لال خان
اگر ہم غور کریں تو ایک طویل عرصے سے پاکستان کی رائج الوقت ایلیٹ سیاست عوام کی عدالت سے فرار ہو کر ”قانون کی عدالت“ میں اْدھم مچائے ہوئے ہے۔ انگریز سامراج، اسلامی اور پاکستانی ماہرین کے متضاد امتزاج پر مبنی ان قانونی عدالتوں میں زیادہ تر مقدمات ان سیاست دانوں کی کرپشن کے ہی چل رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ بھی اسی سیاست کو دہرائے چلے جارہے ہیں۔ ساری کوریج، پروگرام اور ٹاک شوز کے موضوعات انہی مقدمات تک ہی محدود ہیں۔ گلیوں، بازاروں، فیکٹریوں، کھیتوں اور مزدور بستیوں سے سیاست کو کسی ان دیکھے خوف کے کرفیو کے ذریعے ٹیلی ویژن سکرینوں میں قید کروا دیا گیا ہے اور ان لوگوں کو ایک حوالے سے سیاست اور زندگی سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اینکر پرسن، حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے جارحانہ وکیل زیادہ اور صحافی کم محسوس ہوتے ہیں۔ ٹاک شوز بے معنی تکرار کے دنگل بن گئے ہیں۔ اعلیٰ سیاست دان کا معیار زیادہ بلند پیمانے کا جگت باز ہونا رہ گیا ہے۔ ایک تماشا لگا ہواہے جس کے گرد ریٹنگ بنتی ہے اور ٹیلی ویژن چینلوں کے اداکاروں کو صحافی اور سیاستدان بنانے کے معیار طے کرتی ہے۔ عوام یہاں سے کوئی رجائیت حاصل کرنے کی بجائے صرف مایوسی اور بدگمانی کاشکار ہورہے ہیں۔
ان میڈیا چینلوں پر ایشو صرف کرپشن کا ہی ہے۔ لیکن اگر اس ایشو پر غور بھی کریں تو اس کو رائج الوقت نظام کی ذلتیں اور سلگتا ہوا بحران ہی ایک ایسے معاشرے میں وسعت دے رہا ہے جس میں بھاری اکثریت اذیتوں کا شکار ہے۔ اگر کوئی ریڑھی لگانے والا روزانہ کے سوروپے ”رشوت“ دے کر روزی کماتا ہے تو کرپشن اس میں بھی ملوث ہے۔ کوئی دیہاڑی دار مزدور روزگار کے حصول کے لیے تھڑوں کی لائن پر 10 روپے کی جگہ روز خرید کر اپنی محنت کو اس بازار ِمصر میں سستے سے سستے داموں فروخت کرنے کے لیے گاہک کاذلت آمیز انتظار کرتا ہے، تو وہ بھی دس روپے کی کرپشن کرنے پرمجبورہے۔ کروڑوں کی فیس لینے والے وکیل اور ارب پتی سیاستدان جانے کس کرپشن کے خلاف روز سپریم کورٹ کے سامنے فلمیں بنواتے ہیں۔
معاشرے کی کرپشن کے ٹھوس حقائق ہیں جن پر میڈیا اور سیاست میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ اس کرپشن کو ختم کرنے کے لئے روٹی روزی کی خیرات نہیں بلکہ ان کروڑ ہا محنت کشوں کو روزگار درکار ہے۔ ایسی اجرت درکار ہے جس سے انکی زندگی سے بھوک اور محرومی کا خاتمہ ہوسکے۔ ایسی ملازمت چاہیے جس میں علاج اور بچوں کی تعلیم کی گارنٹی ہو۔ ایسی زندگی چاہیے جہاں ریاستی جبر، جنونی تشدد و اوردہشت گردی کا خوف نہ ہو۔ ایسا انصاف چاہیے جس میں دولت کا کھلواڑ نہ ہو۔ مشہور ضرب المثل ہے کہ اگر کسی بڑے تنے والے پیپل کے درخت کو 302 کی رسی باندھ دی جائے تو وہ بھی سوکھ جاتا ہے۔ دیوانی مقدمات میں جائیدادیں بک جاتی ہیں، نسلیں گزر جاتی ہیں لیکن فیصلے پھر بھی نہیں ہوتے۔ ان انصاف کے مندروں کوسیاست اورریاست اگر اس طرح بے دریغ استعمال کرنے پرتل گئے ہیں تویہ سب سے پہلے ان کی سیاسی ناکامی اورسیاست کی بحیثیت مجموعی دیوالیہ پن کی عکاسی ہے۔
لیکن حکمران طبقات کے یہ تنازعے سیاسی نہیں ہیں، ان کے مختلف دھڑوں کی مالیاتی سرمائے کی لڑائیاں ہیں۔ دولت اورطاقت اس نظام میں لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ دولت کے بغیر یہ حکمران طاقت میں نہیں آسکتے اور طاقت سے ہی وہ اپنی بے پناہ دولت کو مزید بڑھانے کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ لیکن برباد غریب ہورہے ہیں۔ ان عام انسانوں کو بنیادی ضروریات کے لیے ایڑیاں رگڑ نی پڑ رہی ہیں اور یہ حکمران طبقات دولت کی اندھی ہوس میں خود بھی لڑرہے ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام کی زندگیوں اور شعور کو بھی ان تصادموں میں غرق کرنے کے درپے ہیں۔
پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین تجارتی اور مالیاتی خسارے والی ریاست بن چکا ہے۔ اگر اسکی معیشت کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ جس اقتصادی بنیاد پر قائم ہے وہ ٹوٹ پھوٹ رہی ہے۔ لیکن اگر حکمران طبقے کی عیاشیوں اور درمیانے طبقے کی گاڑیوں اور شاپنگ کے کرتب دیکھیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں تو بڑی امارت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمران اور درمیانے طبقات میں پیسے کی فراوانی اس کالے دھن کی بدولت ہے جس کا کوئی حساب وکتاب نہیں۔ لیکن یہ بیمار کالی معیشت اس معاشرے کے جسم کو کسی کینسر کی طرح پْھلا بھی رہی ہے اور کھوکھلا کرکے اس کو ایک سست روی کی موت کی جانب بھی لے جارہی ہے۔ جس میں بربریت کا راج ہے۔ یہ ہے وہ تناظر جو حکمران طبقات کے ماہرین اپنی نجی محفلوں میں پیش کرتے ہیں۔ مایوس اور ناکامی کا پیش منظر۔ اس نظام میں تو پھر ایسے ہی ہوگا۔ سرمایہ کاری اس لیے نہیں ہورہی ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کو ہمارے حکمرانوں کی تمام تر مزدور دشمن گنجائشوں کے باوجود درکار شرح منافع حاصل نہیں ہوتی۔ اگر کہیں ہورہی ہے تو وہاں روزگار پیدا نہیں ہورہا۔ کیونکہ جب جدید ٹیکنالوجی سستی پڑتی ہو تو پھر انسانی محنت کو روزگار فراہم کرکے حکمرانوں نے اپنی منافع خوری کو کم کرنے کے لیے تو یہ کارو بار شروع نہیں کیے ہوتے۔
یہ ساہوکار خیرات تو دے سکتے ہیں لیکن محنت کی اجرت دینے سے گریزاں ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ خیرات انکی نیک نامی کی جعل سازی ان کے گناہوں اور جرائم کی پردہ پوشی کا کام کرتی ہے جبکہ محنت کی اجرت سے انکی کاروباری منافع خوری کو ضرب لگتی ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی، اقتصادی اور ریاستی کیفیتوں کی حالت بہت ہی نازک اور سنگین ہوچکی ہے۔ حکمرانوں کے دھڑوں کی لڑائیوں سے حاکمیت کے شکلیں اور طریقہ کار بدل سکتے ہیں۔ لیکن ان سطحی سیاسی یا ریاستی تبدیلیوں سے معاشی اور معاشرتی بحران ختم نہیں ہوسکے گا۔ وزیر اعظم یا حکمران بدلنے سے نہ تو غریبوں کے حالات بدلتے ہیں اور نہ ہی معاشرے کی ذلت۔ حکمرانوں کی ایسی تبدیلیاں مزید عدم استحکام اورسماجی خلفشار کو جنم دے سکتی ہیں۔ ساری پارٹیاں سرمایہ دارانہ ہیں، فیصلہ یہ ہوناہے کہ انکے سامراجی اور مقامی آقاؤں نے کونسی حکمت عملی بنانی ہے جس سے وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس صورتحال میں وہ جو بھی کریں گے غلط ہوگا۔ جب بنیادیں کھوکھلی ہو جائیں تو ان پر کوئی عمارت ٹھہر نہیں سکتی۔
ہر طرف مایوسی کا اندھیرا ہونے کے باوجود امید کی بھی ایک کرن موجود ہے۔ وہ محنت کش طبقات اور غریب عوام جن کو پہلے سیاست سے بے دخل کردیا گیا اب معیشت کے دھارے سے باہر دھکیلا جارہا ہے۔ وہ بھی تو آخر انسان ہیں۔ یہ محرومی، یہ ذلت ورسوائی اور جبرواستحصال کی شکار زندگی وہ کب تک برداشت کریں گے۔ آج ان کا وقت شاید خراب ہے لیکن ہمیشہ تو ایسے نہیں چلے گا۔ ایسے وقت بھی آئے ہیں جب انہوں نے اپنی سیاست، اپنی معیشت اور اپنی ثقافت کا علم بلند کیا اور معاشرے کو ایک انقلاب کے قریب لے گئے۔ وہ پھر بھی ابھریں گے۔ آج کوئی پارٹی محنت کشوں اور غریبوں کی بنیادی ضروریات اور مطالبات کی فراہمی کا کوئی جھوٹا وعدہ بھی نہیں کررہی۔ اسی لیے میڈیا میں کسی ایسی پارٹی کا ذکر نہیں ہے جو محنت کشوں کی نمائندگی کرسکے۔ لیکن پھر یہ محنت کش جب سیاست میں نکل پڑے تو 90 فیصد کی پارٹی 10 فیصد کی پارٹیوں سے کہیں بڑی ہوگی۔ یہ انقلابی طوفان اس سیاست اور معیشت کو اڑا کے رکھ دے گا۔ آج کل تو ایسی بڑی سوچیں سوچنا بھی جرم بنا دیا گیاہے۔ لیکن اگر یہ نہیں ہو گاتو پھر بربادیاں ہوں گی! ان محنت کشوں کی تحریک کو انسانی تہذیب کی بقا کے لیے ابھر کر ہی رہنا ہوگا! کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج!