احسن جعفری
کسی بھی سماجی عمل کے پیچھے کارفرما وجوہات کو سمجھ کر اور ان سے درست نتائج اخذکر کے ہی ان عوامل کو روکا یا تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ عام حالات میں جب محنت کش طبقہ کسی انقلابی سرکشی پر کمر بستہ نہ ہو تو اجتماعی شعور پر حکمران طبقات کے وضع کیے گئے اصول اور اخلاقیات ہی حاوی ہوتے ہیں۔ ان ہی کی بنیاد پر سماجی عوامل کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے اور بعض نام نہاد انقلابی بھی اس روش سے خود کو بچا نہیں پاتے اور غلط بلکہ الٹ نتیجہ نکال لیتے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے سندھ اور خصوصاً لاڑکانہ اور اس کے قریبی شہر رتو ڈیرو میں رپورٹ ہونے والے ایچ آئی وی ایڈز کے کیسز نے کارپوریٹ میڈیا پر جگہ بنائی ہے۔ جس کو لے کر ایک لا یعنی بحث شروع ہو گئی ہے۔ جس میں سندھ اور دوسرے صوبوں میں میسر صحت کی سہولیات کا موازنہ کیا جا رہا ہے اور پیداواری نظام کے سوال کو خارج از بحث قرار دے دیا گیا ہے۔
صحت کی جدید ترین، معیاری اور مفت سہولت اس زمین پر پیدا ہونے والے ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ لیکن یہاں کی ریاست یہ بنیادی حق دینے کی بجائے اس کو چھیننے کے لئے نت نئے حربے (جیساکہ ایم ٹی آئی ایکٹ) استعمال کرتی ہے۔ یہاں صرف انتظامی اور پیشہ ورانہ غفلت یا نا اہلی کا رونا رویا جاتا ہے جو آخری تجزیئے میں زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے اور حقیقی ایشوز پر کوئی بات نہیں کی جاتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہاں کا تاریخی طور پہ تاخیرزد ہ حکمران طبقہ ہے جو ایک جدید قومی ریاست کے ڈھانچے تعمیر کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے۔ جو ریاست بہتر سال گزرنے کے باوجود اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا کرنے سے قاصر ہو وہاں صحت کی جدید سہولیات، تعلیم اور انصاف جیسی چیزیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق لاڑکانہ اور رتوڈیرو میں اب تک 28300 افراد سے زیادہ کی اسکریننگ کی گئی ہے جس میں سے 812 کو ایچ آئی وی پازیٹو پایا گیا ہے۔ جن میں 668 بچے اور 144 بالغ افراد ہیں۔ یہ اعدادوشمار کسی حد تک معاملے کو عیاں ضرور کرتے ہیں لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ آبادی کی ایک وسیع اکثریت کی اسکریننگ کرنا موجودہ نظام ِصحت کے ڈھانچے میں ممکن ہی نہیں ہے۔
پاکستان میں ایڈز کا پہلا کیس 1986-1987ء میں رپورٹ ہوا۔ اس کے بعد سے آج تک اس میں مسلسل اور خوفناک حد تک اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی رپورٹ شدہ تعداد تقریباً 165000سے زائد بتائی جاتی ہے (جس میں پنجاب 46 فیصد، سندھ 34 فیصد، خیبرپختونخواہ 11 فیصد اور بلوچستان میں 9 فیصد کیس ہیں)۔ ان میں صرف 24000 مریض ایسے ہیں جو اپنی بیماری سے آگاہ ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں بھی سرِ فہرست ہے جہاں علاج کے لئے انجیکشن (ٹیکے) کا استعمال انتہائی زیادہ کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 80 کروڑسے زائد انجیکشن استعمال کیے جاتے ہیں۔ صحت کی معیاری اور مفت سہولیات میسرنہ آنے کی وجہ سے آبادی کی وسیع اکثریت عطائیوں اور نیم حکیموں کے پاس جانے پر مجبور ہے جہاں ایک سرنج سے کئی لوگوں کو انجیکشن لگانا معمول کی بات ہے۔ جس سے ہیپاٹائیٹس بی، سی اور ایڈز پھیلنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ جس سے عموماً پہلو تہی کی جاتی ہے وہ ہسپتال کے فضلے کا نامناسب طریقے سے تلف کیا جانا ہے۔ ہسپتالوں کا فضلہ اٹھانے کا کام باقاعدہ پیشہ ورانہ مہارت کا متقاضی ہے لیکن یہ کام بھی عام سینیٹری ورکرز سے لیا جاتا ہے۔ جس میں ان ورکرز کو بھی متاثرہ خون سے بیماری لگنے کا خطرہ موجود ہوتا ہے تو دوسری طرف جب اس فضلہ کو پھینکا جاتا ہے تو وہاں کچرا چن کر اس میں مختلف اشیاالگ کر کے بیچنے والے افراد بھی اس متاثرہ خون کا نشانہ بنتے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔
پاکستان میں 84 فیصد سے زائد صحت کی سہولیات پر نجی شعبے کا قبضہ ہے جس کا مقصدصرف منافع کمانا ہے۔ سماج میں صحت اور بنیادی صفائی کی حالت جتنی زیادہ خراب ہو گی صحت کے نجی شعبے کے منافعے اتنی ہی ترقی کریں گے اور اس حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس سب کیلئے حکومت کتنے اقدامات کرتی ہے۔
ایک طرف جہاں غربت غیر معیاری صحت کی سہولیات استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے وہی دوسری طرف نظام کا زوال سماجی بے گانگی میں اضافہ کرتا ہے جو خاص کر نوجوانوں کو منشیات کی طرف لے جاتا ہے۔ ذہنی دباؤ تعلیم حاصل کرنے سے شروع ہوتا ہے‘ جس میں طالب علموں کو ریس کے گھوڑوں کی طرح بھگایا جاتا ہے اور امتحانات کے نتائج آنے پر والدین اسے بڑے فخر سے سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں اور عزیز رشتہ داروں سے ”شیئر“کرتے ہیں۔ ان والدین کیلئے یہ باعث ندامت ہوتا ہے جن کے بچے کم نمبر لے کر پاس ہوتے ہیں۔ اس نام نہاد بے عزتی کا خمیازہ بچوں کوہی بھگتنا پڑتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب یہ نوجوان ڈگری لے کر بے روزگاروں کی فوج میں شامل ہوتے ہیں تو ایک اور طرح کا دباؤ ان کا منتظر ہوتا ہے۔ اس قدر شدید سماجی بے گانگی میں دنیا و مافیہا سے بے خبری کے چند لمحے نوجوانوں کو بہت حسین دکھائی دیتے ہیں اور وہ منشیات کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ فیمیل سیکس ورکرز (31 فیصد) کے بعد سب سے زیادہ ایڈز کیسز انجیکشن ڈرگ یوزرز (IDUs) میں پائے گئے ہیں جو کہ 29 فیصد ہیں۔ منشیات سے متاثرہ اشخاص کا جنسی سرگرمیوں میں حصہ بھی صحت مند نہیں ہوتا جس کا نتیجہ بیماریوں کے پھیلاؤ کی صورت میں نکلتا ہے۔
پاکستان جیسے سماجوں میں نام نہاد اخلاقیات کے نام پر بچوں کو جنسی تعلیم دینا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جنس کے متعلق معلومات لینے کی فطری خواہش آنے پر جنسی معلومات انتہائی غلط طریقے سے بچوں تک پہنچتی ہیں۔ جس میں ایک بہت بڑا حصہ پورن فلموں سے لیا گیا ہوتا ہے۔ پورن فلمیں خوبصورت اور لطیف جذبے کو انتہائی بھونڈے، غلیظ اورغیر حقیقی انداز میں پیش کرتی ہیں جس سے بچوں کے ذہن میں زندگی بھر کے لئے جنس کے متعلق غلط تصورات جگہ بنا لیتے ہیں۔ جنسی تعلیم صحیح وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے لڑکپن میں بچے اور بچیاں جنسی پیچیدگیوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں اور شرم کی وجہ سے بعض دفعہ ساری زندگی اس پیچیدگی میں ہی گزار دیتے ہیں۔ جب فطری جنسی خواہش کو مکمل کرنے کے صحت مند مواقع موجود نہ ہوں تو پھر الٹے سیدھے ہر طریقے سے اس خواہش کو پورا کیا جاتا ہے اور درست جنسی تعلیم نہ ہونے کے سبب بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ اس کے حل کے لئے ضروری ہے کہ صحت کی سہولیات او ر زندگی گزارنے کے وسائل تمام لوگوں کو یکساں طور پر میسر آسکیں۔
ماں سے بچوں کو منتقل ہونے والے ایڈز کی روک تھام کے لئے پاکستان کی 22 کروڑ سے زائد آبادی کے لئے صرف 11 سینٹر کام کر رہے ہیں اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ حاملہ ماں کو ان سینٹرز تک پہچانا ہے۔ صحت کی تقریباً نہ مل سکنے والی سہولیات کے ساتھ ساتھ ذرائع آمدورفت کی پسماندگی کی ایک الگ ہی داستان ہے جس میں کسی مریض کو گھر سے ہسپتال منتقل کرنا انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ سماج میں ایڈزجیسی جان لیوا بیماری بھی مریض کے لئے ایک گالی سمجھی جاتی ہے اور بیماری کا شکار افراد سماج میں پھیلے ہوئے انتہائی غلط تصورات کے باعث بیماری کو چھپانا علاج سے بہتر تصور کرتے ہیں۔ جس طرح ذہنی امراض سے متاثرہ شخص کے لئے صرف ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے ”پاگل“ بالکل اسی طرح ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص بھی ”بدکردار“ ہی قرار پاتا ہے۔ پاکستان میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ایک ایڈز سے متاثرہ شخص سے تازہ سبزی خریدنا چاہیں گے تو 49 فیصد سے زائد لوگوں نے”نہیں“ میں جواب دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایڈز کے متعلق سماج میں کتنی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بھی ایڈز پھیلتی ہے۔
یہاں ایک بات اور قابلِ غور ہے کہ جن جن علاقوں میں ایچ آئی وی ایڈز کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر کیس پسماندہ علاقوں کے ہیں جو اس بات کو روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیتے ہیں کہ صحت کی نامناسب سہولیات ہی ایڈز اور اس جیسی دوسری بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہیں۔
تبدیلی سرکار کے حکومتی ارکان اور ان کے عقل سے عاری مقلدین نے سندھ میں رپورٹ ہونے والے ایڈز کے کیسوں کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ہمیشہ کی طرح پچھلی حکومتوں کی نااہلی کا رونا رو نے کے لئے استعمال کیا ہے۔ جبکہ خود تبدیلی سرکار ایم ٹی آئی ایکٹ اور صحت کارڈ کے ذریعے صحت کی سہولت محنت کش طبقے سے چھین لینا چاہتی ہے۔ وفاقی بجٹ 2019ء میں صحت کے شعبے کے لئے صرف13ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی جانب سے 15 فیصد اضافے کی اجازت ملنے پر ادویہ ساز سرمایہ داروں نے ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کیاہے اور حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑا دیں ہیں۔
یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ ایچ آئی وی، جو ایک وائرس ہے، سے متاثر ہونے کا مطلب ایڈز نہیں ہے۔ یہ وائرس کئی سالوں بلکہ کئی دہائیوں تک بھی انسانی جسم میں کوئی علامات ظاہر کیے بغیر رہ سکتا ہے۔ اگر ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کے بعد بروقت تشخیص ہو جائے اور علاج شروع کر دیا جائے تو انسان 70 سال تک کی نسبتاً صحتمند زندگی گزار سکتا ہے۔ لیکن علاج نہ ہونے کی صورت میں ایچ آئی وی جسم کی مدافعت (Immunity) کے نظام کو تباہ کر دیتا ہے اور اس کیفیت کو ”ایڈز“ کہا جاتا ہے۔ یعنی ایڈز کا ہر مریض ایچ آئی وی سے متاثرہ ہوتا ہے لیکن ایچ آئی وی سے متاثرہ ہر شخص ایڈز کا مریض نہیں ہوتا۔ لیکن ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص کو ایڈز نہ ہو تو بھی وہ دوسروں میں یہ وائرس جنسی عمل، انجیکشن یا خون کے عطیہ کے ذریعے منتقل کر سکتا ہے۔ متاثرہ شخص کو چھونے، تھوک یا اکٹھے کھانے پینے سے یہ وائرس نہیں پھیلتا۔
اس بحران زدہ سرمایہ داری میں یہاں جدید اور مفت صحت کا نظام ایک یوٹوپیائی خیال تو ہوسکتاہے لیکن حقیقت سے اس کا کوسوں دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پاکستان میں صحت کا معقول نظام صرف اس صورت میں ہی بنایا جا سکتا ہے جب صحت کے شعبے کو مکمل طور پر ریاستی ملکیت اور کنٹرول میں لے کر اس میں سے منافع کی ہوس کا عنصر یکسر ختم کردیا جائے اور بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کی جائے۔