لال خان

ترجمہ: عمران کامیانہ

پاکستان میں موجود‘اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں، سابقہ بائیاں بازو اور لبرل دانشور وں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حالت زار کی اصل وجہ جاگیر داری ہے اور اس کا خاتمہ کر کے ہی ملک کو تمام تر مصائب سے نکالا جا سکتا ہے اور اس کا خاتمہ ’قومی جمہوری‘ یا سرمایہ دارانہ انقلابات سے ہی ممکن ہے۔ یہ نقطہ نظر در اصل ان چھوٹے کاروباری عناصر (Petty Bourgeois) اور مافیوزی سرمایہ داری (جرائم اور کالے دھن پر مبنی سرمایہ داری) کو بچانے کے لئے اپنایا گیا ہے جس کے سہارے یہ پارٹیاں اپنی سماجی و معاشی ساکھ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن پچھلے 72 سالوں سے پاکستانی بورژوازی، جاگیر داری کے نشانات اور اس سے منسلک مخصوص جاگیردارانہ ذہنیت مٹانے میں ناکام رہی ہے۔ حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ موجودہ حکمران طبقات اور بحران زدہ سرمایہ داری، جاگیرداری کی باقیات جنہیں یہ دانشور جاگیردارانہ رشتوں کا نام دیتے ہیں، مٹانے کے قابل نہیں ہیں۔

اگر اس سماج کی سماجی و معاشی بنیادوں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان کو جاگیردارانہ معاشرہ کہنا بچگانہ سوچ پر مبنی مغالطہ ہے۔ سماج کے کمزور جاگیردارانہ ڈھانچے میں سرمایہ دارانہ رشے بہت مضبوط جڑیں پکڑ چکے ہیں۔ پاکستانی سرمایہ داری کے لاغر پن، اقتصادی و تکنیکی کمزوری اور تاریخی تاخیر کے باعث پاکستانی حکمران طبقات نہ صرف جاگیر داری کی باقیات کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ اس کے متضاد انداز میں جاگیردار اشرافیہ کو حکمرانوں کے بدنام گٹھ جوڑ میں شامل کرنے کا موجب بنے ہیں۔ نیم سرمایہ دارانہ اورنیم جاگیردارانہ سیاست و معیشت کے اس ملغوبے نے سماجی و معاشی انفراسٹرکچر کو تباہ کرتے ہوئے ایک بنجراور مسخ شدہ ثقافت کو جنم دیا ہے اور یہ سب اس خطے کے عوام کی تباہی و بربادی کا موجب بنا ہے۔

تاہم کلاسیکی جاگیر داری جو کہ یورپ کے سماجی ارتقا کا ایک حصہ تھی اس خطے پر کبھی بھی ایک سماجی نظام کے طور پر حاوی نہیں رہی۔ اس خطے میں حاوی سماجی نظام ایشیائی طرزِ پیداوار یا ”ایشیائی مطلق العنانیت“ (Asiatic Despotism) رہا ہے۔ ہزاروں سال تک نافذالعمل رہنے والے اس نظام میں یورپی جاگیرداری کے بر عکس وسیع و عریض زمینوں کی نجی ملکیت موجود نہیں تھی۔ اپنی شاہکار تصنیف ’Grundrisse‘ میں مارکس لکھتا ہے کہ ”ایشیائی طرزِ پیداوار میں (کم از کم اکثر و بیشتر)انفرادی طور پر جائیداد کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ وقتی تصرف ہوتا ہے۔ ۔ ۔ لہٰذا اصل ملکیت صرف اجتماعی (کمیون کے پاس) ہوتی ہے۔ ایشیائی طرزِ پیداوار بہت مضبوطی سے بہت دیر تک قائم رہتی ہے۔ ۔ ۔ کیونکہ یہ زراعت اور دستکاری کے پیداواری ملاپ پر مبنی ایک خود کار اکائی ہوتی ہے۔“

لیکن یہ خود کار پیداوای نظام دنیا کے دوسرے حصوں میں ہونے والی ذرائع پیداوار اور طرز پیداوار کی ترقی سے الگ تھلگ ہونے کے باعث متروک ہو گیا۔ ایشیائی طرزِ پیداوار نے نسبتاً مساوی معاشرے کو جنم دیا لیکن باقی دنیا سے کٹا رہنے کے باعث قدامت کا شکار ہو گیااور غیر ملکی حملہ آوروں کے لئے آسان شکار بن گیا۔ تاہم زیادہ تر غیر ملکی حملہ آوروں کا ثقافتی معیار نسبتاً کم تر تھا اور وہ آہستہ آہستہ اس خطے کی ثقافت میں ضم ہو گئے جو کہ زرخیز زمین، بہتے دریاؤں اور زرعی بہتات کی پیداوار تھی۔

برطانوی نو آباد کار وہ پہلے حملہ آور تھے جو اس ثقافت میں تحلیل نہیں ہوئے کیونکہ نشاۃثانیہ اور صنعتی انقلاب سے گزرنے کے بعد وہ نہ صرف تکنیکی اور عسکری بلکہ ثقافتی لحاظ سے بھی اعلیٰ معیار کے حامل تھے۔ برِ صغیر میں جاگیر داری مصنوعی طور پر انگریزوں کی طرف سے نافذ کی گئی تاکہ ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کے اصول پر عمل پیراہو کر نوآبادیاتی اقتدار کو مضبوط کیا جا سکے اور مقامی اشرافیہ کی ایک فرمانبرادار پرت پیدا کی جاسکے۔ اس عمل کا آغاز 1793ء میں بنگال پارلیمنٹ میں لارڈ پالمرسٹن کی طرف سے متعارف کروائے گئے ”مستقل آباد کاری“ (Permanent Settlement) بل سے ہوا۔ بنگال کے بعد یہ پالیسی تمام تر برِ صغیر پر لاگو کی گئی۔ پاکستان کی جاگیر دار اشرافیہ کی کلاسیکی آبائی بنیادیں نہیں ہیں بلکہ یہ وسیع و عریض زمینیں انہیں انگریزوں نے غلامانہ وفاداری اور مقامی لوگوں سے غداری کرتے ہوئے آزادی کی تحریکوں کو کچلنے میں مدد دینے پر عطا کی تھیں۔

اپنی ابتدا ہی سے پاکستان کی نومولو د بورژوازی زرعی انقلاب سمیت قومی جمہوری انقلاب کے دوسرے فرائض ادا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ سامراجیوں نے پاکستان کو تائیوان اور جنوبی کوریا کی طرز پر ایک سرمایہ دارانہ ملک کے طور پر نشونما دینے کی کوشش کی، جہاں امریکی جنرل ڈگلس میکارتھر (Douglas Macarther) کے بوٹوں کے زور پر صنعتی انقلابات برپا ہوئے تھے۔ ایوب خان کی آمریت نے رابرٹ میکنمارا(Robert McNamara) کی ہدایات پر، جو اس وقت ورلڈ بنک کا سربراہ تھا، زرعی اصلاحات کرنے کی کوششیں کیں لیکن یہ اصلاحات پیچیدہ نیم جاگیردارانہ ڈھانچے کو منہدم کرنے میں ناکام رہیں۔ سب سے زیادہ ریڈیکل اصلاحات ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں (74-1972ء) کی گئیں لیکن بوسیدہ سرمایہ دارانہ ریاستی ڈھانچے کی وجہ سے یہ اصلاحات مکمل نہیں ہو سکیں۔ جاگیردار اشرافیہ‘کرپٹ بیوروکریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے بڑی ضبطگیوں سے بچ نکلی۔ جاگیر داروں میں خوف و ہیبت بہر حال موجود تھا۔ 1981ء میں شائع ہونے والی ’UNDP‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1974ء کے آخر تک 100 ایکڑ سے زیادہ 96 فیصد جاگیریں بنکوں میں گروی رکھی جا چکی تھیں۔ جاگیر دار آقاؤں نے گروی پہ ملنے والا یہ بیش بہا سرمایہ صنعت اور سروسز کے شعبے میں لگایا۔ مصنوعی جاگیر دار اس طرح مصنوعی سرمایہ دار بن گئے۔ اگر ان جاگیروں کو ضبط کیا جاتا ہے تو بنکنگ سسٹم دھڑام ہو جائے گا۔

سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے انتہائی ریڈیکل زمینی اصلاحات بھی نہ تو زرعی انقلاب مکمل کر سکتی ہیں اور نہ ہی زراعت کو جدید سطور پر استوار کرتے ہوئے بے زمین ہاریوں اور کسانوں کی زندگیوں میں سدھار لا سکتی ہیں۔ بھارت کی کئی ریاستوں میں لاتعداد کسان‘ جنہیں نہرو کے دور میں زمینیں الاٹ کی گئی تھیں، اب اپنی ہی زمینوں پر ٹھیکیداروں کے لئے انتہائی خوفناک حالات میں اجرتی مزدوروں کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ تبادلہ اجناس پر مبنی جاگیر دارانہ معیشت پاکستان میں کہیں بھی اپنا وجود نہیں رکھتی۔ مالی سرمایہ‘زرعی شعبے میں بہت گہری حد تک سرایت کر چکا ہے۔ بلکہ اب تو پاکستان میں بہت بڑی جاگیریں سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے رجعتی حکمرانوں کی ملکیت میں آ چکی ہیں جہاں زرعی اجرتی مزدوروں کا بھیانک استحصال کیا جا رہا ہے اور پیداوار کو مالکان کی مرضی سے کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ چھوٹی زمینوں پر کاشتکاری کے اخراجات، اجناس کی فروخت سے ملنے والی آمدن سے بہت زیادہ ہیں۔ منڈی کے دباؤ کی وجہ سے منافع بخش فصلوں کو اناج اگانے پر فوقیت دی جا تی ہے جس کی وجہ سے بھوک بڑھ رہی ہے۔ زرعی مسئلے کو سرمایہ دارانہ نظام حل کرنے سے قاصر ہے۔ الٹا اس کااپنا معاشی و اقتصادی انہدام زراعت کے شعبے کو تباہ کر رہا ہے۔ غریب کسان نسل در نسل قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کی زندگیاں جہنم بن چکی ہیں۔ کسانوں کی نجات مزدور طبقے کی قیادت میں کی جانے والی سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔