احسن جعفری

ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ملک کے بیشتر علاقے دریا کا منظر پیش کر نے لگ گئے ہیں۔ بارشوں کا یہ سلسلہ تھوڑے تھوڑے وقفے کیساتھ اگست کا پورا مہینہ جاری رہے گا اور یہ سلسلہ انفراسٹرکچر کے بوسیدہ ڈھانچوں میں اور کتنی تباہی لائے گا اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش بھی بے موقع اور توقع سے زیادہ یا کم ہو رہی ہے۔ پسماندہ شہروں اور دیہاتوں کا تو خیر ویسے ہی حال بہت برا ہے مگر مون سون کی یہ بارشیں نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ نظر آنے والے شہروں کی ترقی کی بھی قلعی کھول کر رکھ دیتی ہیں۔

’مشترک اور نا ہموار ترقی‘ پر مبنی ریاستی انفراسٹرکچر کی اہلیت کا کھوکلا پن جتنا کراچی میں بے نقاب ہوتا ہے اتنا شاید چاغی، تھر یا وزیرستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں بھی نہ ہوتا ہو۔ شہر کے پوش علاقوں میں رہنے والی مڈل کلاس کے گھروں میں جدید ترین اسمارٹ فون سے لے کر اسمارٹ ٹی وی تو موجود ہوتا ہے لیکن اسی گھر میں موجود پانی کے ٹینک خالی ہیں۔ معمول سے ذرا سی زیادہ بارش پاکستان کے سب سے بڑے اور متمدن شہر میں نظامِ زندگی درہم برہم کر کے رکھ دیتی ہے۔ شاہراہیں دریا کا اور پسماندہ علاقوں کی گزرگاہیں گٹر کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔

گرمیوں کی بارش کی اپنی ہی رومانویت ہے۔ شدید گرمی سے نڈھال جسموں پر بارش کی ٹھنڈی ٹھڈی بوندیں تسکین و سرور کا وہ احساس جگاتی ہیں جس کا اظہار الفاظ میں مشکل ہے۔ غالب کی روزِ ابر میں پینے کی خواہش اسی رومانویت کا اظہار ہے۔ لیکن نظام کی پسماندگی نے نہ صرف محنت کش طبقے بلکہ مڈل کلاس کے لئے بھی بارش کی یہ رومانویت ختم کر دی ہے۔ بارش کا پہلا قطرہ زمین کو چھوتا ہے اور مسائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہوا میں معلق بے ہنگم بجلی کے تاروں میں دوڑنے وا لا کرنٹ بارش کے آغاز میں ہی بند کرنا پڑ جاتا ہے اور ایسا کرنا نظام کی مجبوری ہے۔ جن علاقوں میں بجلی بند نہ ہو وہاں ننگی تار وں سے کرنٹ لگنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور انمول انسانی زندگیوں کے چراغ گُل ہوجاتے ہیں۔ یہ نظام اتنا بوسیدہ ہے کہ بارش کے دوران ٹرِپ ہونے والے بجلی کے فیڈر بارش ختم ہونے کے بعد بھی کئی کئی دنوں تک چالو نہیں ہو پاتے۔ جن علاقوں میں پانی کی لائنوں میں کبھی پانی نہیں آتا وہاں کئی کئی فٹ بارش کا پانی کئی کئی دن تک کھڑا مکینوں کامنہ چڑاتا رہتا ہے۔ شہر کے پسماندہ علاقوں میں رہنے والے ویسے ہی کوئی صحت مند زندگی گزارنے کے متحمل نہیں‘اس پربارش کا گندہ پانی گھروں اور محلوں میں جمع ہو جاتا ہے جو بلدیہ کی محنت سے کم اور سورج کی حدت سے زیادہ نکلتا ہے اور اپنے پیچھے بیماریوں کا جمعہ بازار لگا جاتا ہے۔ ’آزادی‘ کے بہتر سال پورے ہو رہے ہیں لیکن ریاست نکاسی آب کا نظام، جو شہروں کی تعمیر کے ابتدائی ڈھانچے کا حصہ ہوتا ہے، بنانے میں بری طرح سے ناکام ہے۔

اس کے ساتھ ہی بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ محنت کشوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے حکمرانوں کے تماشے لگنے بھی شروع ہوجاتے ہیں۔ کوئی پچھلی حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے تو کوئی گھٹنے سے بھی نیچے پانی میں کشتی لے کر یا لانگ بوٹ پہن کر مٹر گشت کرنے نکل آتاہے۔ سندھ میں اگر کراچی کی بات کی جائے تو کہنے کو ایم کیو ایم زیرِ عتاب ہے لیکن آج بھی کراچی کا میئر ایم کیو ایم کا ہی ہے۔ 1986ء کے بلدیاتی الیکشن سے لے کر آج تک ایم کیو ایم کراچی کے محنت کشوں کا کوئی بھی بنیادی مسئلہ‘ بشمول سائنسی علاج، معیاری تعلیم، باعزت روزگار، محفوظ اور با عزت ٹرانسپورٹ، صاف اور صحت بخش پینے کا پانی یا نکاسی آب کا نظام‘ حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس ناکامی کی وجہ اس نظام کا دیوالیہ پن ہے نہ کہ کرپشن یا اختیارات کی کمی‘ جس کا رونا ایم کیو ایم کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے۔ نظام اور حکمرانوں کی نااہلی کو چھپانے کے لئے نسلی منافرت کی بنیاد پر بنی اس پارٹی نے ہمیشہ محنت کشوں کی صفوں میں پھوٹ ڈلوائی اور نسلی تعصب کو ہوا دی جس کے نتیجے میں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اگر ایم کیو ایم نے سندھ کے محنت کشوں کو لہولہان کیا ہے تو پیپلز پارٹی نے بھی ان کے لئے کو ئی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہائیں۔ اگرجنوبی سندھ میں کراچی پر ایم کیو ایم نے حکومت کی ہے تووفاق میں تین مرتبہ حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی شمالی سندھ میں کسی نہ کسی شکل میں پچھلے 30 سال سے راج کر رہی ہے جس میں شہریوں کو کوئی ایک بھی بنیادی سہولت میسر نہیں آسکی۔ دریائے سندھ کے کنارے رہنے والے سخت ترین گرمی کے دنوں میں بھی کئی کئی دن پانی کو ترستے ہیں اور جب بارش ہو تو کئی کئی دن پانی گلیوں اور محلوں میں کھڑا رہتا ہے۔

پھر آتا ہے نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ادارہ جو وفاق کے تحت کام کرتا ہے لیکن کبھی کام کرتا نظر نہیں آیا۔ باقی تمام اداروں کی طرح اس کے چیئرمین بھی ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔ بارش اور سیلاب جہاں بلدیہ کا کچا چٹھا کھولتے ہیں وہیں اس وفاقی ادارے کی اہلیت بھی سب کے سامنے کھل کھلا کر آجاتی ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پر سب سے پہلا پیغام ”بہترین تیاری‘حادثات سے دوری“ لکھا دکھائی دے گا مگر ہر سال یہ ادارہ کیا تیاری کرتا ہے یہ آج بھی نا معلوم ہے۔ سیلاب یا بارشوں سے متاثرہ علا قوں میں امدادی کاموں کی تصاویر اور فوٹیج میں خاص طور سے فوجی سپاہیوں کو امدادی کاموں میں شریک دکھایا جاتا ہے اور ہمیشہ کی طرح سپاہیوں کی قربانیوں کا سہرا جرنیلوں کے سر بندھتا ہے۔

جب سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی ہے اس کے پاس سوائے پچھلی حکومتوں کو کوسنے کے اور کوئی کام نہیں ہے۔ نظام کی نااہلی کے عہد میں نان ایشوز پر ہی سیاست کی جا سکتی ہے۔ حقیقی عوامی مسائل کا حل نہ پہلے کے حکمرانوں کے پاس تھا اور نہ اس تبدیلی سرکار کے پاس ہے۔ ایم کیو ایم سے لے کر پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی، نون لیگ، پی ٹی آئی یا پردے کی پیچھے کی ریاست سب ہی اسی سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں کا ٹولہ ہیں۔ جن کا طریقہ واردات ایک دوسرے سے تھوڑا الگ ہے۔

یہاں سوال پھرپیداواری نظام کی اہلیت کا ہی آتا ہے جو سماج میں کسی بھی قسم کی دیرپا ترقی دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے عہد میں نظام کے سوال کو خارج از بحث قرار دے کر کسی بھی قسم کی ترقی یا تبدیلی کی باتیں صرف اور صرف دیوانے کا خواب یا محنت کش طبقے کودیدہ و دانستہ دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہیں۔ ایک ایسا سماج جس میں بارشوں، سیلابوں اور دوسری قدرتی آفات سے نمٹنے اور نقصانات کو کم سے کم یا ختم کرنے کی صلاحیت ہو وہ آج کے عہد میں صرف منصوبہ بند معیشت کے تحت ہی ممکن ہے۔ جس کے لئے محنت کش طبقے کو اس نظامِ ِزر کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور ایک سوشلسٹ سماج تخلیق کرنا ہوگا۔