عمران کامیانہ

جس وقت ملکی میڈیا آصف علی زرداری کی گرفتاری کو سب سے بڑا ایشو بنا کے پیش کر رہا تھا‘ آئی ایم ایف کے نامزد کردہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اس مہینے ختم ہونے والے مالی سال کی رپورٹ پیش کر رہے تھے۔ اس معاشی سروے میں گزشتہ ایک سال کے دوران ملکی معیشت کی جو دگرگوں صورتحال سامنے آئی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لیکن زرداری کی گرفتاری کو استعمال کرتے ہوئے کمال مہارت سے معیشت کے اس بحران کو پس پشت ڈال دیا گیا جس سے 22 کروڑ انسانوں کی زندگیاں براہِ راست متاثر ہو رہی ہیں۔

معاشی سروے پیش کرتے ہوئے حفیظ شیخ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ ان کے لہجے میں جھجک واضح تھی۔ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے سے گریز یا بات کو گول کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

بزنس صحافی حارث ضمیر کہتے ہیں کہ ”اقتصادی سروے کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد مشیر خزانہ کے پاس صحافیوں کے اکثر سوالات کے جواب نہیں تھے اور وہ مختلف بہانوں سے سوالات کو ٹالتے رہے جس سے لگا کہ شاید فی الحال حکومت بالکل لاجواب ہے۔“

پی ٹی آئی حکومت کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن نے ’ڈوئچے ویلے‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بالکل بجا کہا کہ”آصف زرداری کی گرفتاری کے ملبے میں مشیر خزانہ کی نیوز کانفرنس دب گئی۔ سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی نیوز کانفرنس کو نجی ٹی وی چینلوں پر خلاف توقع وہ کوریج نہ مل سکی جو ہر سال بجٹ کے موقع پر ملتی ہے اور حکومت اس اہم مرحلے سے باآسانی گزر گئی۔“

ہر اعشاریہ معیشت کی شدید بحرانی کیفیت کی غمازی کر رہا ہے۔ سرکاری طور پہ جی ڈی پی گروتھ 6.2 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 3.29 فیصد رہی۔ زراعت کے شعبے کی شرح نمو 3.8 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 0.85 فیصد، صنعت کی 7.6 فیصد ہدف کے مقابلے میں صرف 1.4 فیصد اور سروسز کی 6.5 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 4.7 فیصد رہی۔ یوں اکثر شعبوں کی شرح نمو ہدف سے کم نہیں بلکہ کئی گنا کم رہی۔ سب سے تباہ کن صورتحال لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی ہے جو دو فیصد سکڑ گئی ہے۔ مجموعی طور پہ یہ معاشی نمو کی نہیں بلکہ سکڑاو کی کیفیت ہے جس میں معیشت گزشتہ ایک سال کے دوران داخل ہو چکی ہے۔

اسی روز انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں دوبارہ ڈیڑھ روپے کا اضافہ ہوا (تادم تحریر ڈالر 158 روپے تک پہنچ گیا ہے) اور سٹاک مارکیٹ 937 پوائنٹ گراوٹ کا شکار ہوئی جس سے سرمایہ کاروں کے مسلسل بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کا پتا چلتا ہے۔ اس کیفیت کا ایک اور اظہار کوکا کولا کی جانب سے 200 ملین ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری نہ کرنے کی دھمکی سے بھی ہوتا ہے۔ کمپنی نے اس فیصلے کی وجہ ملک کی غیر یقینی صورتحال اور عدم استحکام کو قرار دیا ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق حکومتی آمدن میں کم و بیش کوئی اضافہ نہیں ہو پایا لیکن اخراجات میں 8.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ترقیاتی بجٹ 993 ارب روپے سے 34 فیصد کم ہو کے 655 ارب روپے رہ گیا ہے۔

دسمبر 2017ءکے بعد سے روپے کی قدر میں 40 فیصد کمی جبکہ شرح سود میں 6 فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اِس مالی سال کے آغاز سے روپے کی قدر میں ہونے والی کمی 21 فیصد بنتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، جس سے عوام کا برا حال ہو چکا ہے، کو تجارتی خسارہ کم کرنے کا نسخہ بتایا جا رہا ہے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اس خسارے میں کم و بیش کوئی کمی نہیں ہوئی۔ الٹا برآمدات میں 1.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی پچھلے سال جی ڈی پی کے 3.5 فیصد کے مقابلے میں اس سال 4.03 فیصد رہا۔

نوٹوں کی مسلسل چھپائی، ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیوں اور عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی یلغار کے باوجود مالیاتی خسارہ بدستور جی ڈی پی کے 5.5 فیصد پہ کھڑا ہے۔

جولائی سے اپریل 2019ء تک کے عرصے میں بیرونی سرمایہ کاری میں بھی 51.7 فیصد کی کمی واقع ہو چکی ہے۔

سرمایہ دارانہ معیشت کو استحکام بخشنے والا ہر اعشاریہ زوال پذیری کا شکار ہے۔ معاشی بحران مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اپنے اقتدار کے پہلے نو مہینوں کے دوران یہ حکومت قرضوں میں ساڑھے تین ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ کر چکی ہے۔ بجلی، پٹرول اور گیس کے نرخوں میں اضافہ ایک معمول بن چکا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں جس حکومت مخالف احتجاج کا عندیہ دے رہی تھیں اس میں انہیں لامحالہ طور پہ مہنگائی، بیروزگاری اور نجکاری جیسے حقیقی مسائل پہ بات کرنی پڑ جانی تھی۔ لیکن اب انہیں بھی اپنی سیاست کو نیب کی گرفتاریوں کے نئے نان ایشو کے گرد مرکوز کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ کیونکہ حل ان کے پاس بھی کوئی نہیں ہے اور اپنے دورِ اقتدار میں وہ بھی عوام کیساتھ یہی کچھ کرتے آئے ہیں جو آج ہو رہا ہے۔

کرپشن کی طرح ”احتساب“ بھی اس ملک کا سب سے بڑا نان ایشو ہے۔ بدعنوانی یہاں کی سیاست، معیشت، ریاست اور طرز زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہے۔ دو تہائی معیشت سیاہ ہے جو 70 فیصد سے زائد روزگار پیدا کرتی ہے۔ کرپشن کے خاتمے کا مطلب اِس پورے نظام کو زمین بوس کرنا ہے۔ حکمران طبقے کا کوئی ایک حصہ نہیں بلکہ یہ پورا طبقہ اور اس کے ادارے بحیثیت مجموعی کرپٹ ہیں۔ تاریخی طور پہ نااہل، چور اور بدعنوان حکمران طبقہ خود اپنا احتساب کبھی نہیں کر سکتا۔ ان کا احتساب یہاں کا محنت کش طبقہ اپنے انقلاب کے ذریعے ہی کرے گا۔

عوام کو درپیش سنگین معاشی و سماجی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے حکمران طبقے کی آپسی نورا کشتیوں جیسے ہتھکنڈوں کا استعمال تو اس ملک کی ہر حکومت گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہی ہے۔ لیکن اس عمل میں موجودہ حکومت جس طرح کی شدت اور جدت لائی ہے‘ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لیکن ایک طرف تویہاں کی ازل سے بحران زدہ معیشت کو اب باقاعدہ دیوالیہ پن کا سامنا ہے۔ نظام کا بحران اتنا شدید ہے کہ اس نام نہاد ”جمہوریت“ کی ڈوریاں ہلانے والے خود بھی کافی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ دوسری طرف درمیانے طبقے کی حمایت یافتہ پارٹی کی یہ حکومت ویسے ہی بھانت بھانت کے نودولتیوں اور اپ سٹارٹ قسم کے سستے نوسر بازوں پر مبنی ہے۔ اس لئے ان کا طرز عمل زیادہ ڈھٹائی پر مبنی ہے اور طریقہ واردات بھی زیادہ بھونڈا ہوتا چلا جا رہا ہے۔

لیکن مادی حقائق حکمران طبقے کے نقطہ نظر سے بھی اتنے تلخ ہوتے جا رہے ہیں کہ ان سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔ اس لئے خود کو وزیراعظم سمجھنے والے ذہنی طور پر غیر متوازن شخص کو وفاقی بجٹ والے دن کی رات بارہ بجے ”قوم سے خطاب“ کرنا پڑ گیا۔ بلکہ ایک اور خطاب کرنا پڑ گیا۔ جس وہ حسب روایت کنٹینر پر چڑھ کے بڑھکیں مارتا رہا۔ اسے رکھا ہی ان بڑھکوں اور لاروں کے لئے گیا ہے۔ لیکن ایسی حرکتیں کرتے ہوئے یہ حکمران شاید عوام کو بھی اپنے جتنا ہی فارغ اور احمق سمجھتے ہیں۔

جہاں تک وفاقی بجٹ کا تعلق ہے تو بالخصوص گزشتہ دس سال کے عرصے میں یہ ویسے ہی ایک فارمیلیٹی بن کے رہ گیا ہے۔ سال میں ایک دن باقاعدہ تماشا لگایا جاتا ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن بڑی محنت سے لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی زندگیوں کے اہم فیصلے منتخب ایوانوں میں ہوتے ہیں۔

طبقاتی سماج میں ’انتخاب‘ تو روزِ اول سے ایک مکروہ فراڈ رہا ہے جس میں مارکس کے بقول لوگوں کو خود پر جبر و استحصال کرنے والے ٹولوں میں سے کسی ایک کو چننے کی آزادی ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس ملک کی حالت تو یہ ہو چکی ہے کہ یہاں کے اصل حاکم اب حفیظ شیخ اور باقر رضا جیسے آئی ایم ایف کے ملازمین ہیں جن کے سامنے اس ریاست اور حکومت کا کوئی اعلیٰ ترین اہلکار بھی چوں تک نہیں کر سکتا ہے۔

اس حوالے سے یہ بجٹ اصولاً کرسٹین لیگارڈ کو پیش کرنا چاہئے تھا۔ لیکن یہ سامراجی آقا بھی اتنے ویلے نہیں ہیں۔ انہوں نے اس کام کے لئے بندے‘ بلکہ پوری پوری حکومتیں رکھی ہوئی ہیں۔

ایک مستحکم معیشت میں اگلے ایک ڈیڑھ سال کی پلاننگ ممکن ہوتی ہے۔ لیکن اس معیشت کی جو حالت ہو چکی ہے‘ اگلے ایک ہفتے کی منصوبہ بندی بھی مشکل نظر آتی ہے۔ اس حکومت کو تو خود نہیں پتا کہ آنے والے کل تک برسراقتدار رہے گی یا نہیں۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ 10 جون کو پیش کیے جانے والے اکنامک سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران 20 میں سے 15 اہداف نہ صرف یہ کہ پورے نہیں ہوئے بلکہ کئی صورتوں میں اہداف اور نتائج کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ، جو سرمایہ دارانہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جیسے کلیدی اعشارئیے تو باقاعدہ منفی میں چلے گئے ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو، جسے 3.2 فیصد ظاہر کیا جا رہا ہے‘ درحقیقت اس سے بھی کم ہے۔ شاید دو ڈھائی فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ ہر اعشارئیے میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ کی جاتی ہے۔ تاہم ایسی ’مینی پولیشن‘کی بھی حدود ہوتی ہے۔

پاکستان کی دو تہائی سے زیادہ معیشت ویسے ہی سیاہ یا غیردستاویزی ہے جو سرکاری لکھت پڑھت میں ہی نہیں آتی ہے۔ ایسی معیشت کا بجٹ کتنی درستی سے تیار کیا جا سکتا ہے اس کا اندازہ قارئین خود لگا سکتے ہیں۔

بجلی، پٹرول اور گیس وغیرہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تو بجٹ سے کئی مہینے پہلے سے کیا جا رہا ہے اور آگے بھی کیا جائے گا۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے اور شارٹ ٹرم میں ڈالر کے 170 یا 180 روپے تک چلے جانے کے امکانات ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں ہر ہفتے اضافہ ہو رہا ہے۔ دھڑا دھڑ نوٹ بھی چھاپے جا رہے ہیں اور قرضے بھی لیے جا رہے ہیں۔ بجٹ کے کچھ ہی دن بعد گیس کی قیمتوں میں 190 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا۔ جبکہ بجلی کی قیمت میں مزید دس پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں پٹرول بھی مزید مہنگا کیا جائے گا۔

مختصراً یہ کہ اصل کاروائی بجٹ سے قطع نظر جاری و ساری ہے۔ الٹا بجٹ میں کوشش کی جاتی ہے کہ مختلف ثانوی نوعیت کے اعداد و شمار کو موضوع بنا کے اصل میکرو اکنامک واردات کو مخفی رکھا جائے۔ مثلاً چینی کی فی کلو قیمت میں 3 روپے 65 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ خوردنی تیل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر 17 فیصد کردی جائے گی۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر 2 روپے فی کلوگرام کردی جائے گی۔ سافٹ ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 11 فیصد سے بڑھا کر 14 فیصد کی جا رہی ہے۔ میٹھے مشروبات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ سی این جی بھی مہنگی کر دی گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ خوراک کی کچھ مصنوعات پر ٹیکسوں میں کمی بھی کی گئی ہے۔ اگرچہ مذکورہ بالا اقدامات سے بحیثیت مجموعی مہنگائی میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔

اسی طرح کم از کم قابلِ ٹیکس آمدن کی حد 12 لاکھ سے کم کر کے تنخواہ دار طبقے کے لیے چھ لاکھ اور دیگر غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے چار لاکھ مقرر کر دی گئی ہے۔ انکم ٹیکس کے تعین کرنے کے لئے موجود سلیبوں کی تعداد بھی بڑھا کے 12 کر دی گئی ہے۔ جس سے درمیانے طبقے پر مزید بوجھ پڑے گا کیونکہ بالواسطہ ٹیکسوں کیساتھ براہِ راست ٹیکس میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

یوں بالخصوص درمیانے اور نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو معمولی اضافہ کیا گیا ہے وہ یا تو ٹیکس سلیبوں کے گھن چکر (اور مہنگائی) کی نذر ہو کے صفر ہو جائے گا یا منفی میں چلا جائے گا۔

اسی طرح بنیادی یا کم از کم اجرت کا معاملہ ہے جو 10 فیصد اضافہ کیساتھ 17500 روپے کر دی گئی ہے۔ اس اجرت میں ایک خاندان تو کجا ایک انسان کا گزارہ بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن پاکستان میں محنت کشوں کی اکثریت کو اتنی اجرت بھی نہیں مل پاتی ہے۔ یہ شرمناک حد تک قلیل اجرت اس نظام کی حکومتوں کی محنت کش طبقے کی طرف بے حسی اور تحقیر آمیز رویے کی غمازی کرتی ہے۔

لیکن ہمارے لئے زیادہ اہم معیشت کی عمومی کیفیت اور سمت کا تعین ہے۔ جس کے لئے اس بجٹ کی روشنی میں کچھ میکرو اکنامک اعشاریوں پر توجہ دینا ہو گی۔ مثلاً اگلے مالی سال میں خود حکومت کے مطابق مہنگائی کی شرح 13 فیصد تک رہے گی (یعنی موجودہ شرح سے تقریباً 4 فیصد زیادہ) جو گزشتہ تقریباً دس سال کی بلند ترین شرح ہے۔ لیکن نہ صرف یہ کہ روزمرہ زندگیوں کو متاثر کرنے والی حقیقی مہنگائی حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو گی بلکہ ’سرکاری مہنگائی‘ بھی اس ہدف سے زیادہ ہی رہے گی۔

اسی طرح بجٹ کے مطابق معیشت صرف 2.4 فیصد کی شرح سے نمو پائے گی۔ آخری بار معیشت میں اتنی سست روی 2008-09ءکے بحرانی عرصے میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی جب شرح نمو 2.6 فیصد تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہونے والے پندرہ سے بیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے کم از کم 8 فیصد کی شرح نمو درکار ہے۔

2.4فیصد کی انتہائی کم شرح نمو کو بلند افراطِ زر (مہنگائی)کیساتھ ملا کے دیکھیں تو یہ ’سٹیگفلیشن‘ کی انتہائی گھمبیر صورتحال بنتی ہے جس سے غربت اور بیروزگاری میں بے نظیر اضافہ ہی ہو گا۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ عملی طور پہ معیشت نمو کی بجائے سکڑاو کا شکار ہو چکی ہے۔

بجٹ کا کل تخمینہ 7022 ارب روپے ہے جو پچھلے سال سے 30 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات مجموعی طور پر 6717 ارب روپے ہوں گے جو پچھلے سال سے 19 فیصد زیادہ ہیں۔ ایف بی آر نے اس سال ٹیکس وصولی کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف 3560 ارب روپے ہے جبکہ مجموعی مالیاتی خسارہ تقریباً 3137 بلین روپے ہو گا۔

لیکن یہ خسارے ان اہداف سے کہیں زیادہ بڑھ جانے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف سراسر غیرحقیقی ہے۔ ختم ہونے والے مالی سال کے دوران حکومتی آمدن میں اضافہ صفر رہا ہے جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں ہدف سے کئی سو ارب روپے کم رہی ہیں۔ نوٹوں کی مسلسل چھپائی، ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیوں اور عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی یلغار کے باوجود مالیاتی خسارہ بدستور جی ڈی پی کے 5.5 فیصد پہ کھڑا ہے۔ آئندہ مالی سال یہ 7.5 فیصد (تقریباً چار ہزار ارب روپے) سے اوپر جا سکتا ہے جس کا مطلب قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔

پہلے ہی صورتحال یہ ہے قرضوں اور شرح سود میں تیز اضافے کی وجہ سے سود کی ادائیگی حکومتی آمدن کے 41 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو موجودہ حکومت سے قبل 33 فیصد تھی۔

غیر سرکاری مبصرین کے مطابق موجودہ حکومت اپنے پہلے تقریباً ایک سال کے دوران قرضوں میں پانچ ہزار ارب روپے کا اضافہ کر چکی ہے۔ جبکہ خود حکومت کے مطابق بھی یہ اضافہ ساڑھے تین ہزار ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔ تقریباً دس ارب ڈالر کا قرضہ سعودی عرب اور چین وغیرہ سے لیا گیا ہے۔ داخلی قرضوں کا ہجم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ قرضوں کے اس دیوہیکل ہجم کو مذکورہ بالا سٹیگفلیشن کے ساتھ ملا کے دیکھیں تو بھیانک صورتحال اور بھی واضح ہو کے سامنے آتی ہے۔

دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ دفاعی اخراجات کی مد میں ”رضاکارانہ کٹوتی“ کے بعد 52 ارب روپے کے اضافے کیساتھ 1152 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ اور یہ اس مد کے صرف اعلانیہ اخراجات ہیں۔

مجموعی طور پر 4 ہزار ارب روپے سے زائد رقم صرف دو شعبوں یعنی دفاع اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے مختص کی گئی ہے جو مجموعی بجٹ کے دو تہائی سے زیادہ بنتی ہے۔ باقی کی زیادہ تر رقم جاری اخراجات کی نذر ہو جائے گی۔

ترقیاتی اخراجات مزید 17.5 فیصد کمی کیساتھ 949 ارب روپے رہیں گے جن کا بڑا حصہ پھر ٹھیکیداروں اور کمیشن خوروں کی جیبوں میں ہی جائے گا۔

صحت اور تعلیم کے شعبوں کو صوبوں کے حوالے کر کے ویسے ہی گول کر دیا گیا ہے۔ صوبوں کے لئے جو 3255 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ان کا بڑا حصہ پھر جاری اخراجات اور بدعنوانیوں کی نذر ہو جائے گا۔ صحت اور تعلیم کے اخراجات جو پہلے ہی جی ڈی پی کے ڈیڑھ دو فیصد کے درمیان جھولتے رہتے ہیں، مزید کم ہی ہوں گے۔

اس معیشت کے بجٹ، جو موجودہ بحرانی حالات میں مزید بے رحم ہو گئے ہیں،عوام سے روزی روٹی چھین ہی سکتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پہ حکمران طبقات کے نظام کے بحران کی قیمت محنت کش طبقے سے وصول کرنے کی کھاتہ داری ہے۔ آنے والے دنوں میں بحران اور عوام پر اس کے بوجھ میں اضافہ ہی ہو گا۔ غیر معمولی حالات میں یہ لڑکھڑاتا سیٹ اپ انقلابی یا رجعتی طریقے سے زمین بوس بھی ہو سکتا ہے۔