عمران کامیانہ
ہر نظام کو جواز کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی نظام تاریخی طور پر ترقی پسندانہ کردار ادا کر رہا ہوتا ہے تو اس کے حکمران طبقے میں بھی اعتماد نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اپنے نظام کے ابھار کے حالات میں وہ بڑے رحمدل اور سخی ہو جاتے ہیں۔ جبر کی ضرورت ہر طبقاتی سماج میں موجود رہتی ہے۔ لیکن ایک ابھرتے ہوئے نظام کے جبر کا تاریخی کردار ایک زوال پذیر نظام کے جبر سے مختلف ہوتا ہے۔ جذبات اور اخلاقیات کو ایک طرف رکھ کے بات کریں تو اول لذکر نوعیت کا جبر ایک ’ترقی پسندانہ‘ کردار کا حامل ہوتا ہے۔ جبکہ موخذکر صورت میں جبر کا کردار رجعتی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ جبر جس نظام کو قائم رکھنے کے لئے کیا جا رہا ہوتا ہے وہ تاریخی طور پہ ایک رجعتی کردار اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ آج سرمایہ داری ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے۔
لیکن صرف جبر اور دھونس سے کوئی نظام قائم نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کی نظریاتی اور نفسیاتی دھاک بٹھانی بھی ضروری ہوتی ہے۔ لوگوں کو یہ باور کروانا پڑتا ہے کہ ان کے مسائل کا حل مروجہ نظام کے اندر ہی موجود ہے۔ بس تھوڑے صبر و تحمل اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سامراجی ادارے ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی نیا شوشا چھوڑتے رہتے ہیں۔ ایسی پروپیگنڈا مہمات میں زیادہ تر یکطرفہ، ادھورے اور گمراہ کن اعداد و شمار کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کبھی ’میلینیم ڈولپمنٹ گولز‘(جن میں زیادہ تر گولز کو گول مول ہی کیا گیا ہے) کو بنیاد بنا کے مہم شروع کی جاتی ہے کہ منڈی کی معیشت دنیا میں غربت کم کر رہی ہے‘ اوسط عمر میں اضافہ ہو رہا ہے‘ مڈل کلاس ابھر رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح وقتاً فوقتاً کچھ ممالک کو سرمایہ داری کی ’سیکسس سٹوری‘ کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ دہائیاں قبل تک جاپان اور پھر ’ایشین ٹائیگرز‘ کا بڑا چرچہ ہوتا تھا۔ پچھلے عرصے میں برازیل، روس، چین، جنوبی افریقہ اور انڈیا، جنہیں مجموعی طور پہ برکس ممالک (BRICS) ممالک کہا جاتا ہے، کی ترقی کے بڑے گن گائے جاتے رہے ہیں۔ ان میں چین اور ہندوستان کے سوا باقی تمام ممالک کی ’ابھرتی معیشتیں‘ ابھرنے سے پہلے ہی بیٹھ چکی ہیں۔ چین کی معیشت کی شرح نمو (گروتھ ریٹ) بھی 2011ء کے بعد گرتے گرتے نصف سے کم رہ چکی ہے (چین کی ریاست اور معیشت کی نوعیت کا سوال اور تناظر الگ سے تفصیلی جائزے کا متقاضی ہے)۔
چین کے علاوہ برکس ممالک کی فہرست میں ہندوستان تاحال بظاہر تیز ترقی کرتا نظر آ رہا ہے۔ ہندوستانی معیشت دنیا کی بلند ترین شرح نمو رکھنے والی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے (کچھ مہینے قبل اس کی شرح نمو سب سے زیادہ تھی)۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر سرمایہ داری کے معذرت خواہان اور پاکستان جیسے ممالک کے لبرل حلقوں میں ہندوستان کی مبینہ ترقی کے حوالے سے خاصی خوش فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی اس ترقی کو نہ صرف بہت مبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا ہے بلکہ یہ کسی صحتمند کردار سے عاری ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غیر مستحکم اور ناہموار بھی ہے۔ جسے سمجھنے کے لئے معاشی، سیاسی اور سماجی بنیادوں پر ہندوستان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
خالصتاً معاشی حوالے سے بات کی جائے تو ہندوستانی معیشت کے گروتھ ریٹ کے سرکاری اعداد و شمار میں خاصی ہیر پھیر سے کام لیا جاتا ہے۔ یعنی جتنی شرح نمو ظاہر کی جاتی ہے حقیقت میں اس سے کافی کم ہے۔ گزشتہ دنوں ہارورڈ یونیورسٹی کے ’مرکز برائے عالمی ترقی‘ نے ایک تفصیلی تحقیق شائع کی ہے جس کے مطابق 2011-12ء کے بعد ہندوستانی معیشت کا گروتھ ریٹ جانچنے کے لئے اپنائے گئے طریقہ کار ناقص ہیں۔ لہٰذا 2011-12ء سے 2016-17ء تک کے عرصے میں سرکاری طور پہ معیشت کی اوسط شرح نمو، جو تقریباً 7 فیصد ظاہر کی گئی ہے، درست نہیں ہے۔ اس عرصے میں حقیقی شرح نمو 4.5 فیصد کے آس پاس رہی ہے۔
2015ء میں بھی ہندوستان کے ادارہ شماریات نے جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو اچانک ازسر نو ترتیب دے کے 2 فیصد سالانہ تک بڑھا دیا تھا۔ تھوڑی تکنیکی زبان میں بات کی جائے تو جی ڈی پی میں سے مہنگائی کا اثر نکالنے کے لئے صارفی قیمتوں (Consumer Prices) کی بجائے پیداواری قیمتوں (Production Prices) کا استعمال کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ یوں ہندوستان کا گروتھ ریٹ اتنا معجزاتی نہیں ہے جتنا ظاہر کیا جاتا ہے۔
معیشت میں جو نمو ہو رہی ہے وہ بھی زیادہ تر ’جاب لیس گروتھ‘ ہے جو نیا روزگار پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی ایک وجہ بڑے پیمانے پر پرانے روزگار کا خاتمہ بھی ہے۔ مثلاً 2016ء اور 17ء میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں پندرہ لاکھ نوکریوں کا خاتمہ ہوا ہے۔ 2009-10ء میں آئی ٹی میں ایک ارب ڈالر کی برآمدات پیدا کرنے کے لئے اوسطاً 31846 ملازمین درکار تھے جو 2015-16ء میں کم ہو کے صرف 16055 رہ چکے تھے۔ بڑے پیمانے کی صنعتی پیداوار بھی دنیا بھر میں تیزی سے انسانی محنت سے آٹومیشن پر منتقل ہو رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں روزگار میں اضافے کے بغیر پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی سرمایہ کاری ’لیبر انٹینسو‘ سے ’کیپیٹل انٹینسو‘ بن رہی ہے۔ جس کی وجہ سے جاب لیس گروتھ کا مظہر صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہم نے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں بھی دیکھا ہے کہ معیشت کی شرح نمو جتنی اوپر گئی ہے اس مناسبت سے نیا روزگار پیدا نہیں ہوا ہے۔
گزشتہ دس سالوں کے دوران ہندوستانی معیشت کے 7 فیصد سے زائد کے گروتھ ریٹ کے باوجود نئے روزگار کی تخلیق کی سالانہ شرح 2.87 فیصد سے گر کے ایک فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔ آبادی میں اضافے اور ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہونے والے نئے نوجوانوں کی شرح اس سے زیادہ ہے۔ جس کے نتیجے میں بیروزگاری میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی یہ ایسی ترقی ہے جو بیروزگاری میں اضافہ کر رہی ہے!
جو روزگار پیدا ہو رہا ہے وہ بھی زیادہ تر انفارمل سیکٹر (غیر دستاویزی شعبے جو کالی معیشت تشکیل دیتے ہیں) میں ہے جس میں محنت کشوں کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے۔ یوں یہ زیادہ تر کم اجرتوں پر مبنی دہاڑی دار اور غیر مستقل روزگار ہے جس سے غربت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل ’عظیم پریم جی یونیورسٹی‘ نے ’محنت کش ہندوستان کی حالت‘ کے عنوان سے ایک ہوشربا رپورٹ شائع کی جس کے مطابق ملک کی مجموعی ورک فورس کا صرف 1.6 فیصد حصہ 50 ہزار روپے یا اس سے زیادہ اجرت پاتا ہے جبکہ 57 فیصد ریگولر ملازمین کی اجرت 10 ہزار وپے سے بھی کم ہے۔ غیر مستقل محنت کشوں میں سے 59 فیصد کی آمدن 5 ہزار سے بھی کم ہے۔ مستقل روزگار سے وابستہ محنت کشوں کی اوسط آمدن ساڑھے تیرہ ہزار روپے جبکہ غیر مستقل محنت کشوں کی صرف 5853 روپے ہے۔
اسی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) میں 10 فیصد اضافے سے روزگار میں صرف 1 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ ”1970ء اور 80 ء کی دہائیوں میں جب جی ڈی پی کی شرح نمو 3تا 4 فیصد تھی‘ روزگار میں اضافے کی شرح تقریباً 2 فیصد تھی۔ لیکن 1990ء کے بعد اور بالخصوص 2000ء کے بعد جی ڈی پی کی شرح نمو تو 7 فیصد تک پہنچ گئی لیکن روزگار میں اضافے کی شرح ایک فیصد یا اس سے بھی کم رہ گئی ہے…“
یہ اعداد و شمار ہندوستان سمیت پوری دنیا میں 1980ء کے بعد کی نیولبرل سرمایہ داری کی ترقی کے حقیقی کردار اور مضمرات کو واضح کرتے ہیں۔
دولت اور آمدن کی تقسیم کے حوالے سے بھی ہندوستان کا شمار دنیا کے انتہائی ناہموار ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت اور امارت کی تقسیم ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع ہوتی جاتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک کی 58.4 فیصد دولت پر صرف ایک فیصد آبادی کا قبضہ ہے۔ 2000ء سے 2017ء تک اس عدم مساوات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ 1980ء میں قومی آمدن میں اوپر کی ایک فیصد آبادی کا حصہ صرف 6 فیصد تھا جو 2015ء میں کئی گنا اضافے کے ساتھ 22 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
’آکسفیم‘ کے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ خوفناک ہیں جن کے مطابق ہندوستان کی 77 فیصد مجموعی دولت پر آبادی کا 10 فیصد امیر ترین حصہ قابض ہے اور 2017ء میں پیدا ہونے والی دولت کا 73 فیصد حصہ صرف1 فیصد امیروں کے حصے میں آیا۔ جبکہ آبادی کے غریب ترین 50 فیصد کی پونجی میں اوسطاً صرف 1 فیصد کا اضافہ ہوا۔ ارب پتیوں کی دولت میں دس سال کے دوران دس گنا اضافہ ہوا ہے اور ان کی مجموعی دولت ہندوستان کے وفاقی بجٹ (24422 ارب روپے) سے زیادہ ہے۔ 6 کروڑ سے زائد ہندوستانی شہری ہر سال (یعنی فی سیکنڈ دو افراد) صرف مہنگے علاج کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ ایک بنیادی اجرت پانے والے محنت کش کو کسی بڑی گارمنٹ کمپنی کے بڑے افسر جتنی تنخواہ کمانے کے لئے 941 سال درکار ہوں گے!
آکسفیم ہی کے مطابق زچگی کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی اموات میں سے 17 فیصد جبکہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں سے 21 فیصد صرف ہندوستان میں واقع ہوتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق آبادی کا نصف حصہ، جو 60 کروڑ سے زائد انسان بنتے ہیں، بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہے۔
تین کروڑ سے زائد خاندان آج بھی بجلی جیسی سہولت سے محروم ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار میں ”ترقی“ کچھ ایسے بھی ظاہر کی جاتی ہے کہ جس دیہات میں صرف 10 فیصد خاندانوں کو بجلی کی سہولت میسر ہو اسے ’الیکٹریفائڈ‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
کسانوں میں بڑھتی ہوئی خودکشیاں دیہی علاقوں میں پائی جانے والی شدید غربت اور استحصال کی غمازی کرتی ہیں۔ صرف مہاراشٹرا میں 2015ء سے 2018ء تک کے عرصے میں 12 ہزار سے زائد کسانوں نے خودکشیاں کی ہیں جبکہ 1995ء کے بعد سے یہ تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر جاتی ہیں (10 خودکشیاں روزانہ)۔ خود حکومت کے مطابق 1995ء کے بعد سے ملک بھر میں تقریباً تین لاکھ کسان خود کشی کر چکے ہیں۔
اقلیتوں پر جبر و تشدد، مذہبی جنونی گروہوں کے ہاتھوں معصوم انسانوں کا قتل اور خواتین کے بلادکار کے واقعات بھی ہندوستان کے نئے معمول کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔
2016ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے ساڑھے تین لاکھ کیس رجسٹر ہوئے جن میں سے 11.5 فیصد جنسی زیادتی پر مبنی تھے۔ لیکن جنسی زیادتی کے واقعات میں ہر 4 میں سے تین مجرمان کسی سزا کے بغیر بری ہو گئے۔ بلادکار کے اس سے کہیں زیادہ واقعات ایسے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ دہلی خواتین کے لئے دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس مناسبت سے اسے ’ریپ کیپیٹل‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ ’شائننگ انڈیا‘ کا وہ چہرہ ہے جو سامراجی ذرائع ابلاغ شاید ہی کبھی دکھاتے ہوں گے۔
بی جے پی اور مودی کی شکل میں ہندو بنیاد پرستی کا ابھار اسی نظام کی بحران زدہ ’ترقی‘کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ مودی کے دوسری بار وزیر اعظم بن جانے کے بعد یہ حقیقت مزید واضح ہو گئی ہے کہ ہندوستان کے حکمران طبقے کی حاوی جماعت اب کانگریس نہیں بلکہ بی جے پی ہے۔ مودی کے دورِ حکومت میں اگر واقعی کوئی ٹھوس اور دوررس ترقی ہوئی ہوتی تو اسے مذہبی جنون اور پاکستان دشمنی کو انتہاؤں تک نہ لے جانا پڑتا۔ حالیہ عام انتخابات میں منتخب ہونے والے 43 فیصد نمائندگان کے خلاف ریپ، بدعنوانی اور اغوا برائے تاوان سمیت سنجیدہ نوعیت کے جرائم کے مقدمات درج ہیں جن میں بی جے پی کے 116 اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ اس تعداد میں 2014ء کے بعد 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے!
ہندوستانی سیاست اور ریاست پہ ہندو بنیاد پرستی کا یہ غلبہ ایک بار پھر اس مارکسی دعوے کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ سابق نوآبادیاتی ممالک کی پسماندہ سرمایہ داری کے تحت ایک جدید سماج اور صحتمند سرمایہ دارانہ ریاست تشکیل نہیں پا سکتی ہے۔ بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی خوش فہمیوں کے برعکس آئین اور قانون میں محض سیکولرزم لکھ دینے سے کوئی ریاست سیکولر نہیں بن جاتی۔ یہ تقسیم کے بعد کا ’ہندوستان‘ ہے جس پر بھارتی ریاست قابض ہے اور جہاں ڈیپ سٹیٹ بھی اپنی پوری سرگرمی کیساتھ موجود ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی سماج پر ہندو بنیاد پرستی کی فسطائیت ابھی تک فیصلہ کن تسلط قائم نہیں کر پائی ہے۔ آنے والے دنوں میں ہندوستان سمیت پوری دنیا پر منڈلاتا معاشی بحران اور محنت کش طبقے کی تحریکیں خطے کا منظر نامہ بدل کے رکھ سکتی ہیں۔