اداریہ جدوجہد


آج پاکستانی معاشرہ جس زہریلی لیکن آسیبی فسطائیت کا شکار ہے اس کے مقابلے میں 5 جولائی 1977ء کو مسلط ہونے والی ضیا آمریت کی درندگی بھی ماندپڑ جاتی ہے۔ عمران خان ایسی کٹھ پتلی ہے جس نے کاسہ لیسی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ سماج پر ہر طرف خوف بھرا اضطراب کربناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ 5 جولائی کو مسلط ہونے والی آمریت میں کوڑے تھے، جیلیں تھیں، پھانسیاں تھیں۔ لیکن اس جبر میں منافقت بہت کم تھی۔ آج کا ظلم منافق بھی ہے اور عیار بھی۔ جمہوریت کے نام پر فسطائیت کا جو کھلواڑ جاری ہے اس کے مقابلے میں مشرف جیسی آمریتوں کے ادوار تو کہیں زیادہ آسودہ لگنے لگتے ہیں۔ حکمرانوں کی سیاست ذلت کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس جاری ہیں اور اسی پارلیمنٹ کے اراکین پابند سلاسل بھی ہو رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی نام نہاد حزب اختلاف کے لوگ تو اسیری میں بھی سرکاری مہمانوں کا درجہ ہی پاتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ عتاب کا شکار وہ ہیں جن کا تعلق حکمران طبقے سے نہیں ہے اور جنہوں نے مصالحت سے انکار کیا ہے۔ پارلیمان کے ایوانوں میں وہی رعنائیاں ہیں‘ نورا کشتیوں کے مقابلے بھی چل رہے ہیں۔ دوسری طرف وسیع تر آبادی مہنگائی کی آگ میں جھلس رہی ہے۔

صحافتی بے غیرتی اور ضمیر فروشی کی مقابلہ بازی زوروں پر ہے۔ خبروں میں کوئی خبر نہیں۔ تجزیے کسی حقیقی ایشو اور ٹھوس دلیل سے عاری ہیں۔ میڈیا وہ ماخذ بن چکا ہے جہاں سے سماجی نفسیات میں محکومی، ذلت، خوف اور شکست خوردگی کا زہرگھولا جا ر ہا ہے۔ جھوٹ سب سے بڑی حقیقت بن چکاہے اور سچائی کا قتلِ عام جاری ہے۔ تحریک انصاف کی تخلیق، ابھار اور تسلط اس نظامِ ِحاکمیت کا وہ مکروہ کھلواڑ ہے جس سے سماج میں درمیانے طبقات‘خصوصاً نئی نسل کی بیگانگی اور پراگندگی کا استعمال کرتے ہوئے فسطائی رجحانات پھیلائے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ ہٹلر یا مسولینی طرز کی فسطائیت نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں محنت کش طبقے کو شکستیں اور پسپائیاں تو ضرور ہوئی ہیں لیکن ابھی تک اسے کسی فیصلہ کن اور خونی شکست میں ڈبو یا نہیں جا سکا ہے۔ تاہم اس نیم فسطائیت میں بھی ایسے ہتھکنڈے ضرور گھڑے جا رہے ہیں جن سے ضیاالحق جیسے خونی آمر بھی جبر کی نئی وار داتیں سیکھ سکتے تھے۔ گالم گلوچ، غنڈہ گردی، بے ہودگی اور لچر پن پر مبنی ثقافت اس فسطائی رحجان کا خاصہ ہے۔

پاکستان کی سرمایہ داری کی شدید بحرانی کیفیت میں جمہوریت کی آڑ میں سرمائے کا جبر و استحصال جہاں سرکاری تشدد پر مبنی ہے وہیں محنت کش طبقات پر مسلسل معاشی جارحیت بھی جاری ہے۔ روایتی سرمایہ داری کی زوال پذیری سے کالے دھن کے نودولتی فرعونوں نے حاوی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ سیاست اور ریاست کا ناگزیر جزو بن چکا یہ کالاد ھن تحریک انصاف کا فنانسر بھی رہا ہے اور آج اَن دیکھی مراعات اور منافعے بھی حاصل کر رہا ہے۔ تاریکی کے اس راج میں معاشرہ بربادی، عوام بدحالی اور محنت کش بیروزگاری کا شکار ہیں۔ مزاحمت کی ہر آواز خاموش کروا دی جاتی ہے۔ لوگوں کو اٹھانا اور غائب کر دینا اس بدنصیب ملک میں معمول بن گیا ہے۔ یہ عمل اس حاکمیت کی حمایت کرنے والی مڈل کلاس کی فسطائی روش کو بھی واضح کرتا ہے۔

لیکن اس فسطائیت میں اتنا دم نہیں ہے کہ عمران خان ہٹلر بن سکے۔ تمام تر جبر کے باوجود بکھری ہوئی ہی سہی لیکن مزاحمتی جدوجہد جاری ہے۔ عوام کی بھاری اکثریت معاشی اور سماجی حملوں سے گھائل بھی ہے لیکن اس کرب میں نفرت اور بغاوت کے عناصر بھی موجود ہیں۔ یہاں روایتی سیاسی پارٹیوں کی مزاحمت اس لئے بے معنی ہوجاتی ہے کہ پروگرام سب کا ایک ہی ہے۔ بس اسے نافذ کرنے کی رفتار، شدت یا طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ اندر سے سب ڈرے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو ڈرا بھی رہے ہیں کہ حالات کی روش یہی رہی تو نیچے سے بغاوت پھوٹ سکتی ہیں۔ یہی چیز انہیں بار بار کی مصالحت کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ اور وہ خود اپنی راہ میں ہی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

یہ مروجہ سیاست بھی عوام کے شعور پر ہمالیہ جیسا وزن ڈالے ہوئے ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر لڑائی زیادہ کٹھن ہو جاتی ہے۔ سرکاری ادارے ہوں یا ان کی کٹھ پتلی حکومت‘ مقصد سب کا اس سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ ہے۔ لیکن بحران کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ نظام کو جاری رکھنے کے لئے اس کی سیاست کو سرکاری تسلط میں رکھنا مجبوری بن چکا ہے۔ ایسا نظام معاشرے کو بھلا ترقی کیسے دے سکتا ہے۔ 5 جولائی 1977ء کے زخم آج ناسور بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں حکمرانوں کے ہتھکنڈے اس متروک نظام کو بچانے کے لئے ڈھٹائی کی انتہاؤں پر پہنچے ہیں وہاں اسے شکست فاش دینے کے لئے نوجوانوں او رمحنت کشوں کو جرات کی نئی عظمتوں تک پہنچنا ہو گا۔ اس نظام کے انقلابی خاتمے کے بغیر کوئی پڑاؤ‘ کوئی سمجھوتہ محنت کش طبقے کے لئے زہر قاتل ہے۔

ہمارے آنجہانی ساتھی جاوید شاہین نے مزاحمت کے تناظر کو ان اشعار میں بیان کیاتھا۔

جو تلخ حرف پس لب ہے عام بھی ہو گا
چڑھا ہے تیر تو آخرکماں سے نکلے گا
کوئی تو کام لو غم سے رگیں ہی چمکاؤ
جلیں گی شمعیں اندھیرا مکاں سے نکلے گا