اویس قرنی

کرپشن اور چوری کے بے ہنگم شور میں عوام کے تمام سنجیدہ مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ تعلیم دشمن بجٹ آیا اور پاس بھی ہوگیا۔ لیکن اس بجٹ کی زہر آلود چھری سے جو وار خصوصاً تعلیم پر کیا گیا اس کے نتائج آنا شاید ابھی باقی ہیں۔ اداروں میں فی الوقت تعطیلات ہیں اس لیے اس خاموشی کو رضا مندی نہ سمجھا جائے۔ طلبہ اپنے اوپر لگائے جانے والے ان گھاو کا حساب ضرور لیں گیں۔ لیکن جس تعلیم دشمنی کا اظہار تبدیلی سرکار نے اس بجٹ میں کیا ہے ایسے شاید ہی کسی علی الاعلان آمر کے دور میں بھی ہوا ہو۔

12 جون کو پیش کیے گئے بجٹ میں صرف ’ایچ ای سی‘ کا بجٹ محض 28.646 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ جس میں سے 25.777 ارب روپے پہلے سے چلنے والی سکیموں کے لئے مختص کیے گئے ہیں جبکہ نئے پراجیکٹوں کے لئے صرف 2.869 ارب روپے کی شرمناک رقم رکھی گئی ہے۔ حکمرانوں کا تعلیم کی طرف سنجیدگی کا اندازہ حالیہ بجٹ سے لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف زدہ اس بجٹ میں تعلیم کے شعبے میں سے مجموعی طور پر 20.9 فیصد کمی کی گئی ہے۔ پاکستان کی کل مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کا محض 2.4 فیصد ہی تعلیم پر صرف ہوتا ہے جو کہ اس خطہ کے دیگر ممالک میں سب سے کم تر ہے۔

حالیہ مالی سال کے لیے’ ایچ ای سی‘ نے 55 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بدلے میں انہیں محض 28 ارب روپے ہی دیے گئے ہیں۔ وفاقی بجٹ سے پیشتر ہی ’ایچ ای سی‘ کے بجٹ میں پچاس فیصد کٹوتی کی خبریں گردش میں تھیں اور حکمرانوں نے ڈھٹائی کے ساتھ ان خبروں کی تصدیق کر دی۔ ان کٹوتیوں کے پیش نظر 19 اپریل کو ’ایچ ای سی‘ نے آٹھ نکاتی مسائل کا مسودہ وفاقی حکومت کے سامنے پیش کیا اور یہ صرف مسائل کا نہیں بلکہ آنے والوں دنوں میں تعلیمی شعبے میں ہونے والی ہولناک بربادیوں کا مسودہ ہے۔

۱)ایچ ای سی کے مطابق اس بجٹ کٹوتی کی وجہ سے تمام سکالر شپس ختم کرنا پڑیں گی جس کا شکار 21000 طلبا و طالبات ہوں گے۔

۲) سرکاری یونیورسٹیوں کی فیس کو دُگنا کرنا پڑے گا۔

۳) نئے داخلوں پر سختی سے کٹوتیاں کرنا پڑیں گی۔

۴) نئی یونیورسٹیوں اور کیمپسز کی تعمیر کو فوراً روکنا ہو گا۔

۵) پچھلے تین سالوں میں بننے والی تمام یونیورسٹیوں کے داخلوں پر یکسر پابندی لگانا ہوگی۔

۶) تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کی نئی بھرتیوں پر پابندی لگانا ہوگی۔

۷) ریسرچ کے لیے فنڈنگ کو منجمد کرنا پڑے گا۔

۸) ورلڈ بینک اور برٹش کونسل سمیت تمام شراکتی سکالر شپس کے معاہدوں کو از سر نو ترتیب دینا پڑے گا۔

یہ ہے وہ بربادی جو یہ تبدیلی سرکار لارہی ہے۔

’ایچ ای سی‘ کی بجٹ کٹوتیوں نے اب اپنا اظہا کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ تمام یونیورسٹیوں کی فنڈنگ روک دی گئی ہے۔ پروفیسرز سمیت تمام نئی بھرتیاں بند کر دی گئی ہیں۔ بیشتر ایسے نوجوان جو یورپ، چین اور دیگر ممالک میں سکالر شپس پر تعلیم حاصل کر رہے تھے ان کی گرانٹس روک دی گئی ہیں۔ ’ایچ ای سی‘ نے احکامات صادر کیے ہیں کہ تمام یونیورسٹیاں اپنے سالانہ اخراجات کا بندوبست خود کریں۔ حکام نے یونیورسٹیوں کو خیرات اور بھیک کے ذریعے اپنے اخراجات کا بندوبست کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ عمران خان کی سوچ بھیک سے آگے جا بھی نہیں سکتی کیونکہ ساری زندگی اس نے بھیک کا کاروبار ہی کیا ہے۔ ایسے میں اگر تعلیمی ادارے خیرات اکٹھی کرنے میں جٹ جائیں گے تو پھر تدریسی عمل کا کیا ہو گا؟ اور پھر مالدار افراد اور ملٹی نیشنل کارپوریشنیں جب بھیک دیں گے تو پھر بورڈ آف ٹرسٹیز میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرتے ہوئے اپنے کاروبار اور منافع جات میں بڑھوتری ہی ان کا اولین مقصد ہو گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیمی ادارے علم و آگاہی کی بجائے ان مالدار افراد کے کاروباروں کی وسعت اور ترویج کے لئے خدمات پیش کریں گے اور یونیورسٹیاں مختلف برانڈز کی آوٹ لیٹ بن جائیں گی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی فنڈنگ پر ریسرچ عمل میں لائی جائے گی اور نوجوانوں کے تخلیق کردہ خیالات سے منڈی میں اربوں کے منافع بٹورے جائیں گے۔ یہ بھی کوئی نیا عمل نہیں ہے۔ گوگل، مائیکروسافٹ اور دیگر دیوہیکل ملٹی نیشنل کمپنیاں دہائیوں سے یونیورسٹی طلبہ کی تخلیق پر اپنے پیٹنٹ رائٹس ثبت کرتی آرہی ہیں اور منافعے بٹور رہی ہیں۔ یہی سرمایہ داری ہے۔ لیکن پاکستان میں تو اس لوٹ مار کی کھلم کھلا دعوتیں دی جا رہی ہیں۔ جبکہ یہاں کا تعلیمی نظام عالمی منڈی کے معیارات سے کافی نیچے ہے۔

اس بجٹ میں پرائمری جماعت اور اس سے پہلے کے تعلیمی مراحل کے لیے صرف 2.8 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یقینااصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان بچوں کابچپن روزگار کی تلاش میں سڑکوں اور شاہراہوں پر خاک چھان رہا ہے۔ حکومتی بجٹ کے اعتبار سے ان بچوںکے لیے سالانہ تعلیم کی مد میں فی کس صرف 86 روپے بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اان پڑھے لکھے حکمرانوں کی منافقت کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ جن کی اولادیں یورپ اور امریکہ کی درسگاہوں میں تعلیم کے نایاب زیور سے آراستہ ہو رہی ہیں جبکہ محکوموں کے ہاتھوں سے قلم تک چھین لیا گیا ہے۔ اگر ہم رئیس زادوں کے بچوں کی مکمل تعلیم اور دیگر نصابی اور غیر نصابی عیاشیوں کا درست حساب کتاب بنائیں تو ایک ’برخودار‘ کی اعلیٰ ڈگری کا بجٹ پاکستان کے ان اڑھائی کروڑ سکولوں سے باہر بچوں کے لیے مختص بجٹ کے برابر بنتا ہے ‘ اگر زیادہ نہ ہو تو۔

یہاں پہلے ہی آبادی کا نہایت ہی قلیل حصہ یونیورسٹیوں تک رسائی رکھتا ہے۔ 195 ممالک کی لسٹ میں صرف 14 ممالک ہی ایسے ہیں جو تعلیم پر پاکستان سے کم خرچ کرتے ہیں۔ جن میں جنگ سے تباہ حال مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور افریقی صحرائی خطے شامل ہیں۔ ان نئی پالیسیوں کا نشانہ پھر محنت کش طبقے کی اولادیں ہی بنی ہیں جن پر تعلیم کے حصول کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیے گئے ہیں۔

پاکستان میں یونیورسٹی تک پہنچنے والے طلبہ کا تعلق زیادہ تر متوسط طبقات (جن میں زیادہ تر سرکاری ملازمین ہیں) سے ہے۔ محنت کشوں کی اولادیں تو کالج تک ہی نہیں پہنچ پاتیں اور امرا و اشرافیہ کی نسلیں تو بیرون ملک پروان چڑھتی ہیں۔ ایسے میں تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں سے ہونے والے فیسوں میں اضافے اور تنخواہوں میں اضافے کے مابین ایک وسیع خلیج ہے۔ دراصل تنخواہیں بڑھنے کے برعکس مہنگائی کے تناسب میں کہیں زیادہ سکڑ چکی ہیں اور اس سے بڑھ کر ٹیکسوں کی شرح بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے جس سے پہلے نسبتاً بہتر زندگی گزارنے والوں پر بھی حالات تنگ کر دیے گئے ہیں۔

ویسے تو پاکستانی معاشرے میں خواتین کے روزگار کے مواقع نہایت ہی قلیل ہیں لیکن جن دوشعبوں، صحت اور تعلیم، میں خواتین کی کثیر تعداد ملازمت رکھتی ہے ان میں کٹوتیوں اور برطرفیوں کے ذریعے خواتین سے باعزت روزگار کے مواقع بھی چھینے جا رہے ہیں۔

ان حالات میں داخلوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، ڈگریاں کی تصدیق کی فیسوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے، ’ ایم فل‘ اور’ پی ایچ ڈی‘ کے پروگرامات ختم ہو رہے ہیں، پچھڑے ہوئے علاقوں کے طلبہ کے کوٹے میں کم لائی جا رہی ہے۔ جبکہ مفت اور معیاری تعلیم کا حصول ہر بچے اور بچی کا بنیادی آئینی حق ہے۔ اول تو پسماندہ علاقہ جات میں ہی تعلیمی انفراسٹرکچر تعمیر ہونا چاہیے تاکہ کسی کو تعلیم کے حصول کے لیے گھر بدر نہ ہونا پڑے۔ لیکن اس حکومت نے گھر کے پاس تعلیم کیا دینی تھی الٹا جو تھوڑی بہت سہولیات گھروں سے سینکڑوں کلومیٹر دور پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو میسر تھیں‘ وہ بھی چھینی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں پہلے ہی آبادی کی ایک وسیع اکثریت تعلیم کی روشنی سے محروم ہے۔ ایک طرف کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں تو دوسرے طرف تعلیم کے درجات میں طالب علموں کی چھانٹی مسلسل جاری رہتی ہے اور ایک قلیل تعداد ہی کالج تک پہنچتی ہے اور پھر اس کا بھی صرف 9 فیصد یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتا ہے۔ اوراب حکمران سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ تعداد بھی صرف اشرافیہ اور سرمایہ داروں کی اولادوں تک محدود ہوجائے۔ اس تبدیلی سرکار نے وزیر اعظم ہاوس سمیت بیشتر نئی یونیورسٹیاں بنانے کا ااعلان کیا تھا لیکن ’ایچ ای سی‘ کے بجٹ میں 50 فی صدسے بھی زیادہ کی کٹوتیاں ان کی عوام دشمن اور منافقانہ روش کا اظہار ہے۔

لیکن پھر آخری تجزیے میں فیسوں میں ہی کئی گنا اضافہ ہوگا۔ پہلے ہی ہر سال فیسوں میں تقریباً 10 فیصد کا سرکاری اضافہ ہوتارہاہے اور اب یہ بجٹ کٹوتیاں فیسوں میں دیوہیکل اضافے کا موجب بنیں گی۔ 10سے 15 فیصد کٹوتی کا مطلب یہ نہیں کہ فیسیں بھی 10 سے 15 فیصد بڑھانے سے معاملات حل ہوجائیں گے۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں یہ کٹوتیاں کئی یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اپنا اظہار 100 فیصد اضافے یا اس سے بھی زیادہ کی شکل میںکریں گی۔ ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات جو پہلے ہی مہنگی اور ناگفتہ بہ ہیں‘ مزید مہنگی اور خراب ہوجائیں گی۔ البتہ نجی ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کے مالکان کی لازماً چاندی ہو گی۔ پچھلے کچھ عرصے سے خصوصاً طلبا و طلبات کے نجی ہاسٹلز نے ایک مکمل انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سہولیات انتہائی نہ گفتہ ہونے کے باوجود طلبہ کو ان ڈربوں میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ چار نشستوں والے کمرے میں چھ افراد کو گھسیڑ نا ایک معمولی بات ہے۔ ایسی جگہوں پر باتھ روموں سے لیکر بجلی تک کی سہولیات اذیت بن جاتی ہیں۔ اور طالبات کے لیے تو مواقع مزید تنگ کر دیے جاتے ہیں۔ ہاسٹل کے اوقات کار سے لیکر میس کے کھانے کی منزل تک تمام راستے ان کے لیے سکڑ جاتے ہیں۔”پاس کر‘یا برداشت کر“ ہی وہ واحد نصیحت ہے جو یہ بیمار سماج ان کو دیتا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے خواتین نے جب برداشت کرنے کی حد عبور کی ہے تو بڑے سے بڑے رجعتی سماجوں کو توڑ کر نئے سماج اور نئے اقدار کی بنیاد رکھی ہے۔

سامراج کے پروردہ ان حکمرانوں کے لیے اتنا جبر کرنا قطعاً آسان نہ ہوگا۔ یہاں فی الوقت طلبہ تحریک مضبوط بے شک نہیں ہے لیکن یہ ہمیشہ ایسے نہیں رہنے والی۔ یہی طلبہ تھے جنہوں نے ایوبی آمریت کے خلاف سب سے پہلے بغاوت کی تھی، یہی انقلابی نوجوان ہی ضیا کے سامنے ڈٹ گئے تھے اورانہوں نے ہی کئی بار فیسوں میں اضافے کی سازش ناکام بنائی ہے۔ یہ اب بھی اٹھیں گے۔ محنت کشوں، اساتذہ اور دیگر محکوموں کے ساتھ جڑت بنا کر یہی نوجوان بغاوت کا علم بلند کریں گے اور یہ بغاوت اس پورے نظام کو درگور کرتے ہوئے ایک سرخ سویرے کی بنیاد رکھے گی۔