیاست پر اس عہد میں لگائی گئی پابندی کئی ”جمہوری حکومتیں“ آنے جانے کے باوجود آج بھی برقرار ہے۔

ریاست کی سپانسرڈ رجعت اور سماجی گھٹن کے اس ماحول میں لمپنائیزیشن، بیگانگی، پراگندگی، بدعنوانی، منافقت، جرائم اور ’کمرشلائیزڈ ملائیت‘ جیسے ناسور ہی جنم لے سکتے تھے۔ فن اور کھیل سے وابستہ شہرت یافتہ شخصیات اور دوسرے سماجی شعبوں کے با اثر افراد کے پاس دو ہی راستے تھے: آمریت اور اس کی ’اسلامائیزیشن‘ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے جائیں یا پھر علم بغاوت بلند کیا جائے۔ اس درمیانے طبقے کی اکثریت نے ”مصالحت“ کرنے کو ترجیح دی، آج کی طرح ضمیر کا سودا کر لینے والوں کی کمی تب بھی نہ تھا۔ لیکن مذہب کی آڑ میں کھلے جبر کے راج کو للکارنے والے تب بھی تھے، ہر عہد میں ہوتے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ایسی ہر آواز کو خاموش کر دینے کے لئے ہر طرح کی وحشت ڈھائی گئی۔ احمد فراز کی نظم ”محاصرہ“ کے کچھ اشعار اس معرکے کی خوب منظر کشی کرتے ہیں:

میرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے
سو شرط یہ ہے کہ جو جاں کی اماں چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو…

جس بنیادی مقصد کے لئے سامراج نے اس آمریت کو مسلط کیا تھا، اس پر کم ہی بات ہوتی ہے۔ امریکہ سامراج کے اسٹریٹجک مقاصد اپنی جگہ، لیکن صرف یہی ایک وجہ نہ تھی۔ سامراجی ڈاکہ زنی اور سرمایہ دارانہ استحصال کو یقینی بنانے والے اس معاشی نظام کا تحفظ بھی مقصود تھا جس کے لئے جمہوری لبادے کو چاک کرنا سامراجی قوتوں کی مجبوری بن چکی تھی۔ ضیاالحق نے بھٹو حکومت میں نیشنلائز کئے گئے ادارے سرمایہ داروں کو واپس کئے، نجکاری اور دوسری نیولبرل معاشی پالیسیوں کی شروعات بھی اسی دور میں ہوئی۔ سامراجی اجارہ داریوں اور سرمایہ داروں کو منہ بولی مراعات اور مفادات سے نوازا گیا اور اسلام کے نام پر جابر سرمایہ داری مسلط کی گئی۔ سیاست اور معیشت سے ’سوشلزم‘ کا لفظ ہی کھرچ ڈالنے کی پوری کوشش کی گئی۔ یہ ملاؤں اور مغربی سامراج کے گہرے یارانے کا دور تھا۔ سرکاری سر پرستی میں ”کفر“ کے فتووں کی صنعت اس دور میں خاصی پروان چڑھی اور آج تک پیداوار دے رہی ہے۔

تمام تر سچائی، جرات اور مزاحمت کے باوجود اس ضیائی فسطائیت کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کو انقلابی قیادت میسر نہ تھی۔ یہ ضیا آمریت کی طوالت کا اہم سبب تھا۔ دوسری طرف طاقت کے نشے، مذہبی جنون اور ”امیر المومنین“ ہونے کے خبط نے ضیاالحق کو ذہنی طور پر فرعون بنا دیا تھا۔ اس نے اپنے آقاؤں اور مالکان کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کر دی تھیں۔ جیسے محمد خان جونیجو خود کو سنجیدگی سے وزیر اعظم سمجھنے لگا تھا اور ضیاالحق کو اس کا بوریا بستر گول کرنا پڑا۔ ضیا الحق نے بھی اپنے اقتدار کو امریکی سامراج کے اختیار سے بڑا سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ اپریل 1988ء میں جنیوا معاہدے کے تحت افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلا شروع ہوا، تین ماہ بعد ضیا الحق کا جہاز ہوا میں ہی پھٹ گیا۔

المیہ یہ ہے کہ ضیاالحق کے بعد بھی رجعت کی خون آشام رات کا تسلسل جاری ہے۔ بعد کی جمہوری حکومتوں نے اس کی معاشی پالیسیوں کی عوام دشمنی میں اضافہ ہی کیاہے اور موجودہ حکومت نے تو حد ہی کر دی ہے۔ آئین اور قانون میں موجود ضیاالحقی شقیں آج بھی پوری طرح مسلط ہیں۔ آج کے میڈیا، ثقافت، اخلاقیات، رویوں اور اقدار پر ضیاالحق کی چھاپ بدستور موجود ہے۔ سیاست پر حاوی تمام پارٹیوں کی قیادت کو ضیاالحق کی باقیات کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

ایم کیو ایم اسی آمریت میں ”حساس اداروں“ نے پروان چڑھائی تھی۔ جماعت اسلامی اس آمریت کی ’ٹیم بی‘ تھی اور عمران خان کو ضیاالحق نے ذاتی درخواست کر کے کرکٹ ٹیم کی کپتانی جاری رکھنے پر راضی کیا تھا۔ مدرسوں سے ڈالر جہاد کا ”خام مال“ فراہم کرنے کے لئے جے یو آئی کو مالی اور سیاسی طور پر خوب توانا کیا گیا تھا۔ آج ملک کے طول و ارض میں برپا مذہبی جنون اور دہشت گردی، منشیات اور دوسرے جرائم پر مبنی اسی کالی معیشت کی پیداوار ہے جس کی بنیادیں ڈالر جہاد کے لئے استوار کی گئی تھیں۔

پھر پیپلز پارٹی پر مسلط ضیا باقیات کا ذکر کیسے نہ ہو۔ ویسے تو بھٹو کی پھانسی کے وقت ہی مرکزی کمیٹی کے بیشتر ارکان پسپائی اختیار کر گئے تھے۔ عام کارکنان کی قربانیوں اور جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے۔ بدعنوان اور ضمیر فروش سیاست کو ضیاالحق نے ہی جنم دیا تھا اور تمام جمہوری حکمومتیں اسی کی پالیسیاں جاری رکھے ہوئی ہیں۔ عوام کا معاشی قتل عام اور محرومیاں بڑھ ہی رہی ہیں۔ 5 جولائی کا اندھیر ابھی چھٹا نہیں ہے۔

انسان مر جاتے ہیں لیکن سچے نظریات کبھی مٹ نہیں سکتے۔ آمریت جمہوریت کے خونی گھن چکر سے آزاد ہو کر محنت کش عوام کو ان مظالم کا انتقام لینا ہے۔ زخموں سے چور یہی بدحال خلق تاریخ کے میدان میں اترے گی، سرخ سویرا ہی اس تاریکی کو مٹا ئے گا!