لال خان
آج ہی کے دن 22 جولائی 2016ء کو پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کے ایک اہم رہنما معراج محمد خان ہم سے بچھڑ گئے تھے۔ ان کی وفات پر بہت سے افراد نے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور ان کی زندگی کے کارناموں کو سراہا۔ لیکن سب سے تکلیف دہ تبصرہ ایک ”ترقی پسند“ دانشور کا تھا، جس میں انہوں نے معراج کی وفات کے ساتھ ہی جدوجہد اور اس نظام کو بدلنے کی لڑائی کے عہد کے خاتمے کا بھی اعلان کیا۔ جو لوگ معراج کے سیاسی رفیق رہے ہیں اور انکے سیاسی جذبے اور جدوجہد کی لگن سے واقف ہیں وہ یہ ضرور گواہی دیں گے کہ معراج کے لیے یہ بہت ہی دکھ اور اذیت کا تبصرہ ہوگا۔ کیونکہ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ ہار ماننے سے انکار کیا۔
ان کی وفات کے بعدانکی سیاسی جدوجہد، پابند سلاسل اذیتوں کو سہنے کی قوت، ایمانداری اور سیاسی جانفشانی پر تو بہت سی باتیں ہوئیں۔ لیکن فیض صاحب کی طرح ان کے سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریات اور ا ن کے اس نظریے کے تحت ہی تشخص اور پہچان کو بیشتر ہمدردوں نے فراموش کیا ہے، شاید شعوری طور پر۔ یہ عمل شاید صرف اس عہدکے کردار کی ہی غمازی نہیں ہے بلکہ ترقی پسند اور روشن خیال دانشوروں اور لیڈروں کی اپنی مایوسی اور ہار ماننے کی کیفیت کی بھی غمازی کرتا ہے۔ معراج محمد خان نے ہمیشہ اپنے آپ کو برملا کمیونسٹ کہا۔ انہو ں نے بہت سے نوجوانوں کو انقلابی عمل میں متحرک ہونے کی نہ صرف تلقین کی بلکہ خود ایسی جدوجہد کے لیے عملی مثال بن کر ان میں انقلابی جذبے بیدارکرنے کی کاوشیں کیں۔
1960ء کی دہائی کے انقلابی طوفانوں میں طلبہ تحریک کا ابھار آمریتوں، اس نظامِ زراور ریاست سے ٹکرانے کی ہمت اور حوصلے سے بھرپور تھا۔ معراج نے پاکستان میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) کی بنیادیں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جو طویل عرصے تک بائیں بازو کی مضبوط طلبہ تنظیم رہی۔ لیکن وسیع تر محنت کشوں اور عوام میں انکی پہچان اس وقت ہوئی جب انہوں نے دوسرے بائیں بازو کے ساتھیوں سے مل کر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جب 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو معراج اس کے بانیوں میں سے تھے۔ پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات اور 1970ء کے انتخابی منشور میں انقلابی سوشلزم کو پارٹی نظریاتی بنیاد بنانے والوں میں معراج کا اہم کردار تھا۔ 1968-69ء کے انقلاب کا آغازبنیادی طور پر طلبہ تحریک سے ہوا تھا۔ خصوصاً کراچی میں معراج نے طلبہ میں انقلابی نظریات پر جو کام کیا تھا، جو کیڈرز بنائے تھے، وہی اس تحریک کی پہلی چنگاری بنے تھے۔ اس کے بعد پھر جب یہ تحریک مزدوروں، دہقانوں اور معاشرے کی دوسری مظلوم اور استحصال زدہ پرتوں میں داخل ہوئی تو محنت کشوں نے اپنا اقتصادی اور سماجی کردار ادا کرتے ہوئے اس ملک کی معیشت کو روک دیا۔ پہیہ جام اور عام ہڑتالوں سے ریاست کے وجود کو چیلنج کردیا گیا تھا۔ ایسی کیفیات میں ہی انقلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور سوشلسٹ انقلاب کی منزل قریب آکر محنت کش عوام کے لیے سرمائے کے اس اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بنتی ہے۔ اس کیفیت میں ہی محنت کش آگے بڑھ کر اس پورے نظام کو بدل سکتے ہیں۔ ایسے مواقع تاریخ میں بار بار نہیں ملتے۔ معراج محمد خان جیسے کارکنان، محنت کش طبقات اور طلبہ کی بڑی تعداد نے یہ انقلابی صورتحال تو پیدا کردی تھی لیکن المیہ یہ تھا کہ اس انقلاب کو منظم اور فتح مند کرنے والی (انقلابی) پارٹی موجود نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی ایک ریڈیکل بائیں بازو کی مقبول عوامی پارٹی بن کر ابھری لیکن یہ کوئی مارکسسٹ لینن اسٹ پارٹی کبھی نہیں تھی۔ لیکن چونکہ انقلابی ریلا چل نکلا تھا اور اس نے حکمران طبقات اور ان کی پروردہ ریاست کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا، اس لیے حکمرانوں کا خوف اور کپکپاہٹ بے سبب نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ریلے کو انتخابی سیاست میں زائل کرنے کی کوشش کی گئی اور محنت کش طبقے نے جب حکمرانوں کواس طریقہ کار میں بھی مات دے دی تو انہوں نے پھر قومی شاونزم اور جنگی اقدامات کے ذریعے انقلاب کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن معراج محمد خان نے حکمرانوں کی تمام چالبازیوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ لیکن ان کی پہلی لڑائی پیپلز پارٹی کے اندر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے ہی تھی۔
چونکہ پیپلز پارٹی اپنے سوشلسٹ پروگرام کی وجہ سے 1968-69ء کے انقلاب کا اظہار بن چکی تھی اس لیے معراج محمد خان نے پیپلز پارٹی کے اندر دائیں بازو کے خلاف جہد مسلسل جاری رکھی۔ 1970ء کے انتخابات سے پیشتر پیپلز پارٹی کے ہالا کنونشن میں معراج کا یہ فقرہ بہت مشور ہوا ”ہماری سیاست پرچی نہیں برچھی کی ہے“۔ اس میں نہ صرف ان کی حکمرانوں کے خلاف لڑائی کی جرات نظر آتی ہے بلکہ اس نظام سے مکمل بغاوت کی بھی جرس سنائی دیتی ہے۔ لیکن پھر پیپلز پارٹی جب ایک زلزلہ خیز عرصے کے بعد اقتدار میں آئی یا لائی گئی تو معراج کے لیے یہ لڑائی اور بھی کٹھن ہو گئی۔ کیونکہ یہاں اب صرف پارٹی کے اندر گھسے ہوئے حکمران طبقات کے نمائندوں سے لڑائی نہیں تھی بلکہ جس ریاست میں پیپلز پارٹی نے اقتدار حاصل کیا تھا وہ استوار ہی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تھی۔ عمومی طور پر یہ تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ اقتدار میں آکر کوئی انفرادی لیڈر یا سیاسی پارٹی نظام بدل سکتی ہے۔ لیکن جب اقتدار ہی نظام کا محافظ ہو تو پھر پارٹیاں اور حکومتیں اقتدار نہیں چلاتیں اقتدار ان کو چلایا کرتے ہیں۔ معراج کو بھٹو صاحب نے مشیر اور وزیر بھی بنایا کیونکہ وہ پارٹی میں دائیں اور بائیں بازو کے توازن کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن طبقاتی کشمکش چونکہ ناقابل مصالحت ہوتی ہے اس لیے دائیں اور بائیں بازو کی حقیقی سیاست کا کبھی کوئی ملن، کوئی الحاق ممکن ہی نہیں ہوتا۔ جب کراچی کے لانڈھی اور سائٹ کے علاقوں میں مزدوروں پر فائرنگ کی گئی تو اسی روز معراج نے بھی وزارت کا بوجھ پھینک دیا۔ اس کے بعد معراج محمد خان جن پر ایوبی آمریت نے ظلم ڈھائے تھے”اپنی“ پارٹی کی حکومت کے ستم بھی اٹھاتے رہے۔ انکو ”حیدرآباد سازش کیس“ تک میں زیرِ عتاب لایا گیا۔ جب ضیا الحق نے مارشل لگایا اور کیس کو عیاری سے ’سیاسی‘ طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تو معراج اس کی ہر پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے اسی ضیا الحق کے وحشیانہ جبر کے خلاف سربکف ہوگئے اور بھٹو کے خلاف سیاست کرنے سے انکار کردیا۔ ضیا الحق نے جب معراج کو کراچی میں ”مہاجروں“ کی سیاست کو ابھارنے کے لیے بھاری انعام واکرام کی پیش کش کی تو انہوں نے اس نسلی اور لسانی سیاست کو کراچی کے محنت کشوں کی یکجہتی کو توڑنے اور شہر کو بربادکرنے کا منصوبہ قرار دے کر ضیا کے منہ پر اس پیشکش کو دے مارا۔
معراج اسلامی بنیاد پرستی اور امریکی ریاست جیسی سامراجی قوتوں کے خلاف شدید جذبات رکھتے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی اس وحشت اور غلامی کی سیاست کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ لیکن معراج جس ’پیکنگ نواز‘ رجحان (چین نواز ماؤسٹ رجحان) سے متاثر تھے اس میں ”مقامی سرمایہ دارطبقے“ کے بارے نظریاتی ابہام موجود تھا۔ یہ ایک بنیادی نظریاتی غلطی تھی جو ان کی انقلابی جدوجہد کو درست راستہ فراہم کرنے میں رکاوٹ بھی بنی رہی۔ آج اگر غور کریں تو سامراجی جارحیت ہو یا مذہبی جنونیت، دونوں بربادیوں میں یہاں کے سرمایہ دار اور بالادست طبقات بالواسطہ یا براہِ راست طور پر شامل ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقات کا معاشی اور سماجی کردار اتنا رجعتی ہے کہ ان میں ترقی پسندی کی ہلکی سی سوچ یا رحجان بھی جنم نہیں لے سکتا۔
تمام تر نظریاتی کمزوری کے باوجود معراج محمد خان اس سرمائے کی سیاست کے کوئی روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ ایک بہادر اور بے لوث سیاسی کارکن تھے۔ انقلاب ہی ان کا مقصد اور منزل رہا۔ گو معراج محمد خان کو ان کی زندگی میں سوشلسٹ انقلاب دیکھنا نصیب نہیں ہوا لیکن جب یہاں کے محنت کش اور نوجوان نجات کی یہ منزل اور معراج حاصل کریں گے تو معراج محمد خان کا نام بھی اس سفر کے راہیوں میں نمایاں رہے گا۔